0
Wednesday 17 Aug 2016 21:23
ملت تشیع کا قومی دھارے کے مرکز میں موجود ہونا ہی ایم ڈبلیو ایم کی احتجاجی تحریک کی سب سے بڑی کامیابی ہے

پاکستان میں مکتب تشیع کی مضبوطی ہی ملکی بقاء و سالمیت کی ضامن ہے، علامہ مختار امامی

پاکستان ہمارا ملک ہے، ہم خود قربان ہو جائیں گے لیکن اپنے جیتے جی اس پر آنچ نہیں آنے دیں گے
پاکستان میں مکتب تشیع کی مضبوطی ہی ملکی بقاء و سالمیت کی ضامن ہے، علامہ مختار امامی
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مختار احمد امامی کا تعلق سندھ کے تاریخی شہر نواب شاہ سے ہے، ابتدائی دینی و دنیاوی تعلیم نواب شاہ سے حاصل کرنے کے بعد اعلٰی دینی تعلیم کے حصول کیلئے حوزہ علمیہ قم، اسلامی جمہوری ایران کا رخ کیا، قم المقدسہ میں طویل قیام اور حصول علم کے بعد واپس پاکستان تشریف لائے اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے ساتھ تبلیغی امور کی انجام دہی میں مصروف ہوگئے، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی تشکیل کے سلسلے میں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری و دیگر علماء کرام کے ہمراہ سندھ بھر میں ہنگامی دورہ جات کرکے پیغام وحدت کو صوبہ بھر میں پہنچایا۔ علامہ مختار احمد امامی کا شمار ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے بانی رہنماؤں میں ہوتا ہے، وہ اس سے قبل ایم ڈبلیو ایم سندھ کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے بھی اپنے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے علامہ مختار احمد امامی کے ساتھ ایم ڈبلیو ایم کی احتجاجی تحریک اور اسکے اثرات کے حوالے سے کراچی میں ایک مختصر نشست کی۔ اس موقع پر ان کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی حال ہی میں اختتام پذیر ہونیوالی احتجاجی بھوک ہڑتال اور احتجاجی تحریک کے حوالے سے مختصر کیا کہیں گے۔؟
علامہ مختار احمد امامی:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک ایسا ملک چاہتے تھے کہ جہاں تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ آئین و قانون کے تحت یکساں طور پر آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکیں، سب کو یکساں حقوق حاصل ہوں، کسی کے ساتھ بھی زبردستی، ظلم و زیادتی نہ ہو، سب کیلئے ایک فلاحی ریاست چاہتے تھے، لیکن حکمرانوں اور ارباب اقتدار نے قائد و اقبال کے ویژن کو یکسر نظر انداز کر دیا، پاکستان کو ایک مضبوط اور آزاد خارجہ و داخلہ پالیسی کے تحت مستقل مزاجی کے ساتھ عزت و سربلندی اور تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے بجائے امریکا، سعودی عرب و دیگر ممالک ک طرف دیکھا گیا اور انکی ڈکٹیشنز اور پالیسیوں کے مطابق ملک کو چلانے کی کوششیں کی گئیں، آج صورتحال یہ ہے کہ حکومتیں اور ریاستی ادارے ہمیں ہر جگہ ہر موڑ پر ناکام نظر آتے ہیں، دہشتگردی کے ہر واقعے کے بعد وعدے وعید، دعوے، آپریشن نظر آتے ہیں، جیسا کہ سانحہ پشاور آرمی پبلک اسکول کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا، لیکن اس پر بھی عملدرآمد نہیں کیا گیا، جس کے بعد دہشتگردی کے کئی بڑے حوادث اور سانحات ملک میں رونما ہوئے، حال ہی میں ہونے والا سانحہ کوئٹہ بھی اس سلسلے ک ایک کڑی تھا۔ دہشتگردی نے یوں تو تمام طبقات کو نشانہ بنایا ہے، لیکن ملت جعفریہ اس کا سب سے بڑا نشانہ بنی ہے، لہٰذا ملک میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی اور لاقانونیت کے پیش نظر مجلس وحدت مسلمین اور اسکے روح رواں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب نے مختصر عرصے میں پورے پاکستان کے نظام کو بہتری کی طرف لانے کیلئے انتھک کوششیں کی ہیں اور ناصرف ملت تشیع بلکہ ملک میں دہشتگردی کا نشانہ بننے والے تمام طبقات کے حق میں آواز حق بلند کی ہے۔

اسی سلسلے میں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب نے ایک انتہائی مہذب انداز میں احتجاجی بھوک ہڑتال اور تحریک کا سلسلہ شروع کیا، تاکہ پاکستان کے تمام مظلوم، سمجھدار، درد مند، محب وطن طبقات کو یہ پیغام دیا جائے کہ یہ حکمران ملک کو تباہی و بربادی کی طرف لے جانا چاہ رہے ہیں۔ لہٰذا دہشتگردی اور کرپٹ نظام سے متاثرہ تمام طبقات ملک و قوم کی بقاء و سلامتی کیلئے متحد ہوں، بیدار ہوں، میدان میں آئیں۔ اس احتجاجی بھوک ہڑتال اور تحریک کے دوران علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب نے مسلسل ایک ہی بات کی، وہ یہ کہ ہمیں قائد و اقبال کا پاکستان چاہیئے، جتنی بھی کوتاہیاں ہوئی ہیں، جتنا بھی غلط راستے پر گئے ہیں، واپس آنا چاہیئے، الحمدللہ اس تقریباً 87 روزہ احتجاجی بھوک ہڑتال کے دوران علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب کے ساتھ تقریباً تمام سیاسی و مذہبی حلقوں، شخصیات، افراد، جماعتوں نے آکر اظہار یکجہتی بھی کیا اور تمام مطالبات کو بالکل جائز بھی تسلیم کیا، ہمارے حق میں ایوان کے اندر اور باہر آواز اٹھانے کی یقین دہانی بھی کرائی، کیونکہ مطالبات فطری تھے، دہشتگردی اور لاقانونیت کے خلاف تھے، کرپشن سے پاک پاکستان کیلئے تھے، میرٹ کی بالادستی کیلئے تھے، جمہوریت کو اسکی روح کے مطابق چلانے کیلئے تھے، نیشنل ایکشن پلان پر اسکی روح کے مطابق مکمل عملدرآمد کیلئے تھے، بہرحال اس لئے سیاسی، مذہبی و سماجی سمیت تمام طبقات نے ہمارے مطالبات کی، یہ ہماری ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔

اسلام ٹائمز: احتجاجی بھوک ہڑتال اور سربراہی میں احتجاجی تحریک جن مقاصد کے حصول اور مطالبات پر عمل درآمد کیلئے شروع کی گئی، ایم ڈبلیو ایم اس حوالے سے کتنی کامیاب یا ناکام رہی۔؟
علامہ مختار احمد امامی:
ہمارے مطالبات میں سے کچھ کا تعلق صوبائی حکومتوں سے ہے، کچھ کا تعلق وفاقی حکومت سے اور کچھ کا تعلق ریاستی اداروں سے ہے، جہاں تک خیبر پختونخوا کا تعلق ہے، انکے نمائندے اور خود عمران خان صاحب بھوک ہڑتالی کیمپ پر آئے، انہوں نے مطالبات تسلیم کئے، عمل درآمد کی یقین دہانی بھی کرائی، جس کے بعد خیبر پختونخوا حکومت کے نمائندوں سے مذاکرات و ملاقاتوں کے کئی ادوار بھی ہوئے، وہاں معاملات بہتری کی طرف جا رہے ہیں، ڈیرہ اسماعیل خان، پشاور، ہنگو، کوہاٹ و دیگر متاثرہ علاقوں میں کافی حد تک ہم مطمئن ہیں، لیکن وہاں مزید کام، بہتری اور پیشرفت کی ضرورت ہے، ڈیرہ میں گذشتہ تین مہینوں میں صرف ایک ٹارگٹ کلنگ سامنے آئی ہے، ورنہ راجہ صاحب کی احتجاجی تحریک سے پہلے آئے روز دو تین دو تین لاشیں گرنے کا سلسلہ جاری تھا، وہاں اب پاک فوج نے اپنا اثر و رسوخ بھی استعمال کیا ہے اور کارروائیاں بھی کی ہیں، یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو خیبر پختونخوا میں صورتحال بہت بہتر اور قابل اطمینان ہو جائے گی، پھر جو پارہ چنار کا مسئلہ ہے، جہاں ایف سی نے پُرامن احتجاج کرنے والے نہتے مومنین پر فائرنگ کی، جس سے فریق براہ راست ایف سی اور ریاستی ادارے بنتے ہیں، وہاں پر بھی فریقین میں ایک معاہدہ طے پایا ہے، وہاں فائرنگ سے شہید ہونے والے افراد کو باقاعدہ شہید مانا گیا ہے، ورثاء کو نوکریاں اور معاوضہ بھی دینے کی بھی یقین دہانی کرائی ہے، بے گناہ گرفتار افراد کو آزاد کیا گیا ہے، چند افراد کو آزاد کیا جانا باقی ہے۔ گلگت بلتستان میں زمینوں پر قبضے کا مسئلہ ہے، جہاں نواز لیگ کی حکومت ہے، جو ہمیشہ ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولتے رہے ہیں کہ پاک چین اقتصادی راہدری منصوبے کے روٹ میں جو زمینیں آتی ہیں، وہ منصوبے کیلئے چاہیئے، چائنز حکومت کو جو سکیورٹی اور گارنٹی چاہیئے، اس کیلئے ان زمینوں ک پاک فوج اور دیگر اداروں کو ضرورت ہے، لیکن اب رسماً پاک فوج وغیرہ نے تردید کر دی ہے کہ ہمیں آپ کی زمینوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے، یہ سیاسی حکومت ہے، جو اپنے مفادات کی خاطر آپ کی زمینوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

لہٰذا ان شاء اللہ وہاں صورتحال بھی بہتر ہوگئی ہے اور مزید بہتر ہو رہی ہے، اب ہم وہاں آسانی کے ساتھ اسٹینڈ لے سکتے ہیں، جہاں تک پنجاب حکومت اور وہاں عزاداروں پر قائم ناجائز ایف آئی آروں کا تعلق ہے، اس حوالے سے ابھی جب وفاقی وزیر داخل چوہدری نثار علی خان جب اسپتال میں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب کی عیادت کیلئے آئے تھے، تو انہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں گے اور محرم آنے سے پہلے پہلے تمام ایف آئی آرز کو سرے سے ختم کرنے کی کوشش کرینگے، اس حوالے سے عمل درآمد کچھ ہی دنوں میں سامنے آجائیگا۔ لیکن صرف وعدوں اور یقین دہانی کی بنیاد پر اتنی بڑی تحریک کو چھوڑ نہیں سکتے۔ لہذا راجہ صاحب نے دو بنیادی کام کئے ہیں، اول اپنی احتجاجی بھوک ہڑتال کو ملکی صورتحال کے پیش نظر، ڈاکٹروں کے مشورے اور مراجع عظام کے حکم پر، آغا ناصر مکارم شرازی، مجمع جہانی اہل بیت کے سربراہ آیت اللہ اختری کی درخواست پر بھوک ہڑتال کو ختم کیا، لیکن احتجاجی کیمپ کا سلسلہ جاری ہے اور رہیگا کہ جب تک عمل درآمد کا سلسلہ نظر نہیں آئیگا، دوسرا یہ کہ پنجاب حکومت جس نے عزاداری سید الشہداءؑ کے حوالے سے انتہائی متعصب رویہ اپنایا ہوا ہے، اس کے خلاف دو ستمبر کو لاہور میں وزیراعلٰی ہاؤس کے سامنے بھرپور احتجاجی دھرنے کا اعلان کیا ہے، تاکہ حکمران طبقہ اپنے وعدوں سے مکر نہ سکے، اور ان شاء اللہ لاہور میں بھرپور احتجاجی دھرنا ہوگا اور عزاداروں پر قائم ناجائز ایف آئی آرز ختم ہونگی۔

اسلام ٹائمز: احتجاجی بھوک ہڑتال اور تحریک کی وجہ سے خواص طبقہ قومی دھارے میں کتنا شامل ہوا ہے۔؟
علامہ مختار احمد امامی:
احتجاجی بھوک ہڑتال اور تحریک کے دوران نماز عید الفطر کے موقع پر ملک کے طول و عرض میں ہونے والے اجتماعات میں عوام احتجاجاً کالی پٹیاں باندھ کر راجہ صاحب سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے شریک ہوئے، پھر جب خواتین کی احتجاجی ریلیوں کا اعلان ہوا، تو اس میں پاکستان بھر میں ہر چھوٹے بڑے شہروں میں نکلنے والی ریلیوں میں بہت کثیر تعداد میں خواتین نے شرکت کی، جبکہ ہمارے ماحول میں خواتین سڑکوں پر نہیں آتی ہیں، لیکن راجہ صاحب کی اپیل پر خواتین بھی کثیر تعداد میں ملک بھر میں سڑکوں پر اپنے حق کیلئے باہر نکلیں، اگلے مرحلے میں ملک بھر کی تمام چھوٹی بڑی اہم شاہراؤں پر قوم نے علامتی احتجاجی دھرنا دیا، پھر شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینیؒ کی 28 ویں برسی کے موقع پر 7 اگست کو اسلام آباد میں منعقد کی گئی تحفظ پاکستان کانفرنس تاریخ ساز اجتماع ثابت ہوا، یہ تمام اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی احتجاجی تحریک کو قومی سطح پر سمجھا گیا، اسکی افادیت و اہمیت کو مانا گیا، عوام کے ساتھ ساتھ ماتمی طبقے، ذاکرین عظام، علماءکرام ، انجمنیں، ٹرسٹ، ادارے، آئی ایس او، آل پاکستان شیعہ ایکشن کمیٹی، اصغریہ آرگنائزیشن، اصغریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، اسکی طرح دیگر مقامی، صوبائی، ملکی سطح کی چھوٹی بڑی تنظیموں، اداروں نے ہمارا آخرتک ساتھ دیا، حمایت کی اور یہ ساتھ ہمیشہ جاری و ساری رہے گا، قوم بیداری کا یہ سلسلہ اسی طرح آگے بڑھتا رہیگا، انقلاب ایک دن میں نہیں آتا، اس کیلئے طویل عرصہ درکار ہوتا ہے، ہماری رفتار ہوسکتا ہے کہ کم ہو، لیکن ان شاء اللہ ہماری سمت درست ہے، ویژن درست ہے، ان شاء اللہ اسی اسلامی، انقلابی، اخلاقی ویژن کے ساتھ، خالص پاکستانی ویژن کے ساتھ ہم آگے بڑھتے رہینگے، پاکستان ہمارا ملک ہے، ہم نے اسے بنایا ہے، ہم ہی اسے بچائیں گے، ہمیں پاکستان کی بقاء و سالمت ہر حوالے سے عزیز ہے، ہم اپنی پریشانی پر پاکستان کی پریشانی کو مقدم رکھیں گے، خود قربان ہو جائیں گے، لیکن اپنے جیتے جی پاکستان پر آنچ نہیں آنے دینگے۔

اسلام ٹائمز: احتجاجی بھوک ہڑتال اور تحریک کے حوالے سے ملی عوامی ردعمل کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ مختار احمد امامی:
مجلس وحدت مسلمین اور اسکی قیادت کبھی بھی ملت جعفریہ سے مایوس نہیں ہوئی ہے اور نہ کبھی قوم نے ہمیں مایوس کیا ہے، قوم نے ہمیشہ ہماری حوصلہ افزائی کی، ہمت افزائی کی، تعاون کیا، ہماری ہر کال پر لبیک کہا، کیونکہ ہماری کال ایم ڈبلیو ایم کے فائدے کیلئے نہیں بلکہ قوم و ملت کے فائدے کیلئے ہوتی ہے، اب یہ الگ بات یہ کہ ہمارا تنظیمی آہستہ آہستہ پروسس کے تحت مضبوط ہو رہا ہے، کیونکہ فوری فوری مسائل آجاتے ہیں، بڑے بڑے سانحات پیش آجاتے ہیں، بڑے بڑے معاملات سامنے آجاتے ہیں، جبکہ اس کے مقابلے میں وسائل انتہائی محدود ہیں، لہٰذا جتنا تنظیمی ڈھانچہ وسیع اور فعال ہوگا، اتنا ہی عوام تک ہمارا پیغام مزید بہتر انداز میں جائیگا اور اتنا ہی مزید بہتر عوامی رسپانس ملے گا، لیکن الحمدللہ صورتحال پچھلے ادوار سے کہیں زیادہ بہتر ہے، ہم آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں، امید ہے کہ قوم کا ساتھ پہلے کی طرح اور مزید بہتر انداز میں ہمارے ساتھ قائم و دائم رہیگا۔

اسلام ٹائمز: مقاصد کے حصول اور مطالبات پر مکمل عملدرآمد کیلئے کامیاب بھوک ہڑتال کے بعد بھی احتجاجی تحریک کا جاری رہنا ضروری ہے، جاری رہنے کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔؟
علامہ مختار احمد امامی:
کوئی پودا لگانے کے بعد ایک رات میں بڑا نہیں ہو جاتا، پھل دینا شروع نہیں ہو جاتا، معاشروں کی تربیت، اصلاح و ترقی ایک تدریجی عمل ہے، انبیا علیہم السلام نے کئی کئی سال محنت کی، حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال مسلسل تبلیغ کی، اس کے باوجود ایک کشتی میں قلیل تعداد میں مومنین موجود تھے، لہٰذا یہ ایک تدریجی عمل ہے، الحمدللہ مجلس کا یونٹ سے لیکر مرکز تک کا کیڈر ایک اچھے انداز میں آگے بڑھ رہا ہے، ملک کے طول و عرض میں کراچی کے ساحل سے لیکر گلگت بلتستان کی پہاڑیوں تک ایم ڈبلیو ایم موجود ہے، ہم جہاں اپنے تنظیمی ڈھانچے کی تربیت پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں، وہاں عوام تک بھی اپنے پیغام کو عام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: 14 اگست کے بعد اب ایم ڈبلیو ایم کیا کرنے جا رہی ہے۔؟
علامہ مختار احمد امامی:
ہماری تحریک ایک اجتماعی تحریک ہے، اس دوران بعض اوقات کچھ خاص مسائل کا سامنا درپیش ہو جاتا ہے، جس سے نمٹنے کیلئے ہم ایک مختصر مدت کی پالیسی اپناتے ہیں، مثال کے طور پر کوئٹہ کا سانحہ ہوگیا، سانحہ شکارپور ہوگیا، اس حوالے سے ہم نے اپنی ذمہ داری کے تحت لوگوں کو سہارا دیا، ان کے حق کیلئے آواز بلند کی، لانگ مارچ کیا، حکومت سے مطالبات تسلیم کروائے، انہیں نسبتاً ایک منطقی انجام تک پہنچایا، لیکن ہماری جو لانگ ٹرم پالیسی ہے کہ پاکستان میں پانچ کروڑ کی تعداد میں موجود ملت تشیع ایک زندہ حقیقت ہے، جو پورے ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہے، ان کے حقوق ہیں، جس کیلئے ہم نے آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جائز جدوجہد کرنی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ناصرف ملت تشیع بلکہ تمام عوام کیلئے جدوجہد کرنی ہے، لیکن چونکہ ہماراتعلق مکتب تشیع سے ہے تو بہرحال ترجیح میں ان کے معاملات اور انکے حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے سلسلے کو آگے بڑھائیں گے، ان شاء اللہ صورتحال بہتر ہوگی، کیونکہ مکتب تشیع کی مضبوطی ہی پاکستان کی مضبوطی، بقاء و سالمیت کی ضامن ہے۔

اسلام ٹائمز: آپکی نگاہ میں احتجاجی بھوک ہڑتال اور تحریک کے دوران ملنے والی سب سے اہم کامیابی کیا ہے۔؟
علامہ مختار احمد امامی:
مجلس وحدت مسلمین سے پہلے ملک میں ملت تشیع کو جس طریقے سے دہشتگرد قوتوں کے ذریعے کافروں کے زمرے میں ڈالنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں، ملت تشیع کو تیسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوششیں کی جا رہی تھیں، الحمدللہ ایم ڈبلیو ایم نے اپنی محنت، خلوص اور جدوجہد کے ذریعے، قوم کے ساتھ کے ذریعے آج ہم مین اسٹریم میں موجود ہیں، قومی دھارے کے مرکز میں موجود ہیں، تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں ہمارے پاس آتی ہیں، کبھی ہم ان کے پاس جاتے ہیں، ان سیاسی و مذہبی جماعتوں نے ملت تشیع کی قوت کو تسلیم کر لیا ہے، انہیں اس بات کا احساس کرا دیا گیا ہے کہ ملت تشیع کوئی لاوارث ملت نہیں ہے، بلکہ اسکے حقوق کی بازیابی کیلئے اس کے اپنے لوگ میدان میں وارد ہوگئے ہیں، جو سمجھدار، باشعور، سنجیدہ لوگ ہیں، جو مسائل اور انکا حل بھی جانتے ہیں، جو بات کرنا بھی جانتے ہیں، قانونی و آئینی دائرے میں رہتے ہوئے بات منوانا بھی جانتے ہیں، جو صرف ملت تشیع کی بات نہیں کرتے بلکہ پورے ملک و قوم کی بات کرتے ہیں، تو مین اسٹریم میں ہونا، قومی دھارے کے مرکز میں ملت تشیع کا ہونا ہی ہماری سب سے بڑی کامیابی ہے، ہم ایک بار پھر ملت کو قومی میدان میں لے آئے ہیں، مرکزی دھارے میں لے آئے ہیں، تمام طبقات ہماری بات سنتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 561194
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش