1
0
Monday 21 Mar 2016 10:57
پاکستان ایران سعودیہ کشیدگی ختم کرانے میں کامیاب ہو جائے گا

دہشتگردی میں ملوث دینی مدارس کو بند کر دیا جائے گا، سردار محمد یوسف

تحفظ نسواں ایکٹ کا معاملہ علماء کی مشاورت سے حل کر لیں گے
دہشتگردی میں ملوث دینی مدارس کو بند کر دیا جائے گا، سردار محمد یوسف
وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سردار محمد یوسف ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک سیاستدان ہیں۔ مسلم لیگ نون کے رکن قومی اسمبلی ہیں۔ مانسہرہ سے 4 دفعہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہونیوالے سردار یوسف ضلعی ناظم بھی رہ چکے ہیں۔ بطور وفاقی وزیر برائے مذہبی امور انہوں نے کامیابی سے حج آپریشن مکمل کرکے اپنی بہترین انتظامی صلاحیتیوں کا ثبوت دیا۔ اس سے قبل، صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخوا رکھنے پر گذشتہ حکومت کیخلاف ہزارہ تحریک میں بھی بھرپور حصہ لے چکے ہیں۔ "اسلام ٹائمز" کیساتھ خصوصی انٹرویو میں سردار یوسف نے اپنی سیاسی زندگی کے حوالے سے کئی امور کے بارے میں بتایا، جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: دینی مدارس کو ریگولیٹ کرنے کا مسئلہ بھی معرض التوا کا شکار ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ بعض مدارس فرقہ وارانہ واقعات میں ملوث پائے جاتے ہیں، اس حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
سردار محمد یوسف:
مدارس کے حوالے سے اصلاحات پر ایک عرصے سے کام ہو رہا ہے۔ خاص طور سے دینی تعلیم کیساتھ دنیاوی تعلیم کا بھی مدرسوں میں انتظام ہونا چاہیے۔ کمپیوٹر اور سائنس کیساتھ دیگر مضامین بھی طلبہ کو پڑھائے جائیں، وفاق المدارس سے ہماری اس ضمن میں میٹنگز ہوتی رہتی ہیں، جن میں وزارت تعلیم بھی شامل ہوتی ہے انشاء اللہ بہت جلد ہم دینی مدارس کو ریگولیٹ کر لیں گے، بہت سے مدارس نے اپنا ریکارڈ حکومت کے حوالے کر دیا ہے، جیو ٹیگنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے اور انشاء اللہ ہم ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ کرکے دم لیں گے۔ جو دینی مدارس دہشتگردی میں ملوث پائے گئے، ان کیخلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں بند کر دیا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: ملک کی مذہبی جماعتیں دہشتگردی، فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے اپنا کردار کس طور سے ادا کرسکتی ہیں۔؟
سردار محمد یوسف:
بہت اچھا کردار ادا کرسکتی ہیں۔ یہ ملک اسلام کے نام اور دو قومی نظریئے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا ہے۔ ہم مذہبی جماعتوں کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ آگے بڑھیں اور ملک میں نہ صرف امن قائم کرنے کیلئے بلکہ انصاف اور تعلیم کیلئے اپنا کردار ادا کریں، حکومت کا ساتھ دیں، حکومت پر مدارس کو کنٹرول کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔ ہمارے دینی مدارس بہت بڑی این جی اوز ہیں، جو بہت اچھے انداز میں کام کر رہے ہیں اور ان مدارس کی وجہ سے ہی لاکھوں بے سہارا بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: تحفظ نسواں ایکٹ پر دینی جماعتیں سراپا احتجاج ہیں، آپ سمجھتے ہیں کہ پنجاب حکومت نے اسے عجلت میں منظور کیا اور کیا اس میں کوئی متنازع بات ہے۔؟
سردار محمد یوسف:
پنجاب حکومت نے اسمبلی سے بل منظور کرایا ہے اور اس کو متفقہ طور پر ارکان اسمبلی نے پاس کیا ہے، اسمبلی میں عوام کے منتخب نمائندے ہیں، انہیں حق حاصل ہے کہ وہ کوئی بھی قانون سازی کرسکتے ہیں، لیکن بل پر مذہبی جماعتوں کی جانب شور شرابہ افسوسناک ہے۔ لیکن حکومت نے پھر بھی کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا ہے اور بل پاس ہونے کے باوجود مذہبی جماعتوں کو یقین دہانی کروا دی ہے کہ علماء کی مشاورت سے بل میں متنازع شقوں کو ختم کر دیا جائے گا۔ اس حوالے سے پتہ چلا ہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے علماء کو خطوط ارسال کئے گئے ہیں اور ان سے مشاورت مانگی گئی ہے کہ وہ اس بل کی متنازع شقوں کی نشاندہی کریں اور ساتھ ہی ان سے ان شقوں کے متبادل کے طور پر رائے لی گئی ہے۔ جب تمام علماء کی جانب سے رائے آجائے گی تو پھر اس بل میں ترمیم کر دی جائے گی۔ یہ باتیں مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے بھی حل ہوسکتی ہیں، اس کیلئے شدت پسندی کا راستہ اختیار کرنا درست اقدام نہیں۔

اسلام ٹائمز: ممتاز قادری کی پھانسی کے حوالے سے کیا کہیں گے، یہ درست اقدام تھا۔؟
سردار محمد یوسف:
مشکل سوالات نہ پوچھیں، میں نے گھر بھی جانا ہے، بہرحال یہ عدالت کا فیصلہ تھا اور بطور پاکستانی شہری ہم عدالت کے فیصلے کو چیلنج نہیں کرسکتے۔ یہ توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے، ظاہر ہے عدالت نے پورے کیس کا ٹرائل کیا ہے اور اس ٹرائل کی روشنی میں ہی فیصلہ سنایا گیا ہے۔ یہ عدالت کی کارروائی ہے، اس پر میں کچھ نہیں کہوں گا۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے 34 ممالک کے اتحاد میں بہت سے مسلم ممالک کو شامل نہیں کیا گیا، اہم ملک بھی نظرانداز کر دیئے گئے ہیں، کیا یہ اتحاد مطلوبہ اہداف حاصل کر پائے گا۔؟
سردار محمد یوسف:
ہمارے لئے تمام مسلم ممالک قابل احترام ہیں۔ پاکستان دنیا میں دہشتگردی کا سب سے بڑا شکار ملک ہے۔ ہم جہاں یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں امن ہو، وہاں ہم خطے سمیت دنیا بھر میں قیام امن کے خواہاں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسلم دنیا متحد ہو اور اپنے مسائل مشترکہ طور پر مل کر حل کریں، اتفاق میں برکت ہوتی ہے، برکت ہوگی تو مسائل جلد از جلد حل ہوں گے۔ اس حوالے سے پاکستان اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ مدینہ کے بعد پاکستان دنیا کی واحد ریاست ہے ،جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آئی ہے اور پاکستان اپنی ذمہ داریوں سے اچھی طرح آگاہ ہے۔ ہمارے لئے جہاں سعودی عرب قابل احترام ہے، وہاں ایران کی اہمیت اور مقام کے بھی ہم انکاری نہیں۔ پاکستان ایران سعودی عرب کشیدگی ختم کرانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ وزیراعظم پاکستان کے حالیہ دورہ سعودی عرب میں بھی اس معاملہ کو اٹھایا گیا ہے اور سعودی عرب کی جانب سے مثبت جواب ملا ہے۔ ہم 100 فیصد ایران سعودیہ کشیدگی ختم کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ کچھ قوتیں ہیں جو چاہتی ہیں ایران سعودی عرب کشیدگی برقرار رہے، وہ سازشیں بھی کرتی رہتی ہیں۔ لیکن ہماری کوشش ہے کہ دونوں ممالک میں کشیدگی کو ختم کرائیں، کیونکہ ان دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا نقصان امت مسلمہ کو ہوتا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپکا تعلق مانسہرہ سے ہے اور آپ نے صوبہ سرحد کا نام خیبرپختونخوا رکھنے کی مخالفت کی تھی، اسکا پس منظر کیا ہے۔؟
سردار محمد یوسف:
2010ء میں جب صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرکے کے پی کے رکھا گیا تو ہزارہ کے لوگوں نے اس پر شدید احتجاج کیا تھا اور صوبے کے دوسرے لوگوں نے بھی احتجاج کیا تھا۔ صوبے کے دوسرے علاقوں کے لوگ بھی سراپا احتجاج بن گئے تھے۔ اگر نام تبدیل بھی کرنا تھا تو سب کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا اور ہزارہ کے لوگوں سے بالخصوص پوچھنا چاہیے تھا، ریفرنڈم کا انعقاد کیا جاتا اور اس کے نتیجے میں نام رکھا جاتا۔ اس وقت ایک پارٹی نے اقتدار کے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے جس طرح ترمیم کرا دی، ہم نے اس پر زبردست احتجاج کیا اور میرے بیٹے سردار شاہ جہاں یوسف نے جو ایم این اے تھا، ایک قرارداد بھی پیش کی۔ ترمیم پیش کی جسے مسترد کر دیا گیا۔ اے این پی کی حکومت تھی، جس نے احتجاج کرنیوالے پرامن لوگوں پر گولیاں برسائیں، جس کے نتیجے میں ہمارے 7 جوان شہید ہوئے۔ اس طرح ہزارہ میں یہ بات شدت اختیار کر گئی کہ پرامن لوگوں پر گولیاں برسانا کہاں کا انصاف ہے۔ چنانچہ ان نوجوانوں کی قربانی کے نتیجے میں یہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر گئی، جس پر ہزارہ کے لوگ متفق ہیں، چاہے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی پارٹی سے تھا۔ چاہے وہ پاکستان مسلم لیگ سے ہو، پاکستان پیپلز پارٹی سے ہو، جماعت اسلامی یا جمعیت علمائے اسلام سے ہے۔ یہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ ہزارہ کو صوبہ بننا چاہیے۔ یہ تحریک جاری ہے۔ تمام پارٹیوں نے ایک سپریم کونسل بنائی ہے۔ اس کی رہنمائی کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی، چنانچہ جب انتخابات ہوئے اور جتنے بھی لوگ منتخب ہو کر آئے، ایم این اے، ایم پی اے اور سینیٹرز ان سب کو میں نے ایبٹ آباد میں دعوت دی۔ ان سے میٹنگ ہوئی اور متفقہ طور پر یہ بات طے ہوئی کہ صوبہ کے پی کے اسمبلی میں ایک قرارداد لائی جائے، جس کیلئے ہم نے ایک کمیٹی بنائی۔ قرارداد لے کر آئی جو پاس ہوگئی۔

اسلام ٹائمز: آپکی حکومت آپکے مؤقف کی کس حد تک تائید کرتی ہے۔؟
سردار محمد یوسف:
2013ء کا جو الیکشن تھا، ان میں حصہ لینے والی تمام سیاسی پارٹیوں کی لیڈرشپ کی حمایت ہمارے ساتھ تھی۔ میاں نواز شریف نے مانسہرہ میں جلسہ کیا اور انہوں نے ہمارے مؤقف کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور مسلم لیگ کے منشور میں بھی یہ شامل کیا، اس طرح تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور جمعیت علمائے اسلام کے لیڈر مولانا فضل الرحمان، جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر منور حسن نے بھی حمایت کا اعلان کیا۔ اس حکومت میں ایک پیشرفت ہوئی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ اپنے نئے مجوزہ صوبے کا کیا نام تجویز کرتے ہیں۔؟
سردار محمد یوسف:
ہم تو ہزارہ صوبہ کی بات کرتے ہیں۔ جس میں اب 7 ضلعے بن چکے ہیں اور یہاں پر اچھی خاصی آبادی ہے، جو ملک کے مختلف علاقوں سے آئے ہیں۔ یہ سب اتفاق کرتے ہیں کہ انتظامی بنیادوں پر ہزارہ صوبہ بننا چاہیے۔ جغرافیائی طور پر بھی یہ صوبہ ہی بن سکتا ہے کیونکہ درمیان میں دریائے سندھ آتا ہے۔ اس لئے ہماری پشاور میں زیادہ آمد و رفت نہیں۔ زیادہ آنا جانا تو اسلام آباد میں ہوتا ہے۔ ہزارہ 1901ء سے پہلے بھی ایک صوبہ تھا، بعد میں اس کا کچھ حصہ سرحد اور کچھ پنجاب میں شامل کر دیا گیا۔ اب یہ انتظامی بنیادوں پر ایک صوبہ بنتا ہے تو کوئی قباحت نہیں، اس سے ملک کی ترقی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس علاقے کے لوگ اپنا بہتر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ہم تو پہلے دن سے ہی انتظامی بنیادوں پر صوبوں کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پہلے استحکام پاکستان ہے، اس کے بعد ڈویژن اور ضلعے بنے ہیں۔ اسی طریقے سے صوبے بھی بننے چاہیے۔

اسلام ٹائمز: آپکی حکومت کو جو چیلنجز درپیش ہیں، ان سے وزیراعظم نواز شریف اور انکے رفقائے کار عہدہ برا ہوسکیں گے۔؟
سردار محمد یوسف:
میاں نواز شریف نے حکومت سنبھالتے ہی ان چیلنجز کو قبول کیا ہے۔ انہوں نے ملکی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے عملی اقدامات کئے ہیں۔ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو بھی بہتر بنانے کیلئے اقدام اٹھائے ہیں۔ مذاکراتی کمیٹی بنائی ہے۔ ذاتی سطح پر وہ اس میں دلچسپی لیتے ہوئے جائزہ لے رہے ہیں۔ اسی طرح جو انرجی کا بحران ہے، اس کیلئے مختلف پاور سٹیشنز بن رہے ہیں۔ ڈالر کی قیمت کو بھی کنٹرول کیا ہے۔ جس سے معیشت بھی بہتری کی جانب گامزن ہے۔ بیرونی ممالک کے ساتھ جو معاہدے ہوئے ہیں، ان پر عملدرآمد شروع ہوچکا ہے۔ کسی بھی حکومت کیلئے پلاننگ بنیادی ترجیح ہوتی ہے۔ اگر پلاننگ بہتر ہو تو ڈویلپمنٹ بہتر ہوتی ہے۔

اسلام ٹائمز: اس برس کی حج پالیسی کے اہم نکات کیا ہیں اور حجاج کرام کو آپ کیا سہولتیں مہیا کر رہے ہیں۔؟
سردار محمد یوسف:
ہماری حکومت نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے تو حج آپریشن میں بڑے اچھے انتظامات کئے ہیں۔ ہم نے حج کی مختلف کیٹگریز کو ختم کرتے ہوئے ایک ہی کیٹگری رکھی ہے۔ ہم نے حج پالیسی کا اعلان کیا اور وزیراعظم نے جیسے ہی منظوری دی تو ہمیں ایک لاکھ 27 ہزار درخواستیں ایک ہی دن میں آگئیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگوں کا اعتماد بڑھا ہے، ہم نے پیکیج میں بھی کمی کی ہے۔ گذشتہ برس 2 لاکھ 95 ہزار کا پیکیج تھا، جو اس سال 2 لاکھ 72 ہزار کر دیا ہے۔ تقریباً 30 ہزار کمی ہوئی ہے۔ وہاں پر ہم نے حاجیوں کیلئے بہت اچھی جگہوں پر رہائشوں کا انتظام کیا ہے۔ اخراجات میں مزید کمی ہوگی۔ ٹرانسپورٹ کیساتھ ساتھ ویکسین کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ حاجیوں کیلئے آگاہی کے پروگرام بھی ترتیب دیئے گئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 528669
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ؐمحمد جان حیدری
Romania
اے کاش ان سے یہ سوال کیا جاتا کہ سانحہ منٰی میں پاکستانی حجاج کی شہادت کے موقع پر جھوٹ اور بی غیرتی کا مظاہرہ کیوں کیا گیا؟
اور سعودی غلامی کا ثبوت دیتے ہوئے بغیر پوچھے حجاج کی تدفین پر کیوں خاموش رہے؟
ہماری پیشکش