0
Wednesday 17 Aug 2016 19:12
بھارتی ایجنسی "را" نے مسئلہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کیلئے کوئٹہ میں دہشتگردی کروائی

بلوچستان کو انڈیا نے امریکی شہ پر سازشوں کا ہدف بنا رکھا ہے، شیخ رشید

محمود اچکزئی دشمن کی زبان بول رہے ہیں، کوئی محب وطن ایسی بات نہیں کرسکتا
بلوچستان کو انڈیا نے امریکی شہ پر سازشوں کا ہدف بنا رکھا ہے، شیخ رشید
شیخ رشید احمد پاکستان عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے سرگرم اتحادی ہیں۔ حکومت مخالف تحریک میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، عمران خان اور طاہرالقادری، دونوں کی احتجاجی تحریکوں کے ماسٹر مائنڈ بھی ہیں۔ شیخ رشید 6 نومبر 1950ء میں پیدا ہوئے، گرما گرم تجزیوں اور تبصروں کے باعث ٹی وی چینلز کی مقبول شخصیت ہیں۔ سیاست کا آغاز 70 کی دہائی میں کیا لیکن 1985ء میں آکر قومی سطح کے سیاستدان بنے۔ تب سے اب تک 7 بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوچکے ہیں، مختلف وزارتوں کے قلمدان بھی انکے پاس رہے ہیں، شیخ رشید 2 بار نواز شریف کی کابینہ بھی میں وزیر رہے۔ آج کل حکومت مخالف محاذ پر فعال ہیں۔ "اسلام ٹائمز" نے ان کیساتھ لاہور میں ایک نشست کی، جس کا احوال قارئین کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: محمود اچکزئی نے تو وزیراعظم کو مشورہ دیا ہے کہ سانحہ کوئٹہ کی ذمہ داری انٹیلی جنس سربراہ پر ڈال کر اسے برطرف کر دیا جائے، انہوں نے قومی اسمبلی میں اس حوالے سے جو بیان دیا ہے، آپ اس سے متفق ہیں۔؟
شیخ رشید:
محمود اچکزئی وزیراعظم نواز شریف کے دست راست ہیں، وہ یقیناً اندرونی اور بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے "را" کی ترجمانی کر رہے ہیں، اس بیان کو محمود اچکزئی اور وزیراعظم کے تعلقات کے تناظر میں دیکھنا چاہیے، ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم جو بیان خود نہیں دے سکتے، وہ اپنے جانثاروں سے دلوا رہے ہیں۔ ہماری سکیورٹی فورسز اور ایجنسیاں پاکستان کی بقا اور سلامتی کیلئے قربانیاں دے رہی ہیں، ان کیخلاف محمود اچکزئی کا بیان قابل مذمت ہے، محمود اچکزئی وزیراعظم سے سیاسی و مالی فوائد حاصل کرنیوالوں کی فہرست میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر محمود اچکزئی کو ریاست سے اتنی ہی شکایت ہے تو اپنی گود میں اتنے سارے عہدے لے کر کیوں بیٹھے ہیں؟ دیکھا جائے تو حکومت اس وقت ریاست میں ڈبل گیم تو نہیں کھیل رہی، ایک طرف وزیراعلٰی بلوچستان "را" کو سانحہ کوئٹہ کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں تو دوسری جانب وزیراعظم کے دست راست اور گورنر بلوچستان کے بھائی سکیورٹی فورسز پر ناکامی کے الزامات لگا کر را کے سپوکس مین کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ نواز لیگ کی حکومت میں محمود اچکزئی ملک میں ہی اپنی جنت بنا کر بیٹھے ہیں۔ ان کی بیوی سمیت ان کے خاندان کے 10 سے زائد افراد حکومتی عہدوں پر فائز ہیں، اس کے باوجود محمود اچکزئی کا پیٹ ہے کہ بھرنے کو نہیں آ رہا۔ محمود اچکزئی تو شائد قائداعظم کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ حالیہ دنوں میں انہوں نے کے پی کے کو افغانستان کا حصہ قرار دیا تھا۔

میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ کس طرح کے پاکستانی ہیں کہ کوئی بھی محب وطن اپنے وطن کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی کسی غیر ملک کو نہیں دے سکتا، یہ شخص پورے کا پورا صوبہ ہی دینے کے چکر میں ہے۔ افغانستان کے ایک اخبار کو اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ کے پی کے افغانیوں کا ہے اور افغان مہاجر جہاں چاہیں رہ سکتے ہیں اور پاکستان کے کسی صوبے میں افغانیوں کو مشکلات ہیں تو وہ کے پی کے میں آجائیں، کیوںکہ یہ افغانیوں کا ہی علاقہ ہے۔ اس بیان کی بھی پوری قوم نے مذمت کی، جبکہ کے پی کے، کے عوام نے محمود اچکزئی کو ملک کو غدار بھی کہہ ڈالا، مگر پاکستان کی جمہوری حکومت کو شائد یہ بات قطعی طور پر بری نہیں لگی کہ انہوں نے اس بیان کو بھی محمود اچکزئی کے گذشتہ ملک دشمن بیانات کی طرح ہوا میں اڑا دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ محمود اچکزئی کو ریاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ان کے خاندان کو بس بھاری پروٹوکول ملنا چاہیے۔ پہلے ہی سرحدوں پر بیٹھے قوم کے محافظوں کی کارکردگی متاثر ہو جائے اور کبھی کبھار ایسے جملے منہ سے نکال دیئے جائیں، جس سے یہ پاکستان کے نیوز چینلز پر موضوع بحث بنے رہیں۔ اس وقت بلوچستان میں اقتدار کے اعلٰی ترین عہدوں پر خاندان سمیت بیٹھے ہیں اور کسی دوسرے کو شائد اس کا اہل نہیں سمجھتے، اس طرح وہ حکومت سے سرکاری و مالی معاونت لینے کے باوجود بلوچستان کے وسائل پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔ محمود اچکزئی اس ملک کی مٹی کے اس قدر وفادار ہیں، وہ پوری قوم جان چکی ہے، مگر وزیراعظم اپنے اقتدار کیلئے اس طرح کے لوگوں کو نواز رہے ہیں، اب ان باتوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: نیشنل ایکشن پلان کی نگرانی کیلئے ٹاسک فورس بنانے کا فیصلہ ہوا ہے، مگر اعلٰی سطح کے اجلاس میں کسی نے محمود اچکزئی کے بیان کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔؟
شیخ رشید:
محمود اچکزئی کا قومی اسمبلی میں بیان ایک پلاننگ کے تحت دلایا گیا، یہ میاں نواز شریف کا ترجمان ہے، اس لئے ان کے بیان پر کوئی آرٹیکل لاگو نہیں ہوتا، کتنے دکھ کی بات ہے کہ اچکزئی نے سانحہ کوئٹہ کے شہداء کیلئے دعائے مغفرت تو کرلی، لیکن ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ کیا اسمبلی روز روز دعاؤں کیلئے ہی رہ گئی ہے۔ محمود اچکزئی کرائے کا آدمی ہے، جس نے نواز دور حکومت میں جتنا مفاد لیا اس کی مثال نہیں، ڈپلومیٹک سیکٹر میں بھی ان کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ اپوزیشن کی ہر میٹنگ سے پہلے اچکزئی ان کو ملتے ہیں، فوج بھی ان کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لے گی۔ وزیراعظم نواز شریف کی خواہش ہے کہ کسی طور فوج کے سربراہ کو ہٹا دے، لیکن ایسا ممکن نہیں، سانحہ کوئٹہ ایسا واقعہ ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کی خواہش ہے کہ کوئی انہیں حکومت سے نکال باہر کرے۔ پہلے تو لندن جا کر بیٹھ گئے، اب ہر ہفتہ مری چلے جاتے ہیں۔ لیکن میں کہوں گا کہ آنیوالے 60 دن بہت اہم ہیں، نواز شریف یا تو چھا جائیں گے یا منظر سے ہٹ جائیں گے۔

میاں شہباز شریف فوج اور نواز شریف کے درمیان پل کا کام کر رہے ہیں، اس اجلاس کا کوئی فائدہ نہیں، اس کے مثبت نتائج نہیں نکلیں گے، کیونکہ حکومت کی رٹ بہت کمزور ہے۔ ایسی میٹنگز صرف نشستن گفتن برخاستن تک محدود ہوتی ہیں۔ عمران خان نے وزیر اعظم کیخلاف ریفرنس دائر کر دیا ہے۔ یہ ریفرنس پہلے میں نے اور پیپلزپارٹی نے دائر کیا ہے، اس کا نتیجہ یہاں یا سپریم کورٹ میں برآمد ہونے کی توقع نہیں۔ اگر عوام سڑکوں پر نکلیں تب کوئی بات بن سکتی ہے۔ اس میں اندرونی خلفشار اور توڑ پھوڑ جاری ہے، اسے کیش کون کرائے گا، یہ آنیوالے دن بتائیں گے، جو الیکشن کمیشن کے نئے ممبران آئے ہیں، وہ ان کے ہی منظور نظر ہیں، ان کے ہوتے ہوئے شفاف الیکشن ممکن ہی نہیں، جو اب ہیں یہی لوگ واپس اسمبلی میں آئیں گے۔ جب بھی وزیراعظم کیخلاف مظاہرے دھرنے شروع ہوتے ہیں تو یا دھماکے شروع ہو جاتے ہیں یا سیلاب آجاتا ہے۔ طاہرالقادری کے لوگ ڈٹے رہیں گے، پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ نواز شریف ہر بات پر شیئر کر لیتے ہیں لیکن اقتدار پر نہیں کرتے۔

اسلام ٹائمز: ٹی او آرز پر مذاکرات کی ناکامی کے بعد اپوزیشن کی بعض جماعتیں سڑکوں پر آگئی ہیں، کیا اس سے مزید مسائل پیدا نہیں ہوں گے۔؟
شیخ رشید:
ہمارا مطالبہ تھا کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کیلئے جلد کمیشن قائم کیا جائے، اس کیلئے ضروری تھا کہ حکومت اور اپوزیشن مشترکہ ٹی او آر پر متفق ہو جاتیں، مگر ابھی تک اتفاق رائے پایا نیہں جاتا، ڈیڈلاک ختم نہ ہونے پر اپوزیشن عوام کو سڑکوں پر لانے کیلئے مجبور ہوئی ہے۔ اپوزیشن نے تو اپنے ٹی او آرز حکومت کے سامنے رکھ دیئے تھے، حکومتی ارکان اتفاق نہ کرسکے جبکہ عوام ملک سے کرپشن کے خاتمے پر متفق ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کسی ایک شخص یا پارٹی کا نہیں بلکہ پوری قوم کا مسئلہ ہے۔ اسے حل کئے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ پاناما لیکس آنے کے بعد پوری دنیا میں احتساب ہو رہا ہے تو ہمارے حکمران کون سے دودھ کے دھلے ہیں، کہ ان کا احتساب نہ کیا جائے۔ جس طرح حکومت چاہتی ہے کہ 1947ء سے سب کا احتساب ہو تو اس کیلئے بھی سب سے پہلے وزیراعظم نواز شریف کا احتساب ہونا چاہیے کہ انہوں نے خود ٹی وی پر آکر اور اسمبلی کے فلور پر واضح طور پر کہا تھا کہ وہ خود کو احتساب کیلئے پیش کرتے ہیں، پہلے ان سے ہی احتساب کا عمل شروع ہونا چاہیے۔ ہم نے حکومتی ٹی او آرز مسترد کر دیئے تھے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومتی نمائندے غیر سنجیدہ رویہ اپنا کر قوم کا وقت ضائع کر رہے ہیں، اصل میں یہ لوگ وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کو احتساب سے بچانا چاہتے ہیں، جبکہ ہم کہتے ہیں کہ پاناما لیکس میں وزیراعظم کے بیٹے اور بیٹی کا نام آیا ہے، اس لئے ان سے احتساب شروع کیا جائے۔

ہم کسی کیخلاف نہیں نہ کسی کو بچانا چاہتے ہیں۔ ہم بھی بلاتفریق سب کا احتساب چاہتے ہیں۔ ملک کو لوٹنے والے سب ایک جیسے لوگ ہیں۔ مگر اس وقت مسئلہ پاناما لیکس کا ہے، تحقیقات کا آغاز ہر صورت میں وزیراعظم اور ان کے خاندان کے افراد سے ہونا چاہے۔ پھر آپ چاہیں جس کا مرضی احتساب کریں۔ حکومتی ارکان جان بوجھ کر تاخیری حربے اختیار کر رہے ہیں۔ حکومت نے اپوزیشن کے ٹی او آرز تسلیم نہ کرکے ہمیں سڑکوں پر آنے پر مجبور کیا ہے۔ ویسے بھی سڑکوں کے علاوہ راستہ بھی کوئی اور نہیں بچا، پانی سر سے گزر چکا ہے، ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے، اس لئے اب بھی حکومت فوری کمیشن بنائے اور تحقیقات کا آغاز کرے۔ الیکشن میں ہماری بات پر دھیان نہیں دیا گیا، مگر دنیا کے بہترین تحقیقی صحافیوں کی ٹیم نے دن رات ایک کرکے کرپٹ سیاستدانوں کی آف شور کمپنیوں میں جمع دولت کی فہرست جاری کر دی تو اس سے نہ صرف ہمارے ہاں بلکہ دنیا بھر میں ہلچل پیدا ہوگئی۔ مہذب دنیا میں تو بعض حکمرانوں اور وزراء نے استعفے پیش کر دیئے، مگر ہمارے ہاں اس معاملے پر بھی "مٹی پاؤ" کی پالیسی اختیار کی گئی۔ مگر یہ معاملہ دبنے والا نہیں، اگر کوئی اور اس معاملے میں نواز شریف کا ساتھ دے کر انہیں بچانے کی کوشش کرے گا تو قوم اس کو بھی پہچان لے گی۔ اس لئے میری تو یہی گزارش ہوگی کہ وزیراعظم قوم کے سامنے سچ بول دیں، سچ میں طاقت ہوتی ہے، اگر ان کی کمائی نیک اور ذریعہ ٹھیک ہے تو پھر ڈر کس بات کا۔

اسلام ٹائمز: کیا حکومت کو عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کیلئے مزید اقدام نہیں کرنے چاہیں، اس لئے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں۔؟
شیخ رشید:
مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر مزید اجاگر کرنے کی واقعی ضرورت ہے، یہ وقت بھارتی حکومت کو منہ توڑ جواب دینے کا ہے، حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر بھارتی خفیہ ایجنسی را کے بلوچستان اور ملک کے دیگر علاقوں میں جاری دہشتگردی اور پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو نقصان پہنچانے کی سازشوں کو بے نقاب کرے۔ اس سلسلہ میں دنیا بھر میں اپنے سفارتخانوں کو متحرک کرنا چاہیے، بھارت سرکار نے شروع دن سے پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا، اس نے ہمیشہ پاکستان کو تخریب کاری دہشتگردی کیلئے نقصان سے دوچار کرنے کی کوشش کی ہے۔ پشاور آرمی پبلک سکول پر حملہ، سانحہ کوئٹہ اور اس طرح کی دہشتگردی کی جتنی بڑی وارداتیں ہوئی ہیں، ان سب کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی را کا ہاتھ ہے اور یہ باتیں اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہیں۔ پاکستان کے پاس افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے انڈیا کی دہشتگردی کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ تحریک آزادی کشمیر سے دنیا کی توجہ ہٹانے کیلئے بھارتی خفیہ ایجنسی را کی طرف سے کوئٹہ میں دہشتگردی کی گئی۔ بلوچستان کو انڈیا نے امریکہ شہ پر خاص طور پر سازشوں کا ہدف بنا رکھا ہے۔ کل بھوشن یادیو اور دیگر بھارتی ایجنٹوں کی گرفتاری سے ساری حقیقت کھل کر واضح ہوچکی ہے۔ بھارت دہشتگردی اور تخریب کاری کے ذریعے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی سے دنیا کی توجہ ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ تحریک آزادی اس وقت عروج پر ہے، جلد ان شاء اللہ نتیجہ خیز ثابت ہوگی۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجوں اور پیرا ملٹری فورسز کے نہتے کشمیری عوام پر ظلم و ستم اور ان کی حق خودارادیت کیلئے بلند ہونیوالی آواز دبانے کیلئے جبری ہتھکنڈوں میں جیسے جیسے اضافہ ہو رہا ہے، اتنا ہی بالخصوص کشمیری نوجوانوں کی جانب سے بھارتی فوجوں کیخلاف مزاحمت بڑھ رہی ہے اور وہ نہتے ہونے کے باوجود اپنے صبر و استقلال سے قابض فوجوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ ان کی اس بے پایاں جدوجہد اور صبر و استقامت کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں کشمیری عوام کیساتھ یکجہتی کا اظہار ہو رہا ہے اور ان کے استصواب حق کیلئے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ پاکستانی عوام نے بھی کشمیریوں پر ڈھائے جانیوالے مظالم کیخلاف ٹھوس موقف اختیار کرکے انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور عالمی قیادتوں کو بھارت کا اصل مکروہ چہرہ دکھانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اس سلسلہ میں دفتر خارجہ کو متحرک کرکے اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں تک کشمیری عوام کی آواز پہنچانے کی ضرورت ہے۔ یو این قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو استصواب کا حق دے کر ہی مسئلہ کشمیر کا قابل قبول حل نکالا جا سکتا ہے۔ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں، چانچہ کشمیری عوام کی جدوجہد میں تیزی اور پاکستان کی جانب سے ان کیساتھ یکجہتی کے اظہار کے نتیجہ میں جہاں اقوام عالم کو بھارتی مظالم کے نئے ہتھکنڈوں سے آگاہی ہو رہی ہے، وہیں مودی سرکار اور کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت بھی خود کو سخت دباؤ میں محسوس کر رہی ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کے متحرک کردار کیلئے اس پر جوابی الزامات کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ مگر ہمارے ہاں حکومتی سطح پر مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: حکومت مخالف تحریک کیلئے عمران خان اور طاہرالقادری نے آپکو یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو متحد کریں، اس حوالے سے کیا آپ اپوزیشن جماعتوں کو متحد کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، جبکہ عمران خان اور طاہرالقادری خود تو متحد نہیں ہو رہے، دونوں نے الگ الگ تحریک چلائی ہے، اگر یہ متحد ہو کر چلاتے تو یہ تحریک زیادہ مضبوط ہوتی۔؟
شیخ رشید:
جی پہلے ڈاکٹر طاہرالقادری سے میں نے ملاقات کی اور حکومت مخالف تحریک کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوا، انہوں نے میری تمام باتوں پر اتفاق کیا اور تحریک چلانے کا اعلان کر دیا، حکومت مخالف تحریک چلانے کا آئیڈیا میرا تھا، اس کے بعد میری عمران خان سے ملاقات ہوئی، انہوں نے بھی میرے موقف کی تائید کی اور حکومت مخالف تحریک چلانے کا اعلان کر دیا۔ یہ تحریک 2 مختلف عنوانات سے چلی ہے، لیکن دونوں کا مقصد ایک ہے، دونوں تحریکوں کا انجام حکومت کا خاتمہ ہے اور میں دونوں تحریکوں کو کامیاب ہوتا ہوا دیکھ رہا ہوں، اس حوالے سے دونوں رہنماؤں نے مجھے اپوزیشن سے رابطوں کا ٹاسک دیا ہے، میں نے بہت سے رہنماؤں کیساتھ رابطے کئے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے، اسی سلسلہ میں لاہور بھی آیا ہوں، تو میں اس میں مکمل کامیابی دیکھ رہا ہوں، پیپلز پارٹی کے علاوہ تمام چھوٹی بڑی جماعتیں اس حوالے سے ہمارے موقف سے متفق ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم حکومت کو ٹف ٹائم دینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

اسلام ٹائمز: عمران خان اور طاہرالقادری دونوں آپکے مشوروں پر چل رہے ہیں، آپ کن کے مشورے سے انکو مشورے دے رہے ہیں۔؟
شیخ رشید:
جس طرف آپ کا اشارہ ہے، وہ بات نہیں، میں عوام کے مشورے سے ان کو مشورے دیتا ہوں، میں فرزند راولپنڈی ہوں، ہماری سیاست گلی محلے کی سیاست ہے، ہم عوامی لوگ ہیں، عام آدمی بھی اپنے دل کی بات ہم سے شیئر کرتا ہے، ہم جو بھی بات کرتے ہیں، وہ عوام کی آواز ہوتی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ عام آدمی حکومتی پالیسیوں سے تنگ ہے، لوگوں کو ہسپتالوں میں دوائی نہیں ملتی، تعلیم اتنی مہنگی ہوچکی ہے کہ عام آدمی اپنے بچے نہیں پڑھا سکتا، حکمران اپنے دوستوں کو نوازنے کیلئے فلائی اوور اور پل بنائے جا رہے ہیں، میٹرو ابھی عوام کی ضرورت نہیں، عوام کی ضرورت صحت اور تعلیم ہے، جب تک انہیں یہ چیزیں نہیں ملیں گی، وہ کسی بھی حکومت کو اپنا نہیں سمجھیں گے۔ اب بھی لوگ آکر ہمیں یہی کہتے ہیں کہ یہ حکومت جو منصوبے بنا رہی ہے، ان کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں، ہمیں 2 وقت کی روٹی اور بچوں کیلئے تعلیم کی ضرورت ہے، ہمیں چھت اور صحت کی ضرورت ہے، مگر حکومت تعلیم اور صحت کا بجٹ بھی میٹرو پر لگا رہی ہے۔ تو عوام کے مشورے سے میں نے عمران خان اور طاہرالقادری کو حکومت کیخلاف نکلنے کا مشورہ دیا ہے۔

اسلام ٹائمز: دفاع پاکستان کونسل پھر فعال ہوگئی ہے، کہا جا رہا ہے کہ سعودی عرب کی خصوصی ہدایت پر فعال ہوئی ہے، جبکہ اس میں کالعدم جماعتیں بھی شامل ہیں۔؟
شیخ رشید:
دفاع پاکستان کونسل سعودی عرب نہیں پاکستان کے دفاع کیلئے فعال ہوئی ہے اور سعودی عرب بھی ہماری عقیدتوں کا مرکز ہے، اس کی حفاظت کیلئے ہماری جان بھی قربان ہے، جہاں تک کالعدم جماعتوں کا تعلق ہے تو کالعدم جماعتوں کو دفاع پاکستان کونسل میں شامل نہیں کیا گیا، کونسل میں وہ جماعتیں شامل ہیں، جو دفاع پاکستان کے حوالے سے ہمارے کاز سے متفق ہیں۔ جن کی طرف آپ کا اشارہ ہے تو اگر وہ کالعدم ہیں تو حکومت نے ان کو کیوں چھوٹ دے رکھی ہے، حکومت ان کو جیلوں می ڈال دے، ان کا سرعام ملک میں مرضی سے آنا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خود غلط نہیں، ممکن ہے ان کے پلیٹ فارم کو غلط لوگوں نے استعمال کیا ہو، اگر وہ غلط ہوتے تو حکومت جیل میں ڈال دیتی، حکومت تو ان کیخلاف کچھ کرتی نہیں، تو وہ اگر ملک کے دفاع کی بات کرتے ہیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں کہ ہم نے ان کو ساتھ ملا لیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 561149
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش