0
Friday 23 Dec 2016 19:33
جھنگ میں سیاسی گروہ بندی کے سبب شیعہ بھی تقسیم تھے

حلب کی آزادی سے شام اور عراق میں تکفیریوں کی شکست کا فیصلہ ہوگیا ہے، سید ناصر عباس شیرازی

حلب کی آزادی سے شام اور عراق میں تکفیریوں کی شکست کا فیصلہ ہوگیا ہے، سید ناصر عباس شیرازی
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور آئی ایس او پاکستان کے سابق مرکزی صدر، ایڈووکیٹ سید ناصر عباس شیرازی کیساتھ حلب میں تکفیریوں کی شکست، جھنگ کے ضمنی الیکشن اور ترکی میں روسی سفیر کے قتل سمیت اہم امور پر اسلام ٹائمز کی گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: حلب کی فتح اور آزادی کے مڈل ایسٹ کی صورتحال پر کیا اثرات ہونگے اور مستقبل کیا ہوگا۔؟
سید ناصر عباس شیرازی:
حلب کی فتح ایک land mark ہے، تکفیریوں نے اس کو اپنے اور مزاحمت کے بلاک کے درمیان حد فاصل قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ شکست اور فتح کا فیصلہ حلب میں ہوگا۔ اب یہ فیصلہ ہوگیا ہے۔ چونکہ شام کے اندر سب سے زیادہ مسلح بغاوت موجود رہی ہے، لہٰذا مڈل ایسٹ کو reshape بھی شام کرے گا۔ اب شام میں سب سے بڑا تکفیری مورچہ شکست کھا گیا ہے تو اب انکا زوال شروع ہوگیا ہے۔ یہ شکست نہ صرف شام میں ہوئی ہے بلکہ مزاحمت کے مخالف بلاک کو پورے مڈل ایسٹ میں ہوئی ہے۔ پاکستان میں بھی اس کے شدید اثرات ہوسکتے ہیں۔ پوری دنیا میں تکفیری دہشت گردوں کی حامی قوتوں نے جس شدت کیساتھ اس پہ شور مچایا ہے، اس سے اس زخم کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے، جو انہیں لگا ہے۔ پاکستان میں بھی زخم خوردہ تکفیریوں
کے ہمدرد کھل کر سامنے آگئے ہیں، باقاعدہ منظم طریقے سے ریلیاں نکالی گئی ہیں، یہ لوگ تکفیری قوتوں کے ہمدرد بھی ہیں اور انکے Pay role پہ ہیں۔ پاکستان پر اس فتح کے مثبت اور منفی دونوں اثرات ظاہر ہوسکتے ہیں۔ جہاں تک مستقبل کی بات ہے، مزاحمت کے بلاک کو اس فتح سے تقویت ملی ہے، مزاحمت کے بلاک کی لیڈر شپ کے حوصلے مڈل ایسٹ میں بہت بلند ہیں۔ تکفیری قوتوں کے مقامی اور عالمی بلاک کے حوصلے پست ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: اتنی بڑی شکست کے بعد تکفیری قوتوں کی حکمت عملی کیا ہوسکتی ہے، شام اور عراق کے حوالے سے۔؟
سید ناصر عباس شیرازی:
اب حکمت عملی مزاحمت کے بلاک کی ہوگی، شکست خوردہ تکفیریوں کی حکمت عملی یہی تھی جو وہ آزما چکے ہیں۔ وہ کسی بڑے اقدام کی پوزیشن میں نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں بڑی کاری ضرب لگائی گئی ہے۔ موصل کے چند علاقوں کی طرح اب وہ کہیں بھی اپنی موجودگی سے اب وہ کچھ نہیں کرسکتے۔ شام کی حکومت مستحکم ہے، عراق کا استحکام بھی شام سے مربوط ہے۔ تکفیری قوتوں کے مقامی اور عالمی سرپرست اب سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے، لیکن اب وہ اس پوزیشن میں نہیں رہے کہ یہ حاصل کرسکیں۔ دوسرا وہ پاکستان میں جاری دہشت گردی کی طرز پہ مشرق وسطٰی میں دہشت گردی کی کوشش
کریں گے، ان کے Tactics تبدیل ہو جائیں گے۔ خودکش حملے بھی کرسکتے ہیں، مجموعی طور پر جغرافیائی حیثیت وہ کھو چکے ہیں، ناامنی بھی رہے گی، مکمل امن میں ابھی وقت لگے گا، لیکن یہ کہہ سکتے ہیں کہ کلی طور پر بہتری آئی ہے۔

اسلام ٹائمز: حلب میں تکفیریوں کی شکست کا ردعمل پاکستان میں کیسا ہوسکتا ہے۔؟
سید ناصر عباس شیرزای:
پاکستان میں انکا جو ردعمل آیا ہے، یہ دنیا میں کہیں بھی نہیں آیا، یہ بالکل مختلف ہے۔ اس سے یہ لگتا ہے کہ پاکستان کے تکفیری زیادہ ملوث تھے، شام کے مسئلے میں، انہیں چوٹ زیادہ گہری محسوس ہوئی ہے، حلب کی شکست کے بعد انہوں نے اعلانات کئے ہیں کہ وہ حلب کی شکست کا بدلہ لیں گے، لیکن انہوں اب مزید کیا کرنا ہے، پہلے ہی دہشت گردی کر رہے ہیں۔ یہ مزید دہشت گردی کریں گے، جیسے سندھ کے علاقوں میں واقعات ہوئے ہیں، اس سے بڑھ کر انہوں نے کیا کرنا ہے۔ سیاسی طور پر یہ کوشش کر رہے ہیں، حکومت پر کسی طرح کا دباو ڈالنے کی کوشش کریں گے۔

اسلام ٹائمز: جھنگ میں کالعدم سپاہ صحابہ کی کامیابی کے محرکات اور اسباب کیا ہیں۔؟
سید ناصر عباس شیرازی:
جھنگ میں تکفیری نظریات کی حامل کالعدم جماعت کی سیاسی کامیابی نہایت افسوسناک ہے۔ اس کی ایک وجہ ان کے ووٹرز کا تکفیریت کے حوالے
سے نظریاتی ہونا ہے۔ ضمنی الیکشن میں عام ووٹر کا نکلنا مشکل ہوتا ہے، اس لئے انکا ووٹر باہر آیا۔ دوسرا موڈریٹ سیاسی گروہ جن کے یہ مقابلے میں تھے، ان کے درمیان اتحاد مضبوط نہیں تھا، وہ تقسیم تھے، جسکی وجہ سے ضمنی الیکشن میں تکفیری سوچ اور نظریات کا حامل امیدوار کامیاب ہوا ہے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ یہ نیشنل ایکشن پلان کی ناکامی ہے، جہاں تمام چیزیں معین تھیں، لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ کالعدم تنظیموں کو نام بدل کر کام کرنے کی اجازت نہیں، نہ ہی دہشت گردی میں ملوث اور ان کے سہولت کاروں کو سیاست کرنے کی اجازت ہے، اس لحاظ سے یہ ملٹری اور عدلیہ کی بھی ناکامی ہے۔ یہ خبریں بھی ہیں کہ دہشت گردوں کو مین اسٹریم میں لانے کے نام پر جھنگ میں ان کے ساتھ سیاسی ڈیل کی گئی ہے، اس کا نقصان ہوگا، یہ سیاسی طاقت کو دہشت گردی کے لئے استعمال کریں گے۔ لیکن توقع ہے کہ آئندہ جھنگ کے سیاسی گروہ متحد رہیں گے، چونکہ ان تکفیریوں نے اپنی منفی سرگرمیوں سے باز نہیں آنا، آئندہ شیعہ حضرات سیاسی گروہ بندی کی وجہ سے کالعدم سپاہ صحابہ کی حمایت نہیں کریں گے۔

اسلام ٹائمز: آپکے خیال میں آرمی چیف کی تبدیلی سے دہشتگردی کیخلاف جنگ کی حکمت عملی میں تبدیلی آسکتی ہے۔؟
سید ناصر عباس
شیرازی:
آرمی چیف کی تبدیلی ایسی بڑی تبدیلی نہیں، اس سے دہشت گردی کیخلاف جاری آپریشن میں زیادہ بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔ البتہ جنرل راحیل شریف کے متعلق بظاہر یہ تاثر تھا کہ دہشت گردوں کے حوالے سے زیادہ سخت ہیں، عملی طور پر تھے یا نہیں، یہ الگ بات ہے۔ لیکن موجودہ چیف کے متعلق یہ تاثر بھی نہیں، اس لئے ممکنہ طور پر اس سے دہشت گردوں کو کسی حد تک حوصلہ مل سکتا ہے، لیکن مجموعی طور پر دہشت گردی کیخلاف فوج کی پالیسی جاری رہے گی۔

اسلام ٹائمز: اپوزیشن جماعتیں یہ اصرار کر رہی ہیں کہ مسلم لیگ نون کو جب بھی اندرونی طور پر سیاسی دباو کا سامنا ہوتا ہے، مودی سرکار ایل او سی پہ جھڑپیں شروع کر دیتی ہے، آپکا اس بارے میں کیا خیال ہے۔؟
سید ناصر عباس شیرازی:
یہ بات بالکل درست ہے، یہ تاریخی حقائق ہیں، مودی سرکار نے ہمیشہ مسلم لیگ نواز کو اسپورٹ فراہمم کی ہے۔ بارڈر پر مسائل ہیں، فائرنگ ہوتی ہے، اس سے فوج مصروف ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے عوام کی توجہ اندرونی سیاسی امور سے ملکی دفاع کی طرف مڑ جاتی ہے، اس کا فائدہ نواز لیگ کو ہی ملتا ہے، یہ درست ہے کہ یہ صورتحال نواز مودی تعلقات کی علامت ہے، یہ خود بخود رونما نہیں ہوتی۔

اسلام ٹائمز: ترکی میں روسی سفیر قتل کی واردات پہ
آپ کیا تبصرہ کرینگے؟
سید ناصر عباس شیرازی:
ترکی میں روس کے جس سفیر کو قتل کیا گیا ہے، یہ بڑے متحرک تھے، پراعتماد بھی تھے، اسی لئے انہوں نے زیادہ حفاظتی اقدامات بھی نہیں کئے ہوئے تھے۔ یہ ترک حکومت کی بھی غفلت ہے۔ اس کا اہم پہلو یہ ہے کہ جس شخص نے فائر کیا، وہ کہتا ہے کہ یہ حلب کی جنگ کا بدلہ ہے، تو سوال یہ ہے کہ شام میں تو ابھی جنگ شروع ہوئی ہے، فلسطین میں تو کئی دہائیوں سے جنگ جاری ہے، اسرائیلی سفیر کیوں قتل نہیں ہوئے، مارنا تو دور کی بات ہے، اسرائیل اور ترکی کے تعلقات تو بڑے اچھے ہیں۔ جن قوتوں نے یہ قتل کروایا ہے، وہ یہ چاہتے ہیں کہ ترکی اور روس کے درمیان تعلقات خراب ہوں، شام کے حوالے سے ترکی اور روس کی ہم آہنگی آگے نہ بڑھے۔ موجودہ صورتحال میں ترکی نے شام کے متعلق اپنا موقف بدلا ہے، وہ ترکی کو مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ دہشت گردوں کی حمایت کی ڈگر پہ رہے۔ لیکن ایسا ہوگا نہیں، جس طرح روس کا جہاز گرائے جانے کے بعد ترکی کو معافی مانگنی پڑی تھی، اب بھی ترکی پریشر میں آئے گا، لیکن ترکی کو روس کیساتھ مل کر چلنا پڑے گا۔ ترکی، روس، ایران اور شام مل کر آگے چلیں گے، جیسا کہ ان چاروں ممالک کی میٹنگ بھی اس حادثے کے باوجود جاری رہی ہے۔
شکریہ۔
خبر کا کوڈ : 593751
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش