0
Saturday 24 Sep 2016 15:36
سرکاری زمین پر غیرت کے نام پہ کوئی قتل ہو تو انتظامیہ اسے جرم تک تسلیم نہیں کرتی

ایف سی آر کی حمایت کرنیوالے مشران قبائل سے غداری کر رہے ہیں، ثمرینہ خان وزیر

دشمن کے بچوں کو پڑھانے سے پہلے اپنے بچوں کی تعلیم کی فکر کرنی چاہیئے
ایف سی آر کی حمایت کرنیوالے مشران قبائل سے غداری کر رہے ہیں، ثمرینہ خان وزیر
ثمرینہ خان وزیر فاٹا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (خواتین ونگ) کی جنرل سیکرٹری ہیں، ان کا شمار ان قبائلی خواتین میں ہوتا ہے، جنہوں نے اپنی محنت و ہمت کے بل بوتے پر نہ صرف تعلیمی میدان میں کامیابیاں سمیٹی بلکہ فاٹا کے عوام کے حقوق کیلئے بھی آواز بلند کی۔ ثمرینہ خان وزیر یونیورسٹی آف پشاور، لا کالج سے امتیازی نمبروں کے ساتھ قانون کی ڈگری حاصل کرچکی ہیں اور بطور وکیل پریکٹس جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گریجویشن پشاور یونیورسٹی سے مکمل کی اور یونیورسٹی میں تیسری پوزیشن حاصل کرکے براؤن تمغہ حاصل کیا، جبکہ انٹرمیڈیٹ فیڈرل بورڈ آف اسلام آباد سے کرکے بورڈ میں تیسری پوزیشن حاصل کرچکی ہیں۔ ابھی فاٹا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے فاٹا کے نوجوانوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ بنیادی طور پر فاٹا کی جنوبی وزیرستان ایجنسی سے تعلق رکھتی ہیں۔ مختلف پروگرامز، ورکشاپس، ایونٹس کا حصہ رہ چکی ہیں اور فاٹا کے نوجوانوں کے مسائل پر کئی مباحثوں میں حصہ لے چکی ہیں۔

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے تو آپ اپنے تعلیمی سفر کے بارے میں بتائیں۔؟
ثمرینہ خان وزیر
: میٹرک کے بعد ایف ایس سی پری میڈیکل میں داخلہ لیا، جبکہ فاٹا کے حالات کی خرابی نے تحریک دی کہ حقوق کی جنگ قانونی میدان میں لڑنے کی ضرورت ہے، چنانچہ ایک ماہ کے بعد میڈیکل کا شعبہ چھوڑ دیا۔ انٹرمیڈیٹ فیڈرل بورڈ اسلام آباد سے اسی فیصد نمبروں کے ساتھ کلیئر کیا اور بورڈ میں تیسری پوزیشن حاصل کی، اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے براؤن میڈل وصول کیا اور ساتھ میں ستر ہزار کی انعامی رقم بھی حاصل کی۔ گریجویشن پشاور یونیورسٹی سے کی اور یونیورسٹی میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔ بعد ازاں لا کالج یونیورسٹی آف پشاور میں داخلہ لیا اور تیسرے سال انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کا مضمون رکھا۔ یونیورسٹی میں مارکس کے حساب میں میری دوسری پوزیشن تھی، تاہم سال اول میں یو ایس سفارتخانہ کی سکالر شپ کے انٹرویو کی وجہ سے مجھے ایک پیپر چھوڑنا پڑا تھا، لہذا یونیورسٹی کے قواعد کے مطابق تیسری پوزیشن والے نے میری جگہ لی۔ ڈگری مکمل کرنے کے بعد لائسنس کے حصول کیلئے نومبر میں اسلام آباد بار کونسل کے تحریری امتحان میں حصہ لیا اور 88 فیصد مارکس کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ ابھی اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کی رجسٹرڈ ایڈووکیٹ ہوں، الحمد اللہ۔

اسلام ٹائمز: تعلیمی میدان میں ان کامیابیوں پر کیا پولیٹیکل انتظامیہ کیجانب سے کوئی حوصلہ افزائی یا سکالر شپ بھی آفر ہوئی۔؟
ثمرین خان وزیر:
یہی تو ہمارا المیہ ہے کہ قبائلی نوجوانوں کی صلاحیتوں کا خوش دلانہ اعتراف نہیں کیا جاتا، جن قبائلی بچوں کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کا موقع ملا تو انہوں نے اپنے علاقے و اپنی قوم کا نام روشن کیا۔ یہ نوجوان اپنی محنت و لگن سے مقابلے کے امتخانات پاس کرکے ایک مثال بنے ہوئے ہیں، مگر حکومت کی جانب سے ان بچوں، نوجوانوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔
میں اپنی مثال دینا چاہوں گی کہ اتنی کامیابیوں کے باوجود صرف ایک سال کیلئے ہی سہی میری تعلیم تک مفت نہیں ہوسکی۔ آج تک میرے تعلیمی اخراجات میرے والد برداشت کر رہے ہیں، اس تعلیمی سفر میں مبلغ دو ہزار روپے کے علاوہ مجھے سرکار کی جانب سے کوئی سکالرشپ نہیں ملا۔ یہی وجہ ہے کہ فاٹا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نوجوانوں بالخصوص طالب علموں کے حقوق کیلئے آواز اٹھا رہی ہے۔

فاٹا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنیکا مطالبہ کرتی ہے، اس مطالبے کے محرکات کیا ہیں اور اس سے فاٹا یا خیبر پختونخوا کو کیا فائدہ ہوگا۔؟
ثمرینہ خان وزیر:
فاٹا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اس لئے فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے حق میں ہے کیونکہ فاٹا کے عوام کو تمام تر آئینی و قانونی حقوق دلانے کا یہ مناسب ترین راستہ ہے، خیبر پختونخوا میں ضم ہونے سے ایف سی آر کا مکمل طور پر خاتمہ ہو جائیگا، صوبائی اسمبلی میں بھی فاٹا کی نمائندگی ہوگی۔ دوسری جانب فاٹا کے ضم ہونے سے خیبر پختونخوا چھوٹا صوبہ نہیں رہیگا، بلکہ ملک کا دوسرا بڑا صوبہ بنے گا، لامحالہ جس کے اثرات مرکز میں بھی سامنے آئیں گے۔ این ایف سی ایوارڈ میں بھی صوبے کا حصہ بڑھے گا اور سب سے بڑھ کر فاٹا کے اپنے معدنی و زرعی وسائل جن سے شائد پوری طرح ابھی فائدہ نہیں لیا جارہا، ان وسائل سے استفادہ خیبر پختونخوا کی ترقی پہ بھی گہرے اثرات مرتب کریگا۔ گرچہ فاٹا کیلئے سب سے بہتر آپشن اسے الگ صوبہ کے طور پر بحال کرنا تھا، تاہم ابھی تک تاخیری حربوں اور فاٹا کے تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہ لینا، فاٹا کے معاملات میں حکومتی عدم دلچسپی اور بدنیتی کا مظہر ہے۔ چنانچہ خدشہ یہی ہے کہ فاٹا کو صرف صوبے کا نام دے دیا جائے گا اور کوئی دیگر ریفارمز نہیں ہوں گے، اسی لئے ضروری ہے کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کیا جائے اور مختصر وقت میں قومی دھارے میں لایا جائے۔ جس سے ایف سی آر بھی اپنی موت آپ مرجائیگا اور لامحالہ آرٹیکل 247 کا بھی خاتمہ ہوجائیگا۔

اسلام ٹائمز: زیادہ تر قبائلی مشران خیبر پختونخوا میں ضم ہونے یا عدالتی دائرہ کار فاٹا تک پھیلانے کیخلاف ہیں، اسکی وجہ کیا ہے۔؟
ثمرینہ خان وزیر:
جو لوگ فاٹا، فاٹا کے عوام کے دوست ہیں، وہ کبھی بھی ایف سی آر کی حمایت نہیں کرتے، البتہ اسی ایف سی آر سے نسل در نسل فوائد سمیٹنے والے لوگ اس ڈر سے ایف سی آر کی حمایت کرتے ہیں کہ ان فوائد سے وہ محروم ہوجائیںگے۔ ان مشران کو صرف اپنی مراعات کی فکر ستائے جا رہی ہے، وہ عوامی نمائندے نہیں ہیں کہ عوام کے حقوق کی بات کریں۔ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے سے فاٹا کے باشعور شہری اپنے رہنماؤں کا اپنی مرضی سے انتخاب کرسکیں گے۔ جس سے وہی لوگ سامنے آئیں گے، جنہیں عوامی حمایت حاصل ہوگی۔ ایف سی آر کی حمایت کرنے والے مشران کو خطرہ ہے کہ عوامی حمایت یافتہ رہنماؤں کے سامنے آنے سے پولیٹیکل ایجنٹ اور دیگر ذرائع سے حاصل
ہونے والے وسائل کی بندر بانٹ کا سلسلہ منقطع ہوجائیگا۔ اپنے معمولی فائدے کے لئے یہ لوگ قوم اور فاٹا کے عوام کو زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یہ لوگ عوام کا حال خراب کرچکے ہیں اور مستقبل بھی داؤ پر لگانا چاہتے ہیں۔ جس ایف سی آر کا روایات کے نام پر دفاع کیا جاتا ہے، وہی ایف سی آر روزانہ کی بنیاد پر جیلوں میں دھکے کھانے کا باعث ہے۔ پولیٹیکل ایجنٹ چاہے تو ضمانت دے، چاہے تو نہ دے۔ معمر بزرگ گاؤں کے سربراہ کہ جن کا احترام پورا علاقہ کرے، ان کی پگڑیاں بھی اسی ایف سی آر کے استعمال سے اچھالی جاتی ہیں۔ ہم نوجوان ان بزرگان کا مقدمہ بھی لڑ رہے کہ چند خود غرض ملکان نے ہماری روایات اور رواج کو نقصان پہنچایا ہے، مشران کی عزت ہماری معراج ہے، جس کو رسوا کیا جاتا ہے، مگر ان شاء اللہ اب مزید ایسا نہیں ہوگا۔

اب کوئی مشر کسی اور کے گناہ کی پاداش میں جیل نہیں جائے گا، کسی فرد واحد کے جرم کے باعث کسی کا گھر مسمار نہیں ہونے دیا جائے گا۔ محض شک کی بنیاد پر پورے پورے قبائل پر بھاری جرمانے عائد نہیں ہوں گے، ان شاء اللہ۔ اس کے علاوہ فاٹا تک اعلٰی عدلیہ کا دائرہ کار پھیلائے جانے کے خلاف بعض قبائلی اس لئے بھی متحرک ہیں کہ اگر فاٹا میں باقاعدہ قانون کی عملداری ہوئی تو یہاں بھی اسلام اور آئین پاکستان کے تحت شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق دینے پڑیں گے، جن میں خواتین کے حقوق بھی شامل ہیں۔ فاٹا پر کئی دھائیوں سے مسلط ملکان نے کب خواتین کے حقوق کے لئے آواز اٹھائی۔ کتنی عورتوں کو بیدری کیساتھ قتل کر دیا گیا، کیا آج تک کسی ملک نے آواز اٹھائی۔؟ گھروں کے اندر کئی عورتوں کے گلے گھونٹ دیئے گئے۔ کئی خواتین کو ان کے ناکردہ گناہوں کی سزا قبائلی معاشرے نے خود سنائی۔ سرکاری جائیداد پہ اگر غیرت کے نام پر قتل کا کوئی واقعہ پیش آئے تو فاٹا کی سرکار اسے جرم تک تسلیم نہیں کرتی۔ جہاں کسی خاتون کو اپنے اوپر عائد الزام کی صفائی دینے کا موقع میسر نہ ہو، وہاں کے ملکان یہ کب چاہئںگے کہ یہاں عدلیہ کا دائرہ کار پھیلے۔

اسلام ٹائمز: فاٹا میں دیگر مذاہب کے لوگ بھی آباد ہیں، مگر فاٹا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں اقلیتی طالب علموں کو اہمیت نہیں دی جاتی، کیوں۔؟
ثمرینہ خان وزیر:
ہمارے لئے تمام انسان برابر ہیں، ایسے ہی تمام قبائلی خواہ وہ ہندو ہوں، مسیحی یا مسلمان، کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتا ہو، مرد ہو یا عورت سب برابر ہیں اور سب ممبران کو برابری کی بنیاد پر مواقع ملتے ہیں۔ میں خود خواتین ونگ کی جنرل سیکرٹری ہوں، ہمارے ساتھ ہندو لڑکیاں بھی کام کرتی ہیں۔ ماریہ کماری جو اقلیتوں کے حقوق کی سرگرم کارکن ہیں، وہ فاٹا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا سرمایہ اور قابل فخر رکن ہیں۔ اسی طرح سنی شیعہ اور دیگر مسلک یا ذات کی بنیاد پر کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا، کیبنٹ کو منتخب کرتے ہوئے خیال رکھا جاتا ہے کہ سب کی نمائندگی شامل ہو، فاٹا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں فاٹا سے تعلق رکھنے
والا کوئی بھی قبائلی حصہ لے سکتا ہے، ایجنسیز کے مختلف علاقوں میں شہریوں کی تعداد کو مدنظر رکھ کر نمائندگی دی جاتی ہے۔

اسلام ٹائمز: فاٹا کی ترقی یا فاٹا کے لوگوں میں شعور کی بیداری کے حوالے سے این جی اوز کا کیا کردار ہے اور ان این جی اوز سے مقامی لوگوں کو کیا شکایات ہیں۔؟
ثمرینہ خان وزیر:
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ترقی اور انسانی حقوق کے حوالے سے این جی اوز اچھا کام کر رہی ہیں، فاٹا میں بدقسمتی سے این جی اوز کو صحیح معنوں میں کام کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا، جس سے تنگ آکر وہ اپنے پراجیکٹس ملک کے دیگر حصوں میں لے جاتی ہیں، جہاں انہیں آسانی سے کام کرنے دیا جاتا ہے۔ البتہ جو چند این جی اوز فاٹا میں سرگرم ہیں، ان کی اکثریت لوٹ مار میں مصروف ہے، چونکہ فاٹا میں مانیٹرنگ آسان کام نہیں ہے، علاوہ ازیں جو قبائل اس حوالے سے کردار ادا کرسکتے ہیں، انہیں وہ کردار ادا نہیں کرنے دیا جاتا، جس کے نتیجے میں این جی اوز کاغذات اور تصاویر میں اپنے پراجیکٹس پورے کرکے واپسی کی راہ لیتی ہیں۔ البتہ چند این جی اوز ایسی بھی ہیں جو صحیح معنوں میں تعمیر و ترقی کے کاموں میں مصروف عمل ہیں۔

اسلام ٹائمز: فاٹا میں شدت پسندی کا خاتمہ کیسے ممکن ہے۔؟
ثمرینہ خان وزیر:
شدت پسندی کوئی عمارت نہیں جو کہ بلڈوزر، کرین یا طیاروں کے ایک ہی ہلے میں گراد ی جائے۔ اس کیلئے مستقل اور مسلسل باعمل حکمت عملی درکار ہے، اس حکمت عملی میں فاٹا کے نوجوان جتنا زیادہ شامل ہوں گے، نتائج اتنے ہی ثمر آور ہوں گے۔ نوجوانوں کی ترقی، کوئی ایونٹ نہیں کہ ایک روز منعقد کرکے ہر کوئی خود کو بری الذمہ قرار دے، بلکہ یہ ایک مسلسل عمل کا نام ہے، جسے مثبت و متحرک سوچ کے ساتھ جاری رہنا چاہیئے اور کرپشن و اقربا پروری یا متعصبانہ روش سے پاک رہنا چاہیئے، تاکہ اس کے نتائج خوب سے خوب تر ہوں۔ پرائمری ایجوکیشن، سکول کی تعلیم ہی کسی بھی علاقے و خطے میں تعلیمی نظام کی بنیاد بنتی ہے۔ فاٹا کے لاکھوں بچے سکولوں سے باہر ہیں، جو سکولوں میں جاتے تھے، ان میں سے بیشتر کے اسکولز تباہ ہیں، کئی اسکولز ایسے ہیں جنہیں ترقی یا وسائل کا ضیاع روکنے کی غرض سے بند کر دیا گیا ہے۔ کیا کبھی سکول بند کرنے سے بھی تعلیم عام ہوئی ہے، کیا کسی قوم نے تعلیم عام کئے بغیر بھی ترقی کی ہے۔؟ یقیناً ہرگز نہیں۔ فاٹا، فاٹا کے لوگوں اور فاٹا کے نوجوانوں کی ترقی کیلئے فاٹا میں تعلیم کی ترقی ضروری ہے، اس کیلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ سکول کھولے جائیں، جدید تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیم دی جائے۔ فاٹا کے نوجوانوں کو بھی کالجز، یونیورسٹیوں کی نعمت سے مسفید کیا جائے۔ دشمن کے بچوں کو پڑھانے سے پہلے اپنے بچوں کو بھی پڑھانے کی کوشش کرنی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: آپکے خیال میں فاٹا میں ایسے کتنے تعلیمی ادارے ہیں، جن میں فاٹا کے بجائے صوبوں یا سیٹلڈ ایریاز سے تعلق رکھنے والے طالب علم تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔؟
ثمرینہ خان وزیر
:
فاٹا میں تعلیمی اداروں کی حالت زار ایسی ہے کہ فاٹا کے اپنے مکینوں کیلئے ان اداروں میں تعلیم کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور کجا کے بندوبستی علاقوں سے طالب علم آکر ان تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کریں۔ فاٹا میں حصول علم کیلئے بنیادی لوازمات میسر نہیں ہیں۔ میٹرک کے بعد فاٹا کے طالب علموں کو سلسلہ تعلیم جاری رکھنے کیلئے بندوبستی علاقوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ یونیورسٹی کے نام پر فاٹا میں پانچ کمروں پر مشتمل ایک ادارہ موجود ہے، جہاں کوئی اعلٰی تعلیم کے لئے کیسے جاسکتا ہے۔ البتہ فاٹا میں پاک فوج کے دو کیڈٹ کالج ہیں، وہاں بھی بڑی تعداد انہی بچوں کی ہے جو بندوبستی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ داخلہ ٹیسٹ قبائلی بچے کیلئے پاس کرنا مشکل ہوتا ہے، لہذا وہ بکریوں کے ریوڑ لئے میلوں دور سے ان اداروں پر رشک بھری نظریں ڈالے چپ چاپ گزر جاتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ایف سی آر کو کالا قانون کیوں کہا جاتا ہے، کیا آپ اس سے اتفاق کرتی ہیں۔؟
ثمرینہ خان وزیر:
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ ایف سی آر کالا قانون ہے۔ دنیا میں اس سے بدترین قانون کی شائد ہی کوئی مثال ملے، غیر انسانی، غیر اسلامی اور قبائلی رسم و روایات کے منافی ہے۔ جو اس کی حقیقت جانتے ہوئے بھی اس قانون کی حمایت کرتا ہے، وہ قبائل سے غداری کرتا ہے۔

اسلام ٹائمز: پولیٹکل ایجنٹ یا انتظامیہ کے کن اختیارات سے فاٹا کے عوام کو زیادہ پریشانی کا سامنا ہے۔؟
ثمرینہ خان وزیر:
اگر کسی شخص کو زمین پر خدا کا درجہ دیکر، احتساب کے بغیر بے شمار طاقت دی جائے، ہر قسم کی آزادی دیگر اسی شخص کو ایک قوم پر مسلط کر دیا جائے اور اس شخص سے کوئی سوال جواب کرنے والا بھی کوئی نہ ہو تو اس سے بڑھ کر ناانصافی و زیادتی کیا ہوگی۔ پولیٹیکل ایجنٹ محض شک کی بنیاد پر کسی بھی بے گناہ کو اپنی مرضی سے من چاہی سزا دے سکتا ہے اور پھر سزاوار کا کوئی پرسان حال بھی نہ ہو۔ دنیا میں کہیں بھی کسی کے جرم یا گناہ کی سزا کسی دوسرے کو نہیں دی جاسکتی، مگر پولیٹیکل ایجنٹ کسی ایک کے جرم کی سزا اس کے بھائیوں کو، رشتہ داروں کو، پورے خاندان کو یہاں تک کہ پورے قبیلے کو سنا سکتا ہے اور ہر کسی کو اس پر سرتسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔ پولیٹیکل ایجنٹ گھر، دکانیں، بازار، کاروباری یا رہائشی مراکز مسمار کرسکتا ہے، گھروں کو آگ لگا سکتا ہے اور متاثرین کو اس کے خلاف کہیں صدائے احتجاج بلند کرنے کی بھی اجازت نہیں اور نہ ہی انہیں اپنی فریاد پہنچانے کیلئے کسی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی اجازت ہے، ریفارمز کے نام پر اس ظلم شدید میں کچھ تخفیف کرتے ہوئے خواتین، بزرگان اور بچوں کو اجتماعی سزاؤں سے مبرا قرار دیا گیا تھا، مگر اس پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ طویل عرصے سے یہ گھرانوں، خاندانوں اور قبیلوں پر ظلم ہوتا چلا آرہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس ظلم کا خاتمہ ہو اور قبائلیوں کو بھی ان کے بنیادی انسانی و جمہوری حقوق سے نوازا جائے۔
خبر کا کوڈ : 569630
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش