0
Thursday 25 Apr 2019 08:36
کلبھوشن سمیت تمام معاملات میں بھارت نے ایران کو بھی دھوکہ دیا

پاکستان اور ایران ملکر بھارت اور اسرائیل کی سازشیں ناکام بنا سکتے ہیں، سینیٹر رحمان ملک

مشکلات کے باوجود پاکستان کو امریکہ، چین، سعودی عرب اور ایران کیساتھ ملکر چلنا پڑیگا
پاکستان اور ایران ملکر بھارت اور اسرائیل کی سازشیں ناکام بنا سکتے ہیں، سینیٹر رحمان ملک
سابق وزیر داخلہ 1955ء میں پیدا ہوئے، 1971ء میں کراچی یونیورسٹی سے شماریات میں ماسٹر کیا، 1980ء میں ایف آئی اے جوائن کرنے سے پہلے انٹیلی جنس کے مختلف شعبوں میں خدمات انجام دیں، خاد کی پشت پناہی سے دہشتگردی کرنیوالے گروپوں کیخلاف تحقیقات کا آغاز کیا، 1993ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایف آئی اے کا ایڈیشنل ڈائریکٹر مقرر کیا، 1995ء میں رمزی یوسف کی امریکہ حوالگی میں بنیادی کردار ادا کیا، 1996ء میں صدر فاروق لغاری نے انہیں ایف آئی اے سے جبری طور پر نکال دیا، انہون نے انگلینڈ سے پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا، 2004ء سے 2007ء تک محترمہ بے نظیر بھٹو کے سیکرٹری رہے، 2008ء سے 2013ء تک وزیر داخلہ رہے، سینیٹ آف پاکستان کے ممبر ہیں، مودی وار ڈاکٹرائن، کتاب کے مصنف ہیں۔ سینیٹ کی کمیٹی برائے امور داخلہ کے چیئرمین کیساتھ پاک ایران تعلقات اور وزیراعظم کے دورہ ایران سمیت اہم ایشوز پر اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: وزیراعظم نے سعودی عرب، ملایشیاء اور چین کے دورے کئے ہیں، ایران کے دورے میں کیا مختلف ہے۔؟
سینیٹر رحمان ملک:
اس دورے ٹائمنگ بڑی اہم ہے، یہ بڑا ضروری تھا، پاکستان ایران کیساتھ تعلقات کے خاتمے کا سوچ بھی نہیں سکتا، اس دورے کی سب سے اچھی بات جو نظر آئی ہے، وہ اس کا آغاز تھا، جو مشہد مقدس میں زیارت سے ہوا، میرے خیال میں ہمیں یہ ملحوظ رکھنا چاہیئے کہ اچھے تعلقات کے باوجود یہ تاثر پیدا کرنیکی کوشش کی جاتی ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان مسلکی لحاظ سے اختلاف ہے، مشہد مقدس جا کر اس تاثر کو زائل کر دیا گیا ہے۔ فرقہ وارانہ بنیادوں پر جو پسند ناپسند کی باتیں کی جا رہی تھیں، یہ اسکا توڑ ہے، پاکستان میں جو طبقے ایران کے حامی ہیں یا سعودی عرب کے، دونوں کو یہ سمجھ جانا چاہیئے کہ پاکستان کسی فریق کیساتھ مل کر دوسرے کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا، بلکہ سب سے اچھے تعلقات چاہتا ہے، کسی کو نیچا نہیں دکھانا چاہتا، ساتھ مل کر چلنا چاہتا ہے، اختلافات دور کرنے کی پیشکش کرچکا ہے، کسی اختلاف کا حصہ نہیں بن رہا۔ اس لیے پرائم منسٹر کا یہ اچھا فیصلہ تھا کہ وہ مشہد سے ہو کر تہران گئے۔

اسلام ٹائمز: پاک ایران تعلقات میں مذہبی پہلو کے علاوہ بھی متعدد بنیادیں موجود ہیں، وہ کیوں کمزور پڑ رہی ہیں۔؟
سینیٹر رحمان ملک:
یہ بات پاکستانی عوام کو ذہن میں رکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کی آبادی کے ایک بڑے حصے کا اوریجن ایران سے ہے، اسی طرح بڑی آبادی کا اوریجن افغانستان سے ہے، ہم کیسے ایکدوسرے کے بغیر رہ سکتے ہیں، یہ چھوڑ سکتے ہیں، یہ رشتے ایک خاندان کے قریبی رشتہ داروں کی طرح کے ہیں، اس پہلو کو کبھی فراموش نہیں کیا جانا چاہیئے، پھر آگے آپ دیکھ لیں کہ کتنی بنیادیں نظر آتی ہیں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کی۔ پاکستانی ایران جائے بغیر نہیں رہ سکتے، افغانی پاکستان اور ایران جائے بغیر زندگی نہیں گزار سکتے۔ ہم سب دو قالب یکجان ہیں۔ یہ ایک ہی خاندان کے لوگ ہیں، جو جغرافیائی طور پر موجودہ تین ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں، ان کے درمیان موجود رشتوں کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔

اسلام ٹائمز: اس لحاظ سے یہ بات درست ہے، لیکن اتنی آسانی سے تیسرے فریق کو کیسے موقع مل گیا کہ اب سیاسی بنیادوں پہ تعلقات میں مشکلات درپیش ہیں۔؟
سینیٹر رحمان ملک:
اسکی وجہ خطے میں جاری پاکستان اور ایران کیخلاف امریکہ اور انڈیا کی پراکسی وار ہے، کوئٹہ میں دہشت گردی جاری ہے، مذہبی بنیادوں پر، اسی طرح نسلی بنیادوں پر بھی لڑائی کے ذریعے پاکستان کو کمزور اور مجبور کیا جاتا ہے کہ داخلی اور خارجہ سطح پر ہم فعال کردار ادا نہ کرسکیں، لامحالہ طور پر اس کا اثر پاک ایران تعلقات پر بھی پڑتا ہے، اسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے، اسکی ابتداء ملاقاتوں اور مل بیٹھنے سے ہوتی ہے، اس سلسلے میں پرائم منسٹر نے یہ اچھا انیشیٹو لیا ہے، تجارت کی بات بھی کی ہے۔ برصغیر میں مسلمانوں کی تاریخ اور فارسی زبان سے ہمارے تعلق کا ذکر بھی کیا ہے، جس طرح انہوں نے صدر روحانی سے کہا کہ انگریز نے ہمارے لسانی رشتوں کو خراب کیا، اسی طرح موجودہ دور میں امریکہ اور انکے حواری پاکستانی اور ایرانی بھائیوں کے درمیان دوریاں پیدا کرنیکی کوشش میں ہیں، لیکن دونوں ممالک کی قیادت کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے، وزیراعظم عمران خان کی طرح ایرانی قیادت کو بھی پاکستان آنا چاہیئے، جس سے غلط فہمیاں ختم کرنے اور تعلقات کو فروغ دینے میں آسانی ہوگی۔

اسلام ٹائمز: ان سازشوں کیوجہ سے بلوچستان کی موجودہ صورتحال اور گوادر پورٹ کے آپریشنل ہونیکا آپس میں تعلق نظر آتا ہے، چاہ بہار میں انڈیا کی موجودگی میں دوریوں کا خاتمہ کیسے ممکن ہوگا۔؟
سینیٹر رحمان ملک:
دیکھیں یہ تو ایران کا حق ہے کہ وہ جن ممالک کیساتھ سمجھیں کہ انہیں ضرورت ہے، تعلقات رکھیں، جیسا کہ اختلافات کے باوجود پاکستان کے بھی سعودی عرب سے تعلقات ہیں، لیکن ایسی سازشوں پر نظر رہنی چاہیئے، جن سے پورے خطے میں ماحول ابتر ہو رہا ہو، یہ ایک انتظامی مسئلہ بن جاتا ہے، اس سلسلے میں بلوچستان میں پاکستان کی مسلح افواج کی موجودگی اس کی ضمانت فراہم کرسکتی ہے، یہ بات اب بلوچ بھائیوں کو بھی سمجھ آگئی ہے کہ اگر پاکستانی سکیورٹی فورسز وہاں اپنا رول پلے نہ کریں تو یہ علاقہ میدان جنگ رہیگا۔ جس سے تمام ممالک کو مشکلات پیش آتی رہیں گئیں، اس طرح کے مزید اقدامات کرنا ہونگے، ایک تو سرحدی صورتحال ہے، وہ دونوں ممالک کو مل کر کنٹرول کرنا ہوگی، دوسرا اپنی اپنی حدود میں تربیتی کیمپ ختم کروانا، تخریب کاروں کی آزادانہ نقل و حرکت کو روکنا، دونوں مماک کو اپنے علاقوں میں کنٹرول کرنا ہوگا۔

پھر چاہے بھارت ہو یا اسرائیل ان کے ہتھکنڈوں کو ناکام بنایا جاسکتا ہے، اس کیلئے ایک پیج پہ ہونا اور نیک نیتی سے اقدامات کرنا ہونگے، معیشت کی بہتری کیلئے بھی ضروری ہے اور تعلقات کو ہموار رکھنا بھی اسی سے ممکن ہے۔ ایران کیلئے بھی یہ سود مند ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور سی پیک کا حصہ بنیں۔ اسی طرح یہ پاکستان کے بھی مفاد میں ہے۔ یہ مسائل پیدا ہوتے رینگے، انہیں ہوشیاری سے مل کر حل کرنا ہوگا۔ خطے میں اور بھی مین لائن پورٹس ہیں، گوادر اور چاہ بہار کے علاوہ، وہ بھی متاثر ہوسکتے ہیں، ان کے بھی تحفظات ہونگے، انہیں مدنظر رکھنا پڑیگا، سارے ممالک کے مفادات بھی ہیں اور دہائیوں پہ محیظ اپنے تعلقات بھی ہیں، کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک کو ڈکٹیٹ تو نہیں کرسکتا، افہام و تفمہم سے ہی سب کو ایک دوسرے کیلئے راستہ دینا ہوگا۔ ہمیشہ مثبت انداز میں دیکھنا پڑیگا۔

اسلام ٹائمز: اتنے بڑے پیمانے پہ ہونیوالی تجارت کے دونوں پہلو ہیں، مثبت بھی اور مسابقت کا عنصر بھی ہے، پاکستان کے مدںظر کیا رہنا چاہیئے۔؟
سینیٹر رحمان ملک:
ایران ہمارا ایک دوست ملک ہے، ان کی نیت پہ کوئی شک نہیں ہے، اگر وہ چاہ بہار کو ڈیولپ کریں، یہ انکا حق ہے، لیکن بات یہ ہے کہ چاہ بہار اور گوادر کا آپس میں کوئی مقابلہ نہیں ہے، یہ گہرا پانی ہے، بڑا ساحل ہے، زیادہ تجارت ہوگی۔ یہ شکوک و شبہات اس وجہ سے ہیں کہ وہاں انڈیا براہ راست بیٹھا ہوا ہے، انہوں نے پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا، پاکستان کے دو ٹکڑے کئے، ہم انڈیا کے ڈسے ہوئے ہیں، اب بھی وہ چھپا نہیں رہے، ظاہر کرتے ہیں پاکستان دشمنی کو، وہ یہ کہتے ہیں کہ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرینگے، پھر گوادر بھی بلوچستان میں ہے اور چاہ بہار بھی نزدیک ہے۔

یہ اب ایران کی ذمہ داری ہے کہ تجارت بھی کریں اپنی بندرگاہ سے، اپنے ملک اور دوسرے ممالک کو فائدہ بھی پہنچائیں، لیکن بھارت کو موقع نہ ملے کہ پاکستان کیخلاف اقدامات کرسکے۔ بھارت تو افغانستان اور دوسرے علاقوں سے بھی پاکستان کو تنگ کر رہا ہے، یہ پاکستان کیلئے ایک مستقل مسئلہ ہے، اس میں ایران کو ہمارے ساتھ تعاون کرنا چاہیئے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ کلبھوشن سمیت تمام معاملات میں ایران کو بھی بھارت نے دھوکہ دیا ہے، اس کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ ان تحفظات کے باجود سی پیک سے ایران کو بھی فائدہ اٹھانا چاہیئے، ہماری طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں، جہاں اور 62 ممالک آپس میں مل کر کام کرسکتے ہیں تو ایران تو ہمارا ہمسایہ دوست ملک ہے، ہم کیوں رکاوٹ بنیں گے۔ ون بیلٹ ون روڈ کے چھ لنکس میں سے ایک اہم لنک سی پیک بھی ہے، ایران کو اس میں کیوں نہیں شامل ہونا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کے دوسرے دوست ممالک جنکی مخاصمت ہے ایران کیساتھ، کیا وہ اس میں بڑی رکاوٹ نہیں ہیں۔؟
سینیٹر رحمان ملک:
میرے خیال میں اگر انہوں نے کوشش بھی کی ہے تو پاکستان کے ہر سول اور فوجی حکمران نے سعودی عرب کیساتھ اچھے تعلقات بھی رکھے ہیں اور ایران کیساتھ بھی تعلقات کو قربان نہیں کیا۔ پاکستان کی یہ پالیسی درست ہے کہ تقسیم در تقسیم کی وجہ سے سب مسلمان کمزور ہونگے، ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کیلئے یہ بڑا امتحان بنا ہوا ہے کہ کس طرح ایران اور عرب ممالک کے درمیان دوریاں ختم ہوں، یہ ہمارے حکمرانوں کیلئے بڑا چیلنج ہے، زیادہ کام کرنے اور اقدامات کی ضرورت ہوگی۔

اسلام ٹائمز: کیا پاکستان جو خود کئی طرح کی پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے، ایران سمیت مسلم ممالک کیلئے کردار ادا کرنیکی پوزیشن میں ہے۔؟
سینیٹر رحمان ملک:
دنیا کے بڑے ایشوز میں سے یہ ایک ہے، دوسری طرف دنیا میں انصاف اور سچائی نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے، ایران کیخلاف بہت زیادہ زیادتیاں ہو رہی ہیں، لیکن وہ مقابلہ کر رہے ہیں، لیکن کوئی ملک اکیلے کہاں تک جا سکتا ہے، پاکستان کو عالمی سطح پر بھی اس پہ کام کرنا چاہیئے، صاف نظر آرہا ہے کہ جو حالت عراق، لیبیا اور افغانستان کی کی گئی ہے، یہی سلوک وہ ایران کیساتھ کر رہے ہیں، یہ ایک عالمی سطح پہ بلاک بنایا گیا ہے، آسانی سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا، لیکن مسلم ممالک مل کر بہتر راستہ اختیار کرسکتے ہیں، جس میں پاکستان کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ اقوام متحدہ اور کورٹ آف جسٹس میں جائیں کہ ہمارا کیا قصور ہے، ایران نے کس کا کیا بگاڑا ہے، اسرائیل کو لگام ڈالنے والا کوئی نہیں ہے، پاکستان کے اندرونی حالات ہمارے لیے امکانات کو محدود کرتے ہیں، ورنہ بہت سارے سوالات اگر ایران کے متعلق اٹھائے جا سکتے ہیں تو کئی سوالات دوسرے دوست ممالک کے متعلق بھی ہیں کہ وہ کیوں امریکہ اور اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں، اب تو معاملہ اس حد تک بگڑ چکا ہے کہ عرب ممالک اپنی زبان سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اسرائیل اور امریکہ کیساتھ نہیں ہیں بلکہ اسرائیل اور امریکہ انکے ساتھ ہیں۔

کیوں ساتھ ہیں، ایران کیخلاف عربوں کا ساتھ دے رہے ہیں، یہ ایک المیہ ہے، اسکا حل نکلنا چاہیئے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیئے کہ ہم ایران کے ہمدرد ہیں، ٹریڈ بھی کرینگے اور خلوص دل کیساتھ مل کر چلیں گے۔ اس کا پاکستان نے ثبوت بھی دیا ہے کہ یمن جنگ میں اپنے ٹروپس نہیں بھیجے، لیکن یہ صورتحال مشکل اور پیچیدہ ہے، حد درجہ احتیاط اور پھونک پھونک کر قدم رکھنے ہونگے، سب دوست ممالک کو سمجھنا ہوگا، ایک دوسرے کے قریب آنا ہوگا۔ عالمی صورتحال بدل بھی سکتی ہے، جیسے امریکہ نے ساوتھ چائنا سی بند کیا تو سی پیک کے ذریعے ایک اور راستہ کھل گیا۔ پاکستان کو اس لیے بھی سمندر میں موجودگی کو طاقت دینا ہوگی، کیونکہ سکیورٹی چیلنجز بڑھیں گے، ساتھ ہی پرامن بقائے باہمی کے اصول کے مطابق ذمہ داری کا مظاہرہ بھی کرنا ہوگا۔ یہ پالیسی کا اصول ہمیں آج چائنا نے نہیں بلکہ قائد اعظم محمد علی جناح نے دیا تھا، یہ خارجہ پالیسی کے اصول انہون نے بتائے تھے کہ جارحیت نہیں کرینگے، یو این او کے چارٹر پہ چلیں گے، جس سے ظلم ہوگا، اسکی حمایت کرینگے، ہمسائیوں سے اچھے تعلقات رکھیں گے، آج چین بھی یہی کر رہا ہے، لیکن چیلنجز تو انکے لیے بھی ہیں، مشکلات کے باوجود پاکستان کو امریکہ، چین، سعودی عرب اور ایران کیساتھ مل کر چلنا پڑیگا۔

اسلام ٹائمز: داعش کی عراق و شام سے افغانستان میں منتقلی کے وقت اس خطرے کا مشترکہ طور پر مقابلہ کرنے کیلئے دونوں ممالک قریب ہوئے، کیا مستقبل میں ایسا ممکن ہے۔؟
سینیٹر رحمان ملک:
اس وقت جو چیز انڈیا کیلئے قابل برداشت نہیں وہ سی پیک ہے، ایران کو اس کا حصہ بن کر استفادہ کرنا چاہیئے، اگر ایسا ہو جاتا ہے تو بھارت کی کوشش رائیگاں بنائی جا سکتی ہے، ہم یو این او کے چارٹر کا حصہ ہیں، وہاں امریکہ کا ہولڈ ہے، لیکن ایران اگر چاہے تو افغانستان، تاجکستان، ازبکتسان، قازقستان اور پاکستان کا بلاک بن سکتا ہے، دنیا کو بھی انہی ممالک کے ذریعے سنٹرل ایشیاء تک رسائی ملے گی، بظاہر یہ ایک خواب محسوس ہوتا ہے لیکن یہ ایک حقیقت بن سکتا ہے۔ یہی ایک صورت ہے کہ انڈیا یا تو سازشیں چھوڑ دیگا یا مکمل طور پر تنہاء ہو جائیگا۔ اسی لیے سی پیک کو خراب کرنیکی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے سمندروں میں خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے مشترکہ فورم تشکیل دینے کی دعوت دے سکتا ہے، لوگوں کو ایک دوسرے کیساتھ جوڑنے کیلئے موٹر وے بنایا جائے، جو ایران اور پاکستان کو منسلک کر رہا ہو، اس طرح کے اقدامات سے پورے خطے کو امن کا علاقہ بنایا جا سکتا ہے، یہ سب مسلمانوں کی عظیم قوت کا اظہار ہوگا۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر پورا عمل کیا جائے، شدت پسندوں کو ختم کیا جائے، انتہاء پسندی کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ مسلمان ممالک کو بہت ساری چیزوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے، ہماری حکومتوں کا کردار او آئی سی کی طرح کا بن کر رہ گیا ہے، دوسرے ملک تو چھوڑیں، پنجاب کے لوگ جس طرح پہلے کوئٹہ جاتے تھے، اب ان کا جانا مشکل بنا دیا گیا ہے، ملکوں کو اکٹھا کرنے سے پہلے خود کو مستحکم بنانا بھی ضروری ہے۔ اب ماحول ایسا بنانا ہوگا کہ نہ صرف پاکستانی ایران جائیں بلکہ ایرانی بھی بائی روڈ پاکستان آیا کریں، یہ سب وہ اقدامات ہیں، جنہیں انجام دینے کے بعد آپ کہہ سکتے ہیں۔ یہ ہمسایہ مسلم ممالک ایک باقاعدہ طاقتور بلاک کی شکل اختیار کرسکتے ہیں۔ اگر ہزاروں میل دور بیٹھے امریکیوں سے نہ ڈریں تو بارڈر کو یورپ کی طرز پر کھول سکتے ہیں، اگر راستے بند ہوں تو ایک ماں باپ کی اولاد کے درمیان بھی دشمنی پیدا ہو جاتی ہے، بیرونی دباؤ اور اندرونی کمزوریوں اور منفی رویوں پر حاوی ہونا پڑیگا۔ اگر نیت صاف ہو اور دل میں خلوص ہو تو یہ ممکن ہے، تمام ملکوں کے عوام ان چیزوں کے حامی ہیں، حکومتوں کو اقدامات کی ضرورت ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر دنیا میں مقام بنانے کیلئے ہوم ورک کرنا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 790236
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش