0
Wednesday 23 Jan 2019 09:00
رول آف لاء میں کوئی بھی پارٹی رکاوٹ نہیں بنے گی

احتساب سے خوفزدہ سیاسی دشمن تحریک انصاف کیخلاف متحد ہوگئے ہیں، حماد اظہر

احتساب سے خوفزدہ سیاسی دشمن تحریک انصاف کیخلاف متحد ہوگئے ہیں، حماد اظہر
وزیر مملکت برائے ریوینیو حماد اظہر 1981ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ایچی سن لاہور سے حاصل کی،یونیورسٹی آف لندن سے ترقیاتی معاشیات میں گریجوایشن مکمل کی، 2005ء میں بار ایٹ لاء مکمل کیا۔ سابق گورنر پنجاب میاں اظہر کے فرزند 2018ء میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، 2011ء میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی، 2013ء میں پہلی بار الیکشن میں حصہ لیا۔ وفاقی وزیر کا اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: حکومت کی جانب سے آصف علی زرداری کی نااہلی کی درخواست پہلے الیکشن کمیشن میں دائر کی گئی، اس کے بعد واپس لے لی گئی، پی ٹی آئی چاہتی کیا ہے؟
حماد اظہر:
کچھ فورمز کو تبدیل کرنا پڑتاہے، جب الیکشن کمیشن میں درخواست دی گئی تھی تب کیس کی نوعیت  مختلف تھی اب ایسے شواہد ملیں ہیں جو تصدیق شدہ ہیں  اب ہم سپریم کوٹ سے ہی رجوع کریں گے، آصف علی زرداری کے اندرون اور بیرون ملک اثاثوں کی تفصیلات حاصل کر کے تصدیق بھی کر لی ہے اس لیے اب ہم سپریم کوٹ ہی جائیں گے۔  اسپیکر ہماری اپنی پارٹی کا ہے، ہمیں دیر نہیں لگے گی، ان سے مشاورت میں مگر سپریم کوٹ جانے کا فیصلہ پارٹی  کی مشاورت کے بعد کیا گیا ہے اب ہم نے سپریم کورٹ جاناہے۔  اس وقت کیس کی نوعیت بدل جاتی ہے، جب شواہد کی تصدیق ہو جائے، کیونکہ پھر شواہد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اسلام ٹائمز: لوگوں کے ذہن میں شکوک ہیں کہ فوجی عدالتوں کے حوالے سے حکومت اور پیپلز پارٹی کی ڈیل ہو گئی ہے؟
حماد اظہر:
فوجی عدالتیں فوج کی خواہش نہیں قومی ضرورت تھیں، اگر پارلیمنٹ نے ان کی مدت میں توسیع کی تو یہ اپنا کام جاری رکھیں گی، تاہم دیکھنا ہو گا کہ کیا ملک کا فوجداری نظام اب موثر ہو گیا ہے؟۔ ہمارے ہاں فوجی عدالتوں کا تصور نیا نہیں ہے۔ اب حالات اس وقت سے زیادہ سنگین ہیں جب پہلے فوجی عدالتیں قائم کی جاتی رہی ہیں، دہشت گردی کا خطرہ ابھی بھی موجود ہے، بدقسمتی سے ہمارے موجودہ نظام میں اتنا بگاڑ موجود ہے کہ دہشت گردی میں ملوث سخت ایکشن کیلئے آپریشن کی طرح، دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے بھی شاید ہمیں فوج کی مدد لینے کی ضرورت ہے، دوسرا یہ کہ فوج بھی اپنی ہے، کسی دوسرے ملک کی فوج کے حوالے تو نہیں کر رہے، نہ کوئی نیا عدالتی نظام لا رہے ہیں، جو سقم موجود ہے اس کا ازالہ کر رہے ہیں، آئین جس چیز کی اجازت دیتا ہے اور وقت کی ضرورت بھی ہے کہ اس پہ اتفاق کرنے میں کیا حرج ہے۔

اسلام ٹائمز: نئے پاکستان میں پولیس کا وطیرہ وہی پرانا ہے، سانحہ ساہیوال کے بے گناہوں کا کیس کس طرح انجام کو پہنچے گا؟
حماد اظہر:
جب تک مکمل تفتیشی رپورٹ نہ آجائے، کیسے کسی کے بچے کو کیسے دہشتگرد قرار دے سکتے ہیں۔ تیرہ گولیاں مارنا مجرمانہ عمل ہے، ماضی میں ہماری خواتین کارکنوں کو گھیسٹ کر مارا گیا، جس سے انکی ہڈیاں ٹوٹی ہیں۔ ملک میں ڈیڑھ سو سالہ پرانا نظام نافذ ہے، اسے نہیں چھڑا گیا، کیونکہ یہ مقدس گائے ہے۔ پنجاب میں پولیس کو سیاست میں مداخلت سے تباہ کیا گیا ہے۔ اس معاملے پر پارٹی کے اندر بھی بہت غصہ ہے، ماضی میں حکومتوں نے اگر یہ کام کیا ہوتا تو اب تک یہ رک گیا ہوتا۔ وزیر اعظم کا سانحہ ساہیوال سے متعلق ایک واضح موقف ہے اور رپورٹ آنے کے بعد  قصور وار افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ سانحہ ماڈل ٹاون اور سانحہ ساہیوال میں کچھ بھی مماثلت نہیں ہے، وہ ایک سیاسی پارٹی کے خلاف انتقامی کارروائی تھی۔ وزیراعظم عمران خان پنجاب پولیس کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ اس واقعہ پر سیاست نہیں کرنی چاہئے، فوری انصاف فراہم کیا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: عمران خان پنجاب پولیس سے پہلے بھی مطمئن نہیں تھے، سانحہ ساہیوال پہ پنجاب حکومت نے جس سستی اور ناتجربہ کاری کا مظاہرہ کیا ہے، وزیراعلیٰ اس بار تبدیل کر دیئے جائیں گے؟
حماد اظہر:
پوری قوم کا سر جھکا ہوا ہے، میں اپنی پارلیمنٹ پر شرمندہ ہوں جہاں کھڑے ہوکر آج اس معاملے پر سیاست ہوئی اور ایک دوسرے کو طعنے مارے گئے۔ بحیثیت حکومت میں سانحہ ساہیوال پر شرمندہ ہوں۔ اگر آج ہم نے ان قانون کے رکھوالوں کو سزا نہ دی تو کل کو کچھ اور ہو جائے گا۔ ریاست پولیس کو قتل کرنے کیلئے تنخواہ نہیں دیتی۔ اس واقعہ میں سی ٹی ڈی کی غلطی نظر آرہی ہے اور وزیراعظم انہیں سخت سے سخت سزا دیں گے۔ نیشنل ایکشن پلان میں طے ہوا تھا کہ کسی بھی واقعہ پر فوری بیان نہیں دیا جائے گا، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ ہوم منسٹر کا کام تھا بیان دینا جس کو واقعہ کا مکمل علم ہو، جو لوگ ڈیوٹی پر تھے ان کے نام ایف آئی آر میں ہونے چاہیں۔ رول آف لاء میں کوئی بھی پارٹی رکاوٹ نہیں بنے گی۔

ستر سال سے سسٹم کا مسئلہ ہے، اسے پانچ ماہ کی حکومت پر نہ ڈالا جائے۔ حفاظتی اقدامات سے کوئی انکاری نہیں ہوسکتا، لیکن اس کی آڑ میں اگر ہم اپنے ہی معصوم شہریوں کا قتل عام کرنا شروع کردیں تو شنوائی کہاں ہوگی۔ دہشت گردوں کو پکڑنا فرض ہے، لیکن ملکی اور بین الاقوامی قوانین بھی کسی کو اجازت نہیں دیتے کہ آپ صرف شک کی بنیاد پر ایک انسانی جان لے لیں۔ یہ مسئلہ بنیادی حقوق کی سب بڑی خلاف ورزی کا مسئلہ ہے اور اب قوم اس پر نہ صرف انصاف بلکہ اس کا حل بھی مانگے گی کہ بار بار اس قسم کی ناگہانی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ سانحہ ساہیوال پنجاب حکومت کیلئے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ ہم نے انصاف کے تقاضے مکمل کرنے ہیں۔ حکومت نے شفاف تحقیقات کا وعدہ مکمل کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے حکم پر جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) بنائی گئی تھی۔

اسلام ٹائمز: سسٹم میں اصلاحات کا نعرہ لگا کر ہی تو پی ٹی آئی حکومت میں آئی اور آپ پی ٹی آئی کا حصہ بنے، پولیس سمیت شعبوں میں کیا اصلاحات ہو رہی ہیں؟
حماد اظہر:
اصلاحات وقت لیتی ہیں، پھر جہاں کئی دہائیوں کا بگار موجود ہے وہان ممکن ہے زیادہ وقت لگے، حکومت سٹرکچرل اصلاحات کر رہی ہے، جس کے نتیجے میں خوشحالی آئے گی۔ ہمارے نظام کا ڈھانچہ بوسیدہ ہو چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ مختلف ادوار میں جو کاسمیٹک ریفارمز کے تجربات کیے گئے، وہ بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے اور اصلاحات کے ہر تجربے کا رنگ کچھ ہی دیر میں اڑ جاتا رہا۔ چنانچہ جب موجودہ حکومت قائم ہوئی تو ماضی کی حکومتوں کی طرح اس کے لیے بھی سب سے بڑا چیلنج یہی تھا کہ سسٹم کی خرابیوں کو کیونکر دور کیا جائے۔ سسٹم کی خرابی دراصل ہمارے سب مسائل کی جڑ ہے، مگر اس بڑے کام پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت کسی نے نہیں کی اور اپنی سہولت کے مطابق نظام میں تھوڑی بہت کانٹ چھانٹ کر کے وقت گزارا گیا۔

اب اپنا اقتصادی ویژن دے رہے ہیں، 2019ء اصل اہداف کےحصول کا سال ہے۔ حکومت اپنا اقتصادی ایجنڈا عوام کے سامنے رکھنے جارہی ہے۔ پہلے 5 ماہ میں ادائیگیوں کے توازن سے نمٹا گیا، سابقہ حکومت کی تباہ کن اقتصادی پالیسی سے پیدا مالیاتی ایمرجنسی سے نمٹا گیا۔ پاکستان نے چین سے دیرینہ تعلقات کا زیادہ فائدہ نہیں اٹھایا، چین کی عالمی سطح پر سپلائی مضبوط ہے، جس کا ہمیں فائدہ اٹھانا ہے، جب کہ ٹیکس نظام میں بہتری کوئی راکٹ سائنس نہیں، صرف اصلاحات کی ضرورت ہے۔ کسی بھی ملک کا نظام ٹیکس کے بغیر نہیں چل سکتا ملک کا سرحدی دفاع ہو یا اندرونی امن و استحکام، عوامی فلاح وبہبود کے کام ہوں یا دوسرے ضروری امور، ان کے اخراجات ٹیکسوں سے پورے کئے جاتے ہیں، ٹیکسوں کے بغیر اسکول اور اسپتال بن سکتے ہیں نہ سڑکیں اور ریلوے لائنیں، اس لئے عوام ٹیکسوں کی اہمیت کو سمجھتے ہیں لیکن ان کے خدشات اور تحفظات کر رہے ہیں۔

یہ شکایت بھی دور کرینگے کہ ٹیکسوں کا استعمال منصفانہ نہیں ہوتا، ٹیکس رقوم حکومتی اور سرکاری عمال کے اللے تللوں کی نذر ہو جاتی ہے، ایک طرف کچھ لوگ ہیں جو پورا ٹیکس ادا کرتے ہیں پھر بھی ٹیکس اہلکار ان کے پیچھے پڑے رہتے ہیں، دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی آمدنی کے مطابق ٹیکس ادا نہیں کرتے اور اہلکاروں کی ملی بھگت سے محاسبے سے صاف بچ جاتے ہیں، ٹیکس نظام اعتماد سے عاری ہونے کے باعث موثر ٹیکس کلچر فروغ نہیں پا سکا، ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹیکس نیٹ میں اضافے کیلئے ٹیکس گزاروں کو عزت و تکریم دی جائے، ٹیکس ایمنسٹی دینے کے بعد کسی کو ناجائز طور پر ہراساں نہ کیا جائے، بلا جواز نوٹس جاری کر کے انہیں پریشان نہ کیا جائے، ٹیکس دینے والوں کو عزت دی گئی، تو جو نہیں دیتے وہ بھی خوشی سے دینے پر آمادہ ہوں گے، اس مقصد کے لئے ٹیکس نظام میں اصلاحات کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اصلاحات ایک طویل عمل کی متقاضی ہیں، عام آدمی کو نظر آنے والے اقدامات کی ضرورت زیادہ ہے، عوام میں پائی جانیوالی بے چینی سے اپوزیشن اتحاد فائدہ نہیں اٹھائے گا؟
حماد اظہر:
اصولی طور پر وعدوں کی تکمیل کا آغاز تو کردیا ہے، عملی طور پر اقدامات بھی کر رہے ہیں، لیکن احتساب سے خوفزدہ سیاسی دشمن تحریک انصاف کیخلاف متحد ہوگئے، عوام کو آنیوالے دنوں میں سمجھ آجائیگی کہ تحریک انصاف حکومت کیخلاف سیاسی کزنوں نے کیا کیا سازشیں کیں۔ ستر سال سے سسٹم کا مسئلہ ہے، اسے پانچ ماہ کی حکومت پر نہ ڈالا جائے۔ ہم نے پرائیویٹ سیکٹر کو اٹھانا ہے تاکہ ملک میں نئی نوکریاں پیدا ہوں اور بے روزگاری کو ختم کرنا ہے۔ منی بجٹ کو اپوزیشن والے تو مخالفت کریں گے، اگر ان کے پاس کوئی تجویز ہے تو دیں، مگر بازاری باتیں نہ کریں۔ احتساب سے بھاگنے والے اب اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے یکجا ہو رہے ہیں، لیکن پاکستان کے عوام جاگ رہے ہیں، لیکن پی ٹی آئی کی حکومت احتساب کی راہ میں کوئی رکاوٹ آڑے نہیں آنے دیگی، ہم سمجھتے ہیں کہ عوام کی تمام مشکلات کا حل اسی میں ہے، کرپشن کی موجودگی میں اچھی سے اچھی منصوبہ بندی پر عمل نہیں کیا جا سکتا، نہ کوئی اسکیم پایہ تکمیل کو پہنچائی جا سکتی ہے، عوام کو اس بات کا شعور ہے، شور مچانے والے عوام کو گمراہ کرنیکی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اگر افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں تو پاکستان میں  دہشت گردی کا سلسلہ ختم ہو جائیگا؟
حماد اظہر:
تمام مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ چینلجز کا مقابلہ کرنا کسی ایک ملک کے بس کی بات نہیں ہے۔ بہت سی وجوہات دنیا میں امن کے لیے خطرے کی علامت ہیں جب کہ دہشت گردی سمیت تمام چیلنجز سے نمٹنا  کسی اکیلے ملک کے بس کی بات نہیں ہے۔ دنیا بھر کے اداروں کو مل کر مسائل کا حل نکالنا ہو گا۔ اس مسئلے ہر فریقین کو مذاکرات کے ذریعے متفق کرنے کی ضرورت ہے۔ کوئی قوت جادو سے مسئلہ کا حل نہیں نکال سکتی۔ جہاں تک افغانستان میں امن اور پاکستان کا تعلق ہے، افغانستان اور پاکستان کی سرزمین پر بسنے والے لوگ مذہب، ثقافتی اور تہذیب و تمدن کی مشترکہ اقدار کی بنیاد پر ہمیشہ آپس میں ملتے جلتے اور ہر خوشی غمی میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔

آپس کی رشتہ داریاں، تجارت، آزادانہ نقل و حرکت سے قیامِ پاکستان کے بعد بھی دونوں ملکوں کے درمیان محض نام کی سرحد قائم رہی، تاہم دہشت گردی کے نتیجے میں افغانستان میں غیر ملکی فوجوں کے داخل ہونے کے بعد دشمن نے صورتحال کا ناجائز فائدہ اٹھایا، ایک طرف افغانستان دوسری طرف پاکستان کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں ہمارا 20برس کا طویل عرصہ دہشت گردی کےخلاف جنگ میں گزر گیا جس میں ہزاروں قیمتی جانوں کے ساتھ کھربوں روپے مالیت کا نقصان پاکستان کو اٹھانا پڑا، تاہم امریکہ کو یہ بات تسلیم کرنا پڑی کہ دونوں ملکوں کے عوام میں صدیوں پرانے رشتوں کی وجہ سے ان کے درمیان فاصلے نہیں بڑھ سکتے جس کی وجہ سے وہ افغان مفاہمتی عمل میں پاکستان کی معاونت کو ناگزیر سمجھتا اور دہشت گردی میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف بھی کرتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 773661
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش