0
Thursday 28 Jul 2016 02:00

موجودہ حکمرانوں نے دہشتگردوں کو سہارا دینے کیلئے قومی ایکشن پلان کو استعمال کیا ہے، ملک غلام حسین

موجودہ حکمرانوں نے دہشتگردوں کو سہارا دینے کیلئے قومی ایکشن پلان کو استعمال کیا ہے، ملک غلام حسین
تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل، ضلع سرگودہا کے رہنما، ملک غلام حسین، ڈاکٹر طاہر القادری کی تحریک انقلاب کے نظریاتی کارکن ہیں، وہ بہترین قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت فعال کردار کے حامل ہیں۔ ملک کو درپیش موجودہ حالات میں حکومتی کارکردگی، تحریک منہاج القرآن کی آئندہ پالیسی سمیت مختلف ایشوز پر منہاج القرآن کے رہنما کیساتھ اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ﴿ادارہ﴾

اسلام ٹائمز: آزاد کشمیر میں مسلم لیگ نون کی کامیابی شریف برادران کی مقبولیت کا ثبوت ہے، اپوزیشن اس حقیقت کو تسلیم کرنے کیلئے کیوں تیار نہیں۔؟
ملک غلام حسین:
حقیقت میں نون لیگ کی دھاندلی اور پیسے کی سیاست آزاد کشمیر میں بھی پہنچ گئی، وفاقی وزراء قومی دولت کو پانی کی طرح بہاتے رہے، لوگوں کے ووٹوں کی قیمت لگائی اور نون لیگ کے لوگوں کی جیبوں سے جعلی ووٹ بھی برآمد ہوتے رہے، جب تک یہ نون لیگی ذہنیت اداروں پر مسلط رہی، عوام فیئر اور فری الیکشن کے ثمرات سے محروم رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: عالمی اداروں کی طرف سے معاشی استحکام کی رپورٹس اور آئی ایم ایف سے قرضوں کے حصول میں کامیابیاں موجودہ حکومت کی طرف سے بڑی پیشرفت کے طور پر گنوائی جا رہی ہیں، کیا ملک قرضوں کے بغیر چل سکتا ہے۔؟
ملک غلام حسین:
ملکی معیشت کی تباہی کی اصل وجہ ہی قرضے ہیں۔ موجودہ حکمران تو قرضے لیتے اور یہی قرضے خود کھا جاتے ہیں۔ اس حکومت کو عملی طور پر وزیر خزانہ چلا رہے ہیں، وزیراعظم تو بیمار ہیں، یا بیمار ہو جاتے ہیں۔ وزیر خزانہ کا سارا زور یہ بتانے پہ ہوتا ہے کہ معاشی استحکام کی منزل قریب ہے۔ حالانکہ حال ہی میں یہ حقائق سامنے آئے ہیں کہ موجودہ حکمرانوں نے بھی اپنے 3 سالہ عہد اقتدار میں 280 ارب کے قرضے معاف کر ڈالے، یہ قرضے کن غرباء اور شرفاء کے معاف گئے سامنے آنا چاہیے۔ 280 ارب چاروں صوبائی حکومتوں کے تعلیمی، ترقیاتی بجٹ سے بھی زیادہ ہیں، عوام اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ اس ملک کو کس کس طریقے سے لوٹا جا رہا ہے۔ ایک طرف قرضے معاف کرکے اور دوسری طرف دھڑا دھڑ غیر ملکی قرضے لیکر ملک کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ قرضہ معافی سکینڈل کی 2012ء میں جسٹس جمشید کمیشن تسلی بخش عدالتی تحقیقات کر چکا ہے۔ یہ تحقیقات اس وقت کے چیف جسٹس کی ہدایت پر ہوئی تھی اور یہ عدالتی تحقیقات پانچ ہزار صفحات پر مشتمل ہیں۔

2012ء میں مکمل ہونے والی یہی عدالتی تحقیقات 2013ء سے قبل الیکشن کمیشن کے پاس ہونی چاہیے تھی، تاکہ امیدواروں کی اہلیت اس عدالتی دستاویز کی روشنی میں جانچی جاتی، مگر نہ صرف قرضہ معافی کی یہ عدالتی دستاویز 2013ء میں الیکشن کمیشن یا نیب کو نہیں دی گئی، بلکہ موجودہ حکومت نے بھی تین سال تک اس عدالتی تحقیقات پر خاموشی اختیار کرکے جرم کیا اور نہ صرف خاموشی اختیار کرنے کا جرم کیا، بلکہ مزید 280 ارب روپے کے قرضے معاف کر دیئے۔ اب حکمران چاہتے ہیں کہ قرضہ معافی کے معاملہ کو بھی پانامہ لیکس کے ٹی او آرز کا حصہ بنا دیا جائے، یہ مطالبہ بدنیتی پر مبنی ہے، کیونکہ پانامہ لیکس کے ساتھ دیگر معاشی جرائم بھی شامل کر لئے گئے تو پھر قیامت تک کوئی فیصلہ سامنے نہیں آسکے گا۔ حکمرانوں کے معاشی جرائم کی شفاف تحقیقات کیلئے عوام کو اپنا احتجاجی دباؤ والا کردار بروئے کار لانا ہوگا، جب تک عوام فیصلہ کن کردار ادا نہیں کرینگے، حکمرانوں کا شفاف احتساب ناممکن ہے۔

اسلام ٹائمز: ہم داخلی طور پر بحران کا شکار ہیں، دشمن ہماری اس کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے، کیا فوج اور رینجرز جیسے اداروں کو صرف سرحدوں کا دفاع نہیں کرنا چاہیے۔؟
ملک غلام حسین:
حالات سول حکومت کے کنٹرول سے باہر ہیں، یہاں فوج کی ضرورت ہے، قوم تو فوج کیساتھ ہے، چاہے وہ سرحد پر ہو یا شہروں میں، وہ ملک کی حفاظت ہی کر رہی ہے، ناکامی تو سول اداروں اور حکمرانوں کی ہے۔ دہشتگردی اور جرائم پیشہ لوگوں کا خاتمہ صرف رینجرز یا فوج کی ذمہ داری نہیں ہے، صوبائی حکومتوں کے تعاون اور کمٹمنٹ کے بغیر امن بحال نہیں ہوسکتا، رینجرز کو غیر فعال کرکے دہشتگردوں کو کیا پیغام دیا جا رہا ہے؟ اپوزیشن کی تمام جماعتیں متفقہ لائحہ عمل کے ساتھ قومی ایشوز کو لے کر چلیں گی تو اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔ کراچی میں امن کی بحالی کے حوالے سے رینجرز نے اہم کردار ادا کیا اور دہشتگرد اور جرائم پیشہ عناصر بھاگنے پر مجبور ہوئے، ہم تو اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ پنجاب میں بھی رینجرز جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی کرے، تاہم سندھ حکومت بھی اس اہم قومی ایشو پر اپنی آئینی اور قومی ذمہ داریاں پہلے کی طرح انجام دے۔ وزیراعلٰی سندھ رینجرز کے اختیارات کے حوالے سے ہر طرح کے سیاسی اور جماعتی مفادات سے بالا ہو کر فی الفور اس مسئلہ کو حل کریں، تاکہ دہشتگردوں اور جرائم پیشہ عناصر کو واضح پیغام مل سکے کہ عوام کے جان و مال کے تحفظ کے حوالے سے سیاسی اور ملکی ادارے یکسو ہیں۔

یہاں تو وفاقی حکومت بھی فوج کے کردار کو اچھال رہی ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے سینیٹ آف پاکستان میں افواج کے کاروبار سے متعلق جمع کروائے گئے جواب، فوج کے خلاف نون لیگ کی روایتی کردار کشی مہم کا شاخسانہ ہیں۔ نون لیگ کا وزیر دنیا کا واحد وزیر دفاع ہے، جو اپنی ہی فوج کے خلاف الزام تراشی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ سینیٹ میں آنے والے جواب کی طوالت سے لگ رہا ہے کہ وزیراعظم کی طبی مفروری کے عرصے کے دوران پوری کابینہ اسی کام پر لگی رہی۔ وزیر دفاع خود سے اس طرز کی منفی سرگرمیاں نہیں کرتے بلکہ ان کی ڈیوٹی لگتی ہے اور وہ پانامہ لیکس کے مرکزی کردار میاں محمد نواز شریف کے ایماء پر فوج کے خلاف پراپیگنڈا مہم شروع کرتے ہیں۔ پاک فوج پر تنقید کا دروازہ کھولا گیا اور اس کے آئینی، قومی کردار کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی۔

وزیر دفاع اپنے آقاؤں کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے آف شور اثاثوں اور کاروبار سے متعلق قوم کے سوالات کا جواب کب دینگے؟ اس جواب سے مودی کے یاروں نے بھارت کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ یہ جواب ایک ایسے موقع پر سینیٹ آف پاکستان میں لایا گیا، جب پوری پاکستانی قوم پانامہ لیکس کے انکشافات کی روشنی میں وزیراعظم کے احتساب کا مطالبہ کر رہی ہے اور وزیراعظم بھاگ رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ لڑنے والی اپنی فوج کے بارے میں حکومت کی بدنیتی پر مبنی مہم کو کامیاب نہیں ہونے دینگے۔ جن کے اپنے دامن داغ دار ہوں، وہ دوسروں پر کیچڑ اچھالتے اچھے نہیں لگتے۔ افواج پاکستان اپنے ہزاروں شہداء، ان کے خاندانوں کے حوالے سے ویلفیئر کا ایک منظم اور قانونی نظام رکھتی ہے اور یہ سب ادارے پاکستان کے ٹیکس نیٹ میں شامل ہیں اور ویلفیئر کے ساتھ ساتھ ریونیو جنریشن اور ملکی ترقی اور بیروزگاری کے خاتمے میں میں ان کا ایک اہم کردار ہے۔ اس بدنیتی پر مبنی جواب اور منفی مہم کے ذریعے قوم کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کی کوشش کی گئی اور قومی سلامتی کے واحد محافظ ادارے کو ایک کاروباری ادارے کے طور پر پیش کیا گیا۔

اسلام ٹائمز: دہشتگردوں کیخلاف ضرب عضب جیسا آپریشن تو فوج کے بغیر کسی حکومت کیلئے ممکن نہیں تھا، آپکے نزدیک حکومت کیطرف سے جاری قومی ایکشن پلان کے نتائج اطمینان بخش ہیں۔؟
ملک غلام حسین:
موجودہ حکمرانوں نے دہشت گردوں کو سہارا دینے کے لئے قومی ایکشن پلان کو استعمال کیا ہے۔ انکی فرعونیت میں اضافہ ہوا ہے، اب بھی ملکی فیصلے پارلیمنٹ کی بجائے رائے ونڈ میں ہوتے ہیں، حکمران سیاست کے نام پر دہشتگردی کر رہے ہیں، کرپٹ حکمرانوں نے پرامن ملک کو نااہلیوں سے دہشتگردی کی نرسری میں تبدیل کر دیا، ایکشن پلان کی تمام شقوں پر عمل کیا جاتا تو حالات بہت بہتر ہوتے، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کی بازیابی کے بعد اب چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ سید سجاد علی شاہ کے بیٹے اویس شاہ کی بازیابی آپریشن ضرب عضب کے ثمرات ہیں۔ پاک فوج کے آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے جنوبی وزیرستان سمیت ملک کے دیگر علاقوں سے دہشتگردوں کے ٹھکانوں کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ صوبائی حکومتوں کے ماتحت پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی اپنی کارکردگی بہتر بنانا ہوگی، تاکہ عوام کا ان اداروں پر اعتماد بحال ہوسکے۔ قومی ایکشن پلان کی تمام شقوں پر بلا امتیاز اور فوری عمل کیا جاتا، تو حالات بہت بہتر ہوتے۔ سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کی بازیابی کے بعد چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کے بیٹے کی بازیابی سکیورٹی فورسز کا قابل تحسین کارنامہ ہے۔

دہشتگردوں کے ہمدرد حکمرانوں کے ہوتے ہوئے نہ تو قومی ایکشن پلان پر پوری طرح عمل ہوسکتا ہے اور نہ ہی ان کے ہوتے ہوئے دہشت گردی ختم ہونے والی ہے۔ دہشتگردی کے خلاف جو کامیابیاں نظر آ رہی ہیں، اس کا کریڈٹ صرف اور صرف آپریشن ضرب عضب کو جاتا ہے۔ دہشتگرد حکمران صرف اور صرف اپنی نسلوں کو پال رہے ہیں۔ ملک میں انصاف کا نظام اور گڈ گورننس قائم نہ ہوئی تو آپریشن ضرب عضب کے ثمرات بھی زیادہ دیر قائم نہیں رہیں گے۔ آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں کو نااہل حکمران ضائع کر رہے ہیں، حکمران ملک کو ترقی دینے کی بجائے اپنے خاندان کو ترقی دے رہے ہیں۔ موجودہ حکمران سیاست کے نام پر دہشتگردی کر رہے ہیں۔ غریبوں سے حقوق اور روٹی کا لقمہ تک چھین رہے ہیں۔ مذہب کے نام پر کی جانیوالی دہشتگردی تو ہے ہی لائق مذمت، مگر اس سے بڑی دہشتگردی وہ ہے، جو حکمران سیاست کے نام پر کر رہے ہیں۔ اگر پاک فوج بروقت آپریشن ضرب عضب کا فیصلہ نہ کرتی، تو دہشتگردوں کو تحفظ دینے والے حکمرانوں نے پاکستان کی سلامتی کو داؤ پر لگا دیا تھا۔

اسلام ٹائمز: آپکی تحریک پاکستان میں انقلاب کا نعرہ لگا کر میدان مین آئی ہے، اس تبدیلی کیلئے سب سے اہم کردار کس طبقہ کا ہے، آپکی قیادت کا مرکز امید کون لوگ ہیں۔؟
ملک غلام حسین:
ہر تحریک اور ہر انقلاب کا ہراول دستہ نوجوان ہوتے ہیں۔ دوسرا موجودہ حالات میں نوجوانوں کو انتہا پسندی سے بچانا سب سے بڑی قومی خدمت ہے، پاکستان کے پاس یوتھ کی شکل میں قیمتی خزانہ ہے، جسے استعمال میں لانے کیلئے اعلٰی تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے۔ 24 ملین بچے سکول نہیں جاتے، ملک ترقی کیسے کرے گا اور انتہا پسندی سے جان کیسے چھوٹے گی؟ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نوجوانوں کو علم، امن اور تحقیق کے راستے پر چلا رہے ہیں۔ علم کا حصول اور کردار سازی تحریک منہاج القرآن کا مشن اور مقصد ہے۔ نوجوانوں کو انتہا پسندی اور دہشتگردی سے بچانا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ الحمدللہ اس قومی، ملی اور دینی تقاضے کو تحریک منہاج القرآن احسن طریقے سے پورا کر رہی ہے۔ تعلیمی شعبے کو ترقی دیئے بغیر خوشحالی کی منزل حاصل نہیں ہوسکتی، آج بھی اعلٰی تعلیم کے حصول کیلئے نوجوانوں کو کئی کئی سو میل سفر طے کرکے اچھی شہرت والے تعلیمی اداروں تک پہنچنا پڑتا ہے، جس جوش اور جذبے کے ساتھ کھربوں روپیہ پلوں، سڑکوں اور اورنج میٹرو کے منصوبوں پر خرچ کیا جاتا ہے، اگر اسی جوش و جذبہ کے ساتھ اگر قومی دولت تعلیمی ترقی پر خرچ کی جاتی تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ مقتدر سیاسی جماعتوں نے بھی نوجوانوں کو صرف سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا، انہیں حقیقی معنوں میں ملکی خوشحالی کے دھارے میں شامل نہیں کیا، نتیجتاً نوجوان انتہا پسندی اور جرائم کی دلدل میں اتر گیا۔ نوجوانوں کو عصر حاضر کی جدید تعلیم دیئے بغیر پاکستان موجودہ بحرانوں سے باہر نہیں نکل سکتا۔

اسلام ٹائمز: معاشرے کے کسی بھی میدان مین تبدیلی کیلئے خواتین کے کردار سے انکار نہین کیا جا سکتا، کیا آپکی نظر میں نوجوانوں سے مراد صرف مرد حضرات ہی ہیں؟ جبکہ داعش جیسی تنظیموں میں بھی عورتوں کو مذہب کے نام پر دہشتگردی کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔؟
ملک غلام حسین:
ہاں بات درست ہے، ہماری توجہ کا محور بھی ہے، تحریک کیساتھ ہر میدان میں خواتین پیش پیش بھی ہیں۔ انکا جذبہ اور خلوص قابل رشک ہے،
خواتین کا عزم، جذبہ، دین سے محبت اور اعتماد اس بات کا دو ٹوک اعلان ہے کہ پاکستان کی خواتین انتہا پسندی، دہشتگردی، دقیانوسی سوچ اور تکفیری رجحانات کا مسترد کرتی ہیں اور دنیا کی کوئی دہشتگرد انتہا پسند اور انسانی حقوق کی دشمن قوت پاکستان کی ان نڈر اور عظیم خواتین کو ان کے قومی، ملی و دینی کردار کی ادائیگی سے نہیں روک سکتی۔ منہاج القرآن احیائے دین کی ایک عظیم بین الاقوامی، علمی، فکری تحریک ہے، جس کا مقصد نوجوان خواتین و حضرات کو ان کی دینی، ملی ذمہ داریوں اور فرائض سے آگاہ کرنا اور انہیں ایک ذمہ دار اور مفید شہری بنانا ہے۔ پاکستان کی خواتین نے زندگی کے ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ جس جس جگہ خواتین ایڈمنسٹریٹرز ہیں، وہاں وہاں بہترین ایڈمنسٹریشن اور نتائج سامنے آئے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی غیور اور جرات مند خواتین کو اپنا کردار ادا کرنے سے روکا جاتا ہے۔ اقتدار اور بیوروکریسی میں بیٹھے ہوئے کچھ متعصب عناصر نہیں چاہتے کہ خواتین پوری قوت کے ساتھ سوسائٹی میں اپنا تعمیری کردار ادا کر سکیں، اسی لئے پالیسیاں تو بنتی ہیں مگر ان پر عمل نہیں ہوتا۔ خواتین کو بظاہر آئینی پارلیمانی کردار تو دے دیا گیا مگر انہیں اختیار اور وسائل سے دور رکھا گیا، اسی لئے وہ نتائج اور ثمرات بھی سامنے نہیں آسکے جو خواتین دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

خواتین کو مساوی ترقی کے مواقع دیئے بغیر ترقی اور خوشحالی کا کوئی ہدف اس سے پہلے حاصل ہوسکا اور نہ آئندہ ہوسکے گا، ملکی آئینی ادارے حقیقی ترقی اور خوشحالی چاہتے ہیں، تو وہ بڑے بڑے بجٹ فینسی منصوبوں کی بجائے بچیوں کی تعلیم پر خرچ کریں۔ پڑھی لکھی ماں کی تحریک چلائیں۔ بچیوں کو علم کے زیور سے آراستہ کرنے پر توجہ دیں۔ بچیوں کو گھر کی دہلیز کے قریب ترین اعلٰی تعلیم کے مواقع فراہم کئے جائیں۔ سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں بچیوں کو بامقصد تعلیم دی جائے۔ خواتین کے خلاف امتیازی رویوں کو خواہ وہ سیاست میں ہوں یا معیشت میں، انہیں کچل دیا جائے۔ خواتین کو تحفظ دیا جائے اور ان کے استحصال کی تمام اشکال کا قلع قمع کیا جائے۔ یہی دین اور یہی نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات۔ تحریک منہاج القرآن اپنے وسائل اور اپنی مدد آپ کے تحت بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے اس عظیم مشن پر کاربند ہے۔ منہاج القرآن کے اندرون ملک سینکڑوں تعلیمی ادارے اور بیرون ملک قائم اسلامک سنٹرز تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دے رہے ہیں۔ آئندہ نسلوں کو فکری اور علمی اعتبار سے سنوار رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ والدین کی پہلی ترجیح تحریک منہاج القرآن کے تعلیمی ادارے ہیں اور آج شہر اعتکاف میں ہزاروں خواتین کی موجودگی بھی ہم پر غیر متزلزل اعتماد کا اظہار تھا۔ اس قوم کی بیٹیاں اور بچیاں پاکستان کا مستقبل ہیں۔ ہم اپنے مستقبل سے غافل نہیں رہ سکتے۔ دین اسلام بچیوں کی تعلیم پر زور دیتا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو پہلا حرف وحی کیا گیا وہ ’’اقراء‘‘ تھا، اس سے مراد پڑھنا ہے بلا امتیاز و بلاتفریق تعلیم کو عام کرنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: پاکستان قدرت کیطرف سے عطا کردہ وسائل اور بہترین افرادی قوت کا حامل ملک ہے، لیکن مشکلات اور مسائل میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے، آپ ان گھمبیر حالات میں اپنی جماعت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔؟
ملک غلام حسین:
یہ مشکلات ایک روز میں وجود میں نہیں آئیں، یہ کئی سالوں کا تسلسل ہے، کرپشن اور نااہلی نے 19 کروڑ عوام کے ملک پاکستان کو بربادی کی انتہاؤں پر پہنچا دیا ہے۔ جب تک قوم معاشی دہشتگردوں سے نجات حاصل نہیں کرے گی، مسلح دہشتگردی کا خاتمہ ہوگا نہ ملک ترقی کرے گا۔ تمام پاکستانی حقیقی جمہوریت کے قیام اور کرپٹ سیاست دانوں سے نجات کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ کرپشن کرنے والی جماعتوں اور انکے قائدین کا بائیکاٹ کریں اور اپنے عزیز و اقارب کو بھی قائل کریں کہ وہ کرپشن کے دلدادہ اور پانامہ کے چوروں کے اپنے ووٹ سے سیاسی ہاتھ مضبوط کرنا ترک کر دیں۔ پاکستان عوامی تحریک اپنے قیام کے اول روز سے غاصبوں اور انسانیت کے دشمنوں اور خزانے کے چوروں کے ساتھ نبرد آزما ہے اور ہم نے اس ظالم نظام سے لڑتے لڑتے لاشیں بھی اٹھائیں، ہمارے ہزاروں کارکنان نے قید و بند کی سختیاں جھیلیں اور مجھے بھی ظالموں کے خلاف آواز بلند کرنے پر 40 سے زائد جھوٹے مقدمات کا سامنا ہے، ہم نے آئین کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے والے 40 آرٹیکلز پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا تو 40 مقدمے بنا دیئے گئے اور ظالم نظام اور ظالم حکمرانوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا تحفہ دیا۔ پاکستان عوامی تحریک کی قیادت اور اس کے کارکنان تمام تر حکومتی جبر و استبداد کے باوجود نہ ڈرے ہیں نہ جھکے ہیں۔ 17 جون کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کی دوسری برسی پر مال روڈ پر عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اسکا قابل فخر ثبوت ہے۔ جب تک موجودہ کرپٹ حکمران مسلط ہیں، کوئی ادارہ انکا احتساب نہیں کرسکتا۔ موجودہ حکمران 14 بے گناہوں کے قاتل ہیں اور دو سال گزر جانے کے بعد بھی شہداء کے ورثاء کو انصاف نہیں ملا، طاقتور درندوں کے سامنے ادارے بھی سہمے ہوئے ہیں، اس لئے اس ظالم نظام کا خاتمہ ناگزیر ہے۔

اسلام ٹائمز: ہر حکومت کیخلاف احتجاج ہوتا ہے، اپوزیشن اپنے نعرے لیکر میدان میں آتی ہے، دوسری حکومت بھی آجاتی ہے، لیکن مسائل نہ صرف اپنی جگہ پہ موجود رہتے ہیں بلکہ ان میں اضافہ ہوتا ہے، انکا حل کیا ہے، چھٹکارے کی کیا تدبیر ہے۔؟
ملک غلام حسین:
دراصل پاکستان کو ایماندار اور سچ بولنے والی قیادت کی ضرورت ہے۔ یہی تمام مسائل کے حل کی کنجی ہے۔ پاکستان کو ایماندار اور سچ بولنے والی قیادت کی ضرورت ہے، موجودہ صورتحال اور حکمران مافیا سے کوئی امید نہیں، لوڈشیڈنگ کو ختم اور کشکول توڑنے کے جھوٹے دعوؤں سے شروع ہونے والا حکومتی سفر پانامہ لیکس کے جھوٹے احتساب تک آگیا۔ کرپٹ حکمرانوں سے ان کی لوٹ مار کا حساب مانگنا ہرگز ہرگز جمہوریت کے خلاف سازش نہیں ہے، بلکہ اب عوامی احتساب سے ہی قانونی احتساب کا راستہ کھلے گا۔ جب ملک اور قومیں مشکل میں گھرتی ہیں، تو اس وقت حکمران سچ بول کر حالات کا مقابلہ اور قوم کا اعتماد حاصل کرتے اور ملک کو بحرانوں سے نکالتے ہیں، مگر پاکستان میں صورت حال برعکس ہے۔ حکمرانوں نے اپنے اقتدار کے حالیہ 3 سال عوام اور غیر ملکی مالیاتی اداروں کو دھوکہ دینے اور مسلسل جھوٹ بولنے میں گزارے، اس لئے موجودہ حکومت کی عوام اور بین الاقوامی سطح پر کوئی کریڈیبلٹی قائم نہیں ہوسکی اور اس کے خطرناک نتائج کا سامنا پاکستان بطور ریاست کر رہا ہے۔ حکمران جھوٹ بولتے ہیں، جھوٹ کا زہر قومی سیاسی جسم کی رگ رگ میں سرایت کرچکا ہے۔ الیکشن جیتنے سے لیکر اقتدار کے آخری دن تک جھوٹ بولا جاتا ہے۔ عوام کو ترقی اور خوشحالی کے سہانے خواب دکھائے جاتے ہیں اور 68 سال سے اسی نام نہاد ترقی کا سفر جاری ہے۔

وزیراعظم نے دو بار قوم سے خطاب کرتے ہوئے اور ایک بار پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے خود کو اور اپنے خاندان کو پانامہ لیکس کے حوالے سے احتساب کیلئے پیش کیا، مگر جب ٹی او آرز بنانے کی بات ہوئی تو وہ اپنے وعدوں اور دعوؤں سے منحرف ہوگئے۔ کیا پارلیمنٹ کے فلور پر جھوٹ بولنے والے شخص کو اسلام کے نام پر حاصل کئے گئے ملک کا وزیراعظم برقرار رہنا چاہیے؟ وزیر خزانہ جھوٹ بولنے میں ایک خاص مقام حاصل کرچکے ہیں، وہ ریونیو کے 100 فیصد اہداف حاصل کرنے کے جھوٹ بول کر عالمی مالیاتی اداروں کو دھوکہ دیتے اور مزید قرضے حاصل کرکے قوم کو سود کے شیطانی جال میں الجھاتے چلے جا رہے ہیں۔ سابق دور حکومت میں 9 فیصد شہری ٹیکس دیتے تھے، اب یہ شرح ایک فیصد کم ہو کر 8 فیصد رہ گئی ہے۔ جھوٹی حکومت کو عوام اس لئے ٹیکس نہیں دیتے، کیونکہ انہیں علم ہوتا ہے کہ ان کے دیئے گئے ٹیکس ملک اور عوام کی ویلفیئر کی بجائے حکمرانوں کی عیاشیوں، اللوں تللوں اور آف شور کمپنیوں میں چلے جائینگے۔
خبر کا کوڈ : 555245
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش