0
Tuesday 30 Apr 2019 23:11
ایران اور پاکستان کو سمجھداری کا مظاہرہ کرنا ہوگا

امریکہ کی خواہش ہے کہ ایران اور پاکستان کو لڑوایا جائے، ڈاکٹر عابد رئوف

امریکہ کی خواہش ہے کہ ایران اور پاکستان کو لڑوایا جائے، ڈاکٹر عابد رئوف
ڈاکٹر عابد رئوف کا بنیادی تعلق اورکزئی ایجنسی سے ہے، ملی یکجہتی کونسل کے بانی اراکین میں شمار ہوتا ہے، 2002ء میں ایم ایم اے کے ٹکٹ پر اسلام آباد سے الیکشن بھی لڑا، سیاسی اور مذہبی معاملات پر اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرتے ہیں، ہمیشہ نظام عدل کے احیاء کی بات کرتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے ملکی اور خطے کی صورتحال پر تفصیل سے گفتگو کی ہے، جسکا احوال پیش خدمت ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: کیا موجودہ حکومت کے قیام کے بعد سیاسی منظرنامے پر کوئی تبدیلی محسوس ہوئی ہے۔؟
ڈاکٹر عابد رئوف:
دیکھیں، اس میں کئی پہلو ہیں، ایک پہلو تو یہ ہے کہ ہر پارٹی میں کرپٹ عناصر کا ہی قبضہ ہے اور تحریک انصاف کو بھی کرپٹ عناصر نے گھیر رکھا ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ عمران خان کی حد تک ایک حسن ظن ہے، وہ یہ کہ عمران خان محںت کر رہا ہے، ڈیلیور کرنا چاہ رہا ہے اور قوم کو سیاسی شعور دینے کی کوشش کی ہے، یقیناً کچھ ماضی میں غلطیاں بھی کی ہیں، لیکن جو سچ بولتا یا سچ بولنے کی طاقت رکھتا ہے، وہ معاشروں کو تبدیل کرتا ہے، اگر یونہی لوگ بولتے رہے اور احتساب کرتے رہے تو اس ملک کا مستقبل انتہائی تابناک ہے، باقی ہر پارٹی مجبور ہے کہ کچھ مخصوص عناصر کو ساتھ لیکر چلے، ان عناصر سے عمران خان بھی نہیں بچ سکے، عمران خان کو اسے تسلیم کرنا ہوگا اور وہ تسلیم کرتا بھی ہے کہ یہ الیکٹبیلز مجبوری ہیں۔

اسلام ٹائمز: تمام سیاسی جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات لگائے، لیکن پھر اچانک خاموشی ہوگئی، حتیٰ کہیں کسی فورم پر کوئی ثبوت مہیا نہیں کئے گئے۔ پاکستان کے ہر الیکشن پر ہر بار سوالات اٹھتے ہیں، کیا یہ ریاست پاکستان کے اداروں پر سوال نہیں؟ یا پھر ہمارا مزاج ایسا بن گیا ہے کہ ہر ہارنے والا یہ الزام لگاتا ہے۔؟
ڈاکٹر عابد رئوف:
دھاندلی کے حوالے سے جو بھی الزامات لگائے گئے ہیں، وہ الزامات سو فیصد نہ سہی تو کم از کم پچاس فیصد صحیح ہیں، باقی جو خاموشی ہوگئی ہے، اس کی وجہ ٹرسٹ ڈیفیسٹ ہے، اب اداروں پر اعتبار نہیں رہا، مطلب ایک سوچ پکی ہوچکی ہے کہ یہ اداروں کی اپنی مرضی ہے اور ادارے جو چاہتے ہیں، وہی کرتے ہیں، جن کو انصاف دینا ہوتا ہے، وہ دے دیتے ہیں، جن کو نہیں دینا ہوتا ان کو نہیں دیتے، لہذا انجینئرڈ جسٹس کا تصور بن چکا ہے، سیاسی پارٹیوں میں سے ابھی تک کسی نے ثبوت نہیں دیئے، حالانکہ بہت سارے ثبوت موجود ہیں، لیکن جو اس وقت مشکل بن رہی ہے، وہ یہ ہے کہ جو اعتماد کی کمی ہے، اداروں پر کسی کو اعتماد نہیں رہا۔ یہ انتہائی نقصان دہ بات ہے کہ اداروں پر اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔ مملکت بنتی ہی اعتماد پر ہے، اب نہ کسی کو عدلیہ پر اعتماد ہے نہ ہی کسی کو جی ایچ کیو پر اعتماد رہا ہے، یہ ساری چیزیں لمحہ فکریہ ہیں۔

اسلام ٹائمز: دینی جماعتیں غریب اور عام فراد کیلئے اٹھتی دکھائی کیوں نہیں دیتیں؟ غربت، جہالت اور قرآن سے شادی، جہیز کی لعنت اور دیگر مسائل پر کیا دینی جماعتیں کوئی کردار ادا کر پائی ہیں۔؟
ڈاکٹر عابد رئوف:
دینی جماعتیں غریب اور عام افراد پر ہی تو مشتمل ہیں، امیر طبقہ نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ دینی جماعتیں اپنے کارکنوں کی تربیت نہیں کر پاتیں، ایک نظم اور ایک لڑی میں پرونے سے قاصر رہی ہیں، اس کی کئی وجوہات ہیں اور سب سے بڑی وجہ میرے خیال میں یہ ہے کہ ہمارے مدارس کا جو نصاب ہے، وہ نصاب ایک عالم دین کو اس انداز میں تربیت نہیں دیتا کہ اس کو احساس ہو کہ اس کی زندگی کا اصل مقصد کیا ہے؟، احساس بندگی ہے؟، احساس آدمیت اور احساس انسانیت کیا ہے؟، بدقسمتی سے ہمارے مدارس کا یہ نصاب نہیں رہا، یا پھر غربت کی جس چکی سے وہ نکلتے ہیں تو ان میں یہ احساس ہی ختم ہو جاتا ہے یا پھر کم پڑ جاتا ہے، باقی میرا خیال ہے کہ غربت، جہالت، قرآن سے شادی اور جہیز کی لعنت جیسی چیزیں ایک ہی چیز سے جڑی ہیں جسے ہم نظام عدل کہتے ہیں، دینی جماعتوں کو ایک ہی نقطہ پر متفق کیا جانا چاہیئے کہ اس ملک میں نظام عدل نافذ کرنا ہے، تو پھر امید کی جا سکتی ہے کہ یہ سارے معاملات خود بخود حل ہی ہو جائیں گے۔

اسلام ٹائمز: مولانا فضل الرحمان نے موجودہ حکومت کیخلاف بہت ہارڈ لائن لے لی ہے، کیا انکی تحریک فقط تنظیم سازی اور کارکنوں کو متحرک رکھنے کا ذریعہ ہے یا واقعی کوئی سنجیدہ اقدام اٹھانے جا رہے ہیں۔؟
ڈاکٹر عابد رئوف:
مولانا فضل الرحمان نے جو حکومت کے خلاف سخت موقف لیا ہے، اس کی کئی وجوہات ہیں، بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ وہ عمران خان کو انسٹالڈ وزیراعظم سمجھتے ہیں، ایک جعلی پرائم منسٹر سمجھتے ہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ ایک سلیکٹڈ وزیراعظم سمجھتے ہیں، چونکہ عمران خان نے مستقل طور پر مولانا فضل الرحمان صاحب کو ٹارگٹ کیا ہوا تھا، جتنا میں مولانا صاحب کو جانتا ہوں، وہ ذاتی رنجش اور ذاتی اَنا کو بیچ میں نہیں لاتے، وہ واقعی عمران خان کو سمجھتے ہیں کہ اس کے پاس ایک سکیولر ایجنڈا ہے، وہ ایک سکیولر ایجنڈے کے تحت ملک میں نظام تبدیل کرنا چاہ رہا ہے، لیکن انتہائی چالاکی سے وہ ریاست مدینہ کا نام لیتا ہے، اسی ایشو پر میرا ہلکا پھلکا اپنی قیادت سے اختلاف بھی ہے۔ مولانا صاحب کو جہاں تک دیکھا ہے، وہ قومی امور اور امت کے مسائل ذاتی اَنا، ذاتی رنجش یا کسی مفاد میں نہیں آتے، وہ خالصتاً اخلاص کی بنیاد پر ایک رائے قائم کرتے ہیں۔ باقی ایسی تحریکوں سے رکن سازی ہوتی ہے اور کارکن متحرک رہتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ حکومت نے مولانا صاحب کو اچھا موقع دیا ہے، آسیہ مسیح والے معاملے پر انہیں موقع ملا ہے، جس انداز میں عدالت میں کیس چلا اور دنوں میں فیصلہ آگیا، اس کے بعد عمران خان نے ایک قادیانی کو اقتصادی ٹیم کا حصہ بنایا، یہ ساری چیزیں مولانا کے لیے سود مند ثابت ہوئیں، وہ ایک سیاست دان اور زیرک انسان ہیں، اچھی بیٹنگ کرنا جانتے ہیں اور وہ کھیل رہے ہین، ان کی کوشش ہوگی کہ اسلام آباد لاک ڈاون بھی ہو، اچھی بیٹنگ جاری رکھے ہوئے ہیں، ابھی تک تو ناٹ آوٹ ہیں، وہ میچ جیتنے کی مکمل کوشش کریں گے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ عمران خان کی اسٹیبلمشنٹ کے ساتھ دس سال کی ڈیل ہوچکی ہے، التبہ ان کی ٹیم کے کھلاڑی تبدیل اور نت نئے تجربات ہوتے رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات ہوتے ہیں، لیکن نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو رہے ہیں، بات کہیں بنتی نظر آرہی ہے۔؟
ڈاکٹر عابد رئوف:
افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان جو مذاکرات ہو رہے ہیں، اس کے نتیجہ خیز ہونے کی کوئی توقع نہیں ہے، بہرحال افغانستان کو امریکہ حالت جنگ میں رکھنا چاہے گا، اس لئے کہ اگر مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں اور امن قائم ہو جاتا ہے تو پھر افغانستاں بھی سی پیک پراجیکٹ میں حصہ لے سکے گا، امریکہ نے جو افغانستان کے حوالے سے تازہ ترین منصوبہ بندی کی ہے، وہ انتہائی خوفناک ہے، امریکہ افغانستان میں جنگ کو پرائیوٹائز کرنا چاہتا ہے، بلیک واٹر یا دوسری کمپنیوں کو جنگ کا ٹھیکہ دینا چاہتا ہے، اس کے لیے وہ کنٹریکٹرز رکھے گا اور اپنی فوج کو نکال لے گا، یہ چیز افغان عوام کے لیے زہر قاتل ثاب ہوگی، جنگ کا ایندھن عام عوام بنیں گے، بےروزگاری، جہالت اور ناخواندگی کی وجہ سے عوام الناس کو بھرتی کیا جائے گا، افغانی مارے جائیں گے اور امریکہ کا نام بھی نہیں آئے گا۔ لہذا مجھے لگتا ہے کہ مذاکرات ہوں گے، لیکن نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: سردار اختر مینگل نے وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں بلوچستان میں تیسری جنگ لڑنے کی بو آرہی ہے، ساتھ میں اسے بلوچستان اور ملک کیلئے خطرناک قرار دیا ہے، کیا آپکو بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک مرتبہ پھر عالمی رسہ کشی کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔؟
ڈاکٹر عابد رئوف:
سردار اختر مینگل کی اس رائے سے سو فیصد اتفاق نہیں کرتا، کیونکہ میرا خیال ہے کہ اب پراکسی جنگ ہی ہوگی، ایٹمی طاقت کے ساتھ کوئی بھی اوپن جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا، لیکن بہرحال امریکن سی آئی اے کی بڑی پرانی پلاننگ ہے کہ بلوچستان کو الگ کرکے ایران کے بلوچستان کے ساتھ ملایا جائے اور اسی طرح پختونخوا کی آبادی کو ڈیورنڈ لائن کے پار ملا کر گریٹر پختونستان کا نقشہ بنایا جائے، یہ سارا کام وہ اس لئے کرنا چاہتے ہیں، تاکہ فی الحال چائنہ کو روکنا ہے، اس خطے میں مستقل لڑائی ہوگی، جنگ ہوگی، پراکسی وار بھی ہوگی، جس کا مقصد سی پیک کو ناکام بنانا ہے اور چین کی ایک بڑی انویسمنٹ کو سبوتاژ کرنا مقصد ہے۔ لہذا یہ عالمی طاقتوں کی پراکسی وار چلتی رہے گی، بلوچستان میں ہزارہ کمیونٹی کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، ایران کے اندر مختلف قسم کے حملے ہوسکتے ہیں اور یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے پتہ نہیں کسی خطرناک انجام تک جا پہنچے گا، عمران خان کے دورے کی تعریف کرنی چاہیئے اور تحسین کی نگاہ سے دیکھتا ہوں، انہوں نے غلط فہمی دور کرنے کوشش کی ہے، دونوں ممالک کے جو صاحبان اختیار ہیں، انکو انتہائی سوچ سمجھ کر ایک ایک قدم اٹھانا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: امریکہ ایران ٹنشن ہر گزرتے دن کیساتھ بڑھتی جا رہی ہے، پہلے سپاہ پاسداران (رسمی فوج) کو کالعدم قرار دیا، اب جن سات ممالک کو تیل خریدنے کی چھوٹ تھی، وہ بھی ختم کر دی ہے۔ کیا خطہ ایک نئی جنگ کی طرف جا رہا ہے۔ آپ اسے کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟
ڈاکٹر عابد رئوف:
امریکہ ایران جو ٹینشن ہے، وہ ٹینشن کا سلسلہ بھی چلتا رہے گا، لیکن اس میں جو خوفناک عنصر آ رہا ہے، وہ یہ ہے کہ ایران اور پاکستان دونوں کو سوچنا اور انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیئے، وہ یہ ہے کہ امریکہ کی خواہش ہے کہ ایران اور پاکستان کو لڑوایا جائے، پراکسیز کے ذریعے ہزارہ برادری کو ٹارگٹ کرتے ہیں، ادھر ایران میں پاسداران یا کسی گروپ کو ٹارگٹ کرتے ہیں، ظاہر سی بات ہے کہ دونوں کے تانے بانے پاکستان اور ایران میں ہی ملیں گے، ایک واقعہ میں ایرانی ملے گا تو پاکستان سمجھے گا کہ یہ ایران نے کیا ہے اور پاکستانی ملے گا تو ایران سمجھے گا کہ یہ پاکستان نے کیا ہے۔

دونوں ملکوں کو سمجھنا چاہیئے کہ یہ پراکسیز ہی ہیں، جو یہ کارروائی کر رہی ہیں اور مفاد تیسرا ملک اٹھا سکتا ہے۔ بلوچستان انتہائی محرومی کا شکار ہے اور ایک شدت موجود ہے، ایران میں بھی بلوچ آبادی میں یہ تاثر قائم ہے۔ بغیر تحقیق کے کوئی الزام نہیں لگانا چاہیئے۔ باقی امریکہ اقتصادی گیم کھیل رہا ہے، میرا نہیں خیال کہ امریکہ ایران کے ساتھ الجھنا چاہے گا، امریکہ نے ایران اور پاکستان کو الجھانے کا پلان بنا رکھا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ایران بھی اپنی توانائی اور وسائل امت مسلمہ کے محروم طبقے کے لیے استعمال میں لائے، جنگ کا میدان فائدہ مند نہیں ہوتا، اس سے اجتناب برتنا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 791573
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش