0
Friday 31 May 2019 18:12
اب ملکی دفاعی اور ایٹمی پروگرام کا بجٹ غیر ملکی براہ راست مانیٹر کرینگے

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات امریکہ کے کہنے پر ایران کیخلاف ایک صفحہ پر ہیں، مولانا گل نصیب

تمام اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کا مل بیٹھ کر تحریک چلانے کا فیصلہ حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات امریکہ کے کہنے پر ایران کیخلاف ایک صفحہ پر ہیں، مولانا گل نصیب
مولانا گل نصیب خان جمعیت علماء اسلام (ف) خیبر پختونخوا کے مرکزی امیر اور متحدہ مجلس عمل خیبر پختونخوا کے صوبائی امیر ہیں۔ وہ ایک عالم دین ہونے کیساتھ ساتھ منجھے ہوئے سیاست دان کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ انکا بنیادی تعلق خیبر پختونخوا کے علاقہ تحصیل دینزئی لوئر دیر سے ہے۔ دینی تعلیم وفاق المدارس عربیہ ملتان اور جامعہ امداد العلوم پشاور سے حاصل کی اور پھر مفتی محمود کے قافلہ کا حصہ بن گئے۔ انہوں نے اسلامیات میں ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی ہے، سینیٹ رکن کی حیثیت سے مئی 2012ء میں ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ وہ اتحاد بین المسلمین پر یقین رکھتے ہیں اور اکثر عالمی استکباری قوتوں کیخلاف آواز بلند کرتے نظر آتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے انکے ساتھ موجودہ ملکی صورتحال پر گفتگو کی، جو انٹرویو کی صورت قارئین کی نذر ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: حکومت قومی اداروں کی نجکاری کا عندیہ دے رہی ہے، اسکے ملکی معیشت اور عوام پر کیا اثرات مربت ہونگے اور آپکی جماعت کا اس حوالے سے کیا موقف ہے۔؟ 
مولانا گل نصیب:
دیکھیں، سلیکٹڈ وزیراعظم نے قوم کو مزید 700 ارب روپے کے نئے ٹیکسز اور مہنگائی کی نوید سنا دی ہے، جبکہ نااہل حکومت کے مشیر خزانہ نے قومی اداروں کی نجکاری عندیہ دیدیا ہے۔ جے یو آئی (ف) حکومتی اقدامات کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے، نااہل حکومت کی پالیسیوں سے نہ صرف منافع بخش ادارے خسارے کا شکار ہوں گے بلکہ ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی کا ایک سنگین طوفان برپا ہوگا۔ اداروں کی نجکاری کی بجائے ملکی پالیسی اور حکمران تبدیل ہونے چاہیئں، بصورت دیگر موجودہ حکومت ملک کو دیوالیہ کرکے چھوڑے گی، جس کا نقصان سلیکٹڈ حکمرانوں کو نہیں بلکہ پاکستان کی 22 کروڑ عوام کو اُٹھانا پڑے گا۔ موجودہ حکومت نے کنٹینر پر کھڑے ہوکر قوم سے صدی کا سب زیادہ جھوٹ بولا، اقتدار میں آتے ہی مہنگائی کم کرنے کی بجائے نہ صرف اس میں مزید اضافہ کیا بلکہ آئی ایم ایف کے دباؤ کے سامنے قومی غیرت کا سودا کر دیا، ملک کے اہم عہدوں پر آئی ایم ایف کے ملازمین تعینات کرکے ملکی سالمیت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ مشیر خزانہ، گورنر اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر کے اعزازی چیئرمین آئی ایم ایف کے ملازمین ہیں، اب ملکی دفاعی اور ایٹمی پروگرام کا بجٹ غیر ملکی براہ راست مانیٹر کریں گے۔

90 دن میں ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے اور سب کچھ درست کرنے کے دعوے کرنے والوں کی غلط اور ناقص پالیسیوں نے وطن عزیز کو کئی دہائیاں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ 9 ماہ قوم پر عذاب سے کم نہیں گزرے اور اب تو غریب طبقے کے ساتھ سفید پوش لوگوں کی قوت خرید بھی جواب دی چکی ہے، جبکہ دوسری جانب وزیراعظم بجلی، گیس اور مہنگائی میں 700 ارب کے اضافے کی نوید سُنا رہا ہے، جس سے مہنگائی اور غربت نہیں بلکہ غریب کا خاتمہ ہوگا۔ جے یو آئی (ف) پہلے روز سے کہہ رہی ہے کہ موجودہ ٹولہ بین الاقوامی یہودی لابی کے ایجنٹ ہیں اور ان سے ملک اور قوم کے خیر کی توقع ابس ہے اور حکومتی 9 ماہی کارکردگی نے جے یو آئی (ف) کی ہر بات پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ جے یو آئی (ف) پورے ملک کے عوام کو بیدار کرنے کیلئے ہر ڈسٹرکٹ میں ملین مارچ کرا رہی ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے ستائے ہوئے نوجوان اور عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اسلام آباد کی طرف ملین مارچ کرکے سلیکٹڈ حکمرانوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گا۔

اسلام ٹائمز: حال ہی میں اپوزیشن جماعتوں نے خیبر پختونخوا اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں سے استعفے دیئے، کہا جا رہا ہے کہ اپوزیشن نے یہ اقدام صرف حکومت پر پریشر بنانے کیلئے کیا۔؟
مولانا گل نصیب:
 سب سے پہلے ایک چیز کو سمجھنا ضروری ہے، خیبر پختونخوا اسمبلی کو صوبے کے سب سے بڑے جرگہ کا نام دیا گیا، اسمبلی میں نہ صرف قانون سازی ہوتی ہے بلکہ جب صوبہ میں کہیں ناانصانی اور ظلم نظر آتا ہے تو ارکان اسمبلی اس کی نشاندہی کرتے ہیں اور اس کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ اسمبلی سے ہمیشہ انصاف کی فراہمی کی توقع کی جاتی ہے لیکن بدقسمتی سے ایک عرصے سے اسمبلی انصاف کی فراہمی کی بجائے خود ناانصافی تقسیم کرنے کا ذریعہ بنتی جا رہی ہے۔ سابقہ دور حکومت میں موجودہ قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے بحیثیت صوبائی اسمبلی کے اسپیکر انصاف کی دھجیاں اُڑائی تھیں۔ اسمبلی میں بعض غیر قانونی بھرتیاں اور تقرریاں کی تھیں، جو صوبائی سروس ٹریبونل اور پشاور ہائی کورٹ نے وہی تقرریاں اور بھرتیاں غیر قانونی قرار دیں۔

اسد قیصر کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی کے موجودہ اسپیکر مشتاق غنی سے انصاف کی توقع کی جا رہی تھی، لیکن وہ بھی اپنے پیش رو اسد قیصر کی راہ پر چل پڑے۔ اسمبلی میں من پسند اور اپنے حلقے کے لوگوں کو ملازمتوں سے نوازا جا رہا ہے۔ ہمارے نمائندوں کو بھی عوام نے ووٹ دیکر اسمبلی میں بٹھایا ہے، ہمارے ایم پی ایز اور ایم این ایز کو بھی اپنے علاقوں میں ترقیاتی کام کرنے کیلئے فنڈز چاہیئے ہوتے ہیں، جو یہ دینے کے حق میں نہیں۔ اسمبلی میں کل 7 افسران سمیت کلرکوں کی نئی بھرتی کی جا رہی ہے، جب اسمبلی خود ناانصافی کا ذریعہ بنے تو اس سے صوبہ کو انصاف فراہم کرنے کی امید رکھنا پاگل پن ہے۔ نیب کو اسمبلی میں ماضی اور حال میں میرٹ کے خلاف ہونے والے بھرتی نظر نہیں آرہی ہے، اگر قانون سب کیلئے برابر ہے تو اسمبلی سیکرٹریٹ میں ہونے والی بے قاعدگیوں کا نوٹس لینا چاہیئے۔ اعلٰی عدلیہ کو ازخود نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ ایوان کے اندر اس ظلم کے خلاف آواز بلند ہونی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کیکڑا ون کے مقام پر پاکستان کو ناکامی کا سامنا رہا، لیکن اسکے برعکس کے پی کے میں قدرتی معدنیات کے بڑے بڑے ذخائر موجود ہیں، ان پر صوبے کی اپوزیشن جماعتیں توجہ کیوں نہیں دلاتی۔؟
مولانا گل نصیب:
 ہماری بدقسمتی ہے کہ نااہل لوگوں نے ذخائر دریافت کرنے کیلئے ساڑھے 14 ارب روپے تباہ کر دیئے۔ تیل اور گیس کے ذخائر کی دریافت کیلئے بہت بڑی رقم خرچ کی گئی ہے، لیکن بدقسمتی سے ذخائر دریافت نہ ہوسکے۔ سمندر میں تیل اور گیس تلاش کرنے کی بجائے خیبر پختونخوا میں گیس اور تیل کے ذخائر کی وافر مقدار موجود ہے، لیکن اس پر کام نہیں ہو رہا ہے۔ عمران خان بڑے بدقسمت وزیراعظم ثابت ہوئے، قوم کی تقدیر بدلنے کی بجائے مزید صورتحال ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ جب محمد نواز شریف وزیراعظم تھے تو عمران خان کہتے رہے کہ ایف آر پشاور میں تیل اور گیس کے ذخائر موجود ہیں، لیکن کمپنیوں کو این او سی نہیں دیا جا رہا ہے۔ اب ان کی حکومت ہے قدرتی وسائل کیوں دریافت نہیں کئے جا رہے؟

وزارت پٹرولیم کے مطابق سمندر میں تیل اور گیس کی دریافت کیلئے ڈرلنگ پر جنوری 2019ء میں کام شروع کیا گیا تھا، کیکڑا ون کراچی کے مقام پر 5500 میٹر تک گہری ڈرلنگ کی گئی لیکن تیل اور گیس کے ذخائر نہ مل سکے۔ وزیراعظم نے انتہائی عجلت میں تیل و گیس کے ذخائر ملنے کا اعلان کیا، اگر وہ صبر سے کام لیتے تو شاید ان کی تھوڑی بہت عزت رہ جاتی۔ ایک جانب انہوں نے قوم کو خوشخبری سنائی تو دوسری جانب ذخائر دریافت نہ ہونے اور ڈرلنگ ختم کرنے کا اعلان کیا۔ حکومت کو ڈرلنگ کے نتائج کا انتظار کرنا چاہیئے تھا، لیکن بدقسمتی سے عمران خان کی کتاب میں صبر کا لفظ نہیں، اس لئے انہوں نے قوم کو مایوںس کیا۔

اسلام ٹائمز: اپوزیشن جماعتوں کی بلاول ہاؤس میں ہونیوالی میٹنگ کتنی کامیاب رہی؟ اور اسکے محرکات کیا تھے۔؟
مولانا گل نصیب:
ہماری سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ زرداری ہاؤس میں اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے عیدالفطر کے بعد قائد محترم مولانا فضل الرحمٰن کی سربراہی میں کل جماعتی کانفرنس بلانے اور آئندہ کیلئے ملکر مشترکہ حکمت عملی اپنانے سے اتفاق کیا ہے۔ بلاول بھٹو کے افطار ڈنر میں شریک سیاسی قائدین ملک میں بڑھتی مہنگائی، لا قانونیت، ناقص خارجہ پالیسی اور ڈوبتی ہوئی معیشت سمیت نیب کی انتقامی کارروائیوں کے خلاف مشترکہ حکمت عملی بنانے اور حکومت کے خلاف موثر تحریک چلانے پر متفق ہوگئے ہیں۔ افطار ڈنر کی خاص بات یہ تھی کہ مریم نواز سمیت مسلم لیگ (ن) کی اعلٰی قیادت نے شرکت کی۔ تمام اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کا مل بیٹھ کر تحریک چلانے کا فیصلہ حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ کُل جماعتی کانفرنس میں آئندہ کی ممکنہ تحریک کے خدوخال طے کئے جا رہے ہیں۔

زرداری ہاؤس میں اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کے ایک ساتھ بیٹھنے اور تحریک چلانے پر حکومت بوکھلا گئی ہے۔ عمران خان اور وفاقی وزراء نے اپوزیشن جماعتوں کے مل بیٹھنے سے قبل واویلا کیا اور شور مچایا۔ ملک میں مہنگائی حد سے زیادہ بڑھ چکی ہے، معیشت تباہ ہو کر رہ گئی ہے اور خارجہ پالیسی پر تحفظات ہیں، نیب کی یکطرفہ کارروائی ایسے نکات ہیں، جن پر اپوزیشن رہنما متحد ہوئے ہیں اور اب قوم کو بھی متحد ہونا پڑے گا۔ موجودہ حکومت کے قیام کے بعد اس کے خلاف سب سے بڑی اور پہلی تحریک چلا رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کی صفوں میں پشتون تحفظ موومنٹ کے شامل ہونے سے بعض افراد کو زیادہ تکلیف ہوئی ہے۔ مقتدر قوتوں اور وفاقی حکومت کی کوشش ہے کہ اپوزیشن کی تحریک کو ناکام بنانے کیلئے نیب کو اپوزیشن کے خلاف استعمال کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان نے آئی ایم ایف کی شرائط تو تسلیم کر لی ہیں، اب آگے پاکستان کو کن معاملات میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔؟
مولانا گل نصیب:
 امریکہ آئی ایم ایف کو پاکستان سے اپنی بات منوانے کیلئے استعمال کرنے میں بظاہر کامیاب نظر آرہا ہے، کیونکہ مستعفی ہونے والے وزیر خزانہ اسد عمر اور گورنر سٹیٹ بینک طارق باجوہ آئی ایم ایف کی ناجائز شرائط تسلیم کرنے کی راہ میں بڑی رکاوٹ تھے، اس لئے ان دونوں کو راستے سے ہٹایا گیا۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان افغانستان میں اشرف غنی کی حمایت کرکے انہیں طالبان کے مقابلے میں مضبوط کرے۔ طالبان اب پاکستان کے کنٹرول سے باہر ہیں اور طالبان کی اعلٰی قیادت امریکہ کے مذاکرات سے اس لئے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں کہ اسے یقین ہے کہ افغانستان میں اسے کامیابی نصیب ہو رہی ہے اور امریکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں طالبان کی حکومت ہوگی۔ امریکہ ایک جانب افغانستان میں پاکستان کا تعاون پا رہا ہے تو دوسری جانب ایران کے خلاف قائم ہونے والے اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کا خواہش مند ہے۔ اسوقت سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات امریکہ کے کہنے پر ایران کے خلاف ایک صفحہ پر ہیں۔

امریکہ عالمی مالیاتی اداره (آئی ایم ایف) کے کندھے پر بندوق رکھ کر پاکستان سے اپنی بات منوانے پر بضد ہے۔ اگر پاکستان امریکہ کی خواہش پر ایران کے خلاف کھڑا ہوا تو ایران پاکستان کے خلاف انڈیا کا ساتھ دے گا۔ ملک کے اندر سیاسی انتشار ہے، عسکری اور سیاسی قیادت ایک صفحہ پر نہیں، جس کا ملک کو نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ حال ہی میں ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور ڈاکٹر رضا باقر کی تعیناتی امریکہ کی خواہش پر ہوئی ہے۔ پاکستان امریکہ کے ہاتھوں میں استعمال ہو رہا ہے، اگر پاکستان نے کوئی غلطی کی تو اسے بڑا نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ عالمی مالیاتی فنڈ کی کڑی شرائط تسلیم کرنے سے ملکی معیشت بہتر ہونے کی بجائے بری طرح متاثر ہوگی۔ پاکستان پر یہ الزام لگتا رہا کہ وہ امریکہ کے ساتھ ہاتھ کر رہا ہے، اب پاکستان بری طرح پھنس چکا ہے۔ اب پاکستان کے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ پاکستان نے افغان طالبان سے متعلق اپنے آپ کو امریکہ کے سامنے سرنڈر کیا ہے، جو ملک کیلئے نقصان دہ ہے۔ اب طالبان کا پاکستان پر وہ اعتماد نہیں رہا جو پہلے ہوا کرتا تھا۔

اسلام ٹائمز: ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا پاکستان آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پوری کریگا؟ اور اگر وہ اسکی شرائط پوری نہیں کرتا تو آئنده آئی ایم ایف کیسے پاکستان کو مزید قرضہ دیگا۔؟
مولانا گل نصیب:
ماضی کے مقابلے میں اس بار آئی ایم ایف کا رویہ مختلف ہے۔ اب امریکہ میدان میں کود پڑا ہے، اس لئے عالمی مالیاتی ادارے کو پاکستان کے ساتھ چلنا پڑے گا، کیونکہ آنے والے وقتوں میں امریکہ پاکستان سے بڑا مفاد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 795533
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش