0
Saturday 15 Feb 2020 20:31
سنچری ڈیل ٹرمپ کے یہودی داماد نے اپنی ہاتھ سے لکھی ہے

ایران امریکہ کشیدگی اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی، قدسیہ ممتاز

پینٹاگون امریکہ ایران تصادم چاہتا ہے، کرونا امریکہ کا حیاتیاتی ہتھیار ہوسکتا ہے
ایران امریکہ کشیدگی اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی، قدسیہ ممتاز
قدسیہ ممتاز کالم نگار، تجزیہ کار، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ، چھوٹے تاجروں کو تجارتی سہولیات مہیا کرنیوالی ایک کمپنی چلا رہی ہیں۔ کراچی میں پیدا ہوئیں، بی ایس سی کے بعد ایم اے ماس کمیونیکیشن کی ڈگری لی۔ گذشتہ پانچ سال سے لاہور مقیم ہیں۔ حرف تازہ کے عنوان سے تقریباً سات سال سے کالم نگاری کر رہی ہیں۔ سماجی، معاشی موضوعات، ملکی سیاست، عالمی سیاسیات، تزویراتی گہرائی اور مشرق وسطیٰ خاص موضوعات ہیں۔ پاکستان کے تقریباً تمام بڑے اردو روزناموں سے وابستہ رہ چکی ہیں۔ روزنامہ ایکسپریس، جنگ، نئی بات، روزنامہ 92 نیوز میں لکھتی رہی ہیں۔ انکے کالموں کا مجموعہ زیر طباعت ہے، جو جلد مارکیٹ میں ہوگا۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ان کیساتھ مشرق وسطیٰ کی صورتحال اور ملکی حالات پر ایک نشست کی، جسکا احوال قارئین کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے تو آپکا شکریہ، مصروفیت کے باوجود آپ نے وقت دیا، ترک صدر طیب اردگان کے دورے سے پاکستان کو کوئی فائدہ ہوگا۔؟؟
قدسیہ ممتاز:
سب سے پہلے تو اسلام ٹائمز کا بہت شکریہ، جہاں تک ترک صدر کے دورے کی بات ہے تو ترکی اور پاکستان ایک گہرے، بامعنی اور ہمہ جہت رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ اس کی جڑیں خلافت عثمانیہ میں پیوست ہیں، جو مسلمانوں کی آخری مرکزی حکومت تھی۔ غیر شعوری طور پہ مسلم امہ آج بھی خلافت عثمانیہ کی عظمت رفتہ کو محسوس کرتی اور اس کی نشاة ثانیہ کے خواب دیکھتی ہے۔ ترکی اور یونان کی جنگ میں جب سلطنت عثمانیہ کو فتح حاصل ہوئی تو مسلمانان ہند نے جشن منایا۔ لکھنو میں مولانا عبدالباری جو تحریک خلافت اور جمعیت علمائے ہند کے سرکردہ رہنما تھے، نے ترکوں سے اظہار یکجہتی کیلئے بڑے جلسے کا اہتمام کیا۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جو علی برادران کہلاتے تھے، اس سلسلے میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ان کی والدہ جو بی اماں کہلاتی تھیں اور تحریک خلافت کے تمام رہنماوں کی ماں کا درجہ رکھتی تھیں، خود بھی سیاسی طور پہ متحرک تھیں۔ ان سے منسوب شعر آج تک معروف ہے۔
بولی اماں محمد علی کی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو


جنگ بلقان اور طرابلس میں ترک زخمی سپاہیوں کیلئے مسلمانان ہند نے فنڈز اکٹھے کرکے خلیفہ کو بھجوائے اور میڈیکل وفود ترکی روانہ کئے۔ حقیقت میں مسلمانان ہند جو برطانوی سامراج کے ستم کا براہ راست نشانہ تھے، اپنی آخری اُمید خلافت عثمانیہ کو سمجھتے تھے، جو تیزی سے زوال پذیر تھی۔ عالمی سامراج نے جب مسلمانوں کی اس آخری مرکزی حکومت کے ایک سازش کے تحت حصے بخرے کئے تو مسلمانان ہند بجا طور پہ اپنی بقاء کی فکر میں مبتلا ہوگئے۔ اسی فکر نے آگے چل کر قیام پاکستان کی بنیاد رکھی۔ یہ ایک طویل اور دلچسپ بحث ہے اور اس سلسلے میں سر سید احمد خان اور سید جمال الدین افغانی کی نظریاتی چشمک کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیئے۔ یہ امر بھی دلچسپی کا باعث ہوگا کہ اس وقت ایران اور روس کے شیعہ اور سنی علماء نے مشترکہ طور پہ خلافت عثمانیہ کے دفاع کو مسلمانوں کی سیاسی ضرورت قرار دیا تھا اور لکھنو کے سید امیر علی جو خود ایک شیعہ تھے، سنی خلافت عثمانیہ کے دفاع میں پیش پیش تھے۔ خلافت عثمانیہ تو باقی نہ رہی لیکن ترک قوم نے مسلمانان ہند کی یہ حمایت ہمیشہ یاد رکھی۔ بالخصوص ہندوستان کے وہ حصے جو پاکستان میں شامل ہوئے، ترکوں کی خاص مودت اور محبت کا مرکز ہیں۔

اس تناظر میں پاکستان ترکی کے تعلقات کی اہمیت اور گہرائی کو سمجھنا اس وقت بھی ضروری ہو جاتا ہے، جب پچھلے دنوں ترکی کے دورے پہ گئے وزیراعظم عمران خان نے بطور خاص ترک عوام کیساتھ نہ صرف اس پس منظر کا تذکرہ کیا بلکہ ترک نیوز ایجنسی انا دولو کیساتھ ایک انٹرویو میں اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ پاکستان ترکی کیساتھ مل کر خلافت عثمانیہ کے آخری ایام میں مسلمانان ہند کی جانب سے چلائی گئی تحریک خلافت کی یاد میں کوئی دن مخصوص کرنا چاہتا ہے۔ ان کی اس خواہش کا کتنا احترام کیا جائے گا، اس کا مجھے علم نہیں، لیکن یہ اپنی جگہ نہایت اہم اور ذومعنی بات تھی، جو وزیراعظم نے کہی۔ اس پہ پھر کبھی بات ہوگی کیونکہ یہ ہمارا موضوع نہیں، لیکن اردوان نے اپنے خطاب میں علامہ اقبال کی نظم حضور رسالت مآب (ص) کا تذکرہ کیا، جو علامہ نے 1911ء میں جنگ بلقان کے دوران مولانا ظفر علیخان کے بادشاہی مسجد میں جلسے میں پڑھی تھی۔

جہاں تک طیب اردوان کے حالیہ دورہ پاکستان کا تعلق ہے تو یہ اپنے تاریخی پس منظر اور جذباتی وابستگی کے علاوہ سیاسی اور تجارتی اہمیت کا حامل ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان اس وقت پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ہم نے ماضی میں دیکھا ہے کہ سربراہانہ تعلقات ذاتی تجارتی فائدوں کیلئے استعمال ہوئے۔ ترکی کی مدد سے ہم نے زیادہ سے زیادہ میٹرو بس بنائی یا کچرے اٹھانے کے ٹھیکے ترک کمپنیوں کو دیئے گئے اور کک بیکس بنائے گئے، حالانکہ ترکی جیسی پھیلتی ہوئی معیشت میں پاکستان کیلئے بہت زیادہ گنجائش موجود ہے۔ عمران خان کے دورہ ترکی اور اردوان کے دورہ پاکستان میں مسئلہ کشمیر کے بعد اسی تجارتی حجم کو بڑھانے پہ فوکس کیا گیا ہے۔ اردوان نے پاکستان میں ٹورازم، زراعت اور کان کنی کے شعبوں میں انویسٹمنٹ کی بات کی ہے اور ترک پاکستان تجارتی حجم ایک بلین ڈالر سے پانچ بلین ڈالر تک لانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ ویسے گذشتہ سال صرف دسمبر کے مہینے میں پاکستان کی ترکی کو برآمدات میں نومبر کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے۔

ترکی پاکستان تجارت اہم نکتہ ہے لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کشمیر پہ ترکی کا موقف واضح اور دو ٹوک ہے اور ایف اے ٹی ایف کے معاملے پہ پاکستان کی حمایت کا یقین بھی دلایا گیا ہے اور ماضی میں چین اور ملائشیاء کیساتھ ترکی پاکستان کی حمایت میں ووٹ دے چکا ہے۔ یہ وہ معاملات ہیں جو اس دورے کے بغیر بھی تقریباً طے شدہ ہیں، اس لئے میں اہم ترین معاملہ اس وقت دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم میں اضافے کو سمجھتی ہوں۔ صدر اردوان نے اپنے ملک کی مثال دے کر یہ بھی کہا ہے کہ اقتصادی ترقی ایک دن میں حاصل نہیں ہوتی۔ اس میں وقت لگتا ہے، عمران خان کو اخلاقی مدد بھی فراہم کی ہے، جو اپنے معاشی اقدامات کے باعث اپوزیشن کی تنقید کی زد میں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان کو تمام تر توجہ ترکی کے ساتھ تجارت بالخصوص زرعی اجناس، ٹیکسٹائل اور ٹورازم پہ دینی ہوگی۔ اس کے علاوہ دفاعی تعاون اہم ہے۔ مئی 2018ء میں پاکستان ترکی تاریخ کا سب سے بڑا دفاعی معاہدہ ہوا ہے اور ترکی پاکستان کے لئے دوسرا بڑا عسکری معاون بن کر اُبھر رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان نے سعودی عرب کے دباو میں کوالالمپور کانفرنس میں شرکت نہیں، بعد میں عمران خان نے جا کر وضاحتیں دیں، کیا پاکستان نے اپنے دوست ممالک کو ناراض نہیں کر دیا کہ ترکی، ایران اور ملایشیاء نے کشمیر ایشو پر ہماری حمایت کی، لیکن کشمیر کے معاملے پر حمایت نہ کرنیوالے سعودی عرب کے کہنے پر ہم نے کوالالمپور کانفرنس میں شرکت نہ کی، حالانکہ اس کانفرنس کا آئیڈیا بھی ہمارا تھا۔؟؟
قدسیہ ممتاز:
اگرچہ ملائیشیاء سمٹ میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے پہ تنقید کسی حد تک درست معلوم ہوتی ہے، لیکن یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا ایسی کسی سمٹ میں شرکت کرنا جو نان عرب ممالک پہ مشتمل ہو، پاکستان کیلئے مناسب بھی تھا یا نہیں۔؟ ہم اس امر کو نظر انداز کرسکتے ہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب دونوں جانب سے پاکستان پہ کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے کیلئے دباو کا انکار اعلیٰ ترین سطح پہ کیا گیا، لیکن یہ نکتہ اپنی جگہ اہم ہے کہ پاکستان اپنی تاریخ کے اہم ترین موڑ پہ کھڑا ہے جہاں اسے اپنی غیر جانبداری برقرار رکھنا ہی اس کی خارجہ پالیسی کا محور ہوگا۔ اگر اس نکتے کو مدنظر رکھا جائے تو وسیع تر تناظر میں سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ درست معلوم ہوتا ہے۔ اگر مجھ سے پوچھیں تو یہ سمٹ بھی او آئی سی جو سعودی عرب کے زیر اثر ہے، کی طرح غیر موثر ہی ثابت ہوگی۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اس سمٹ میں خطے کے اہم ترین معاملات نظر انداز کئے گئے۔ روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پہ خاموشی اختیار کی گئی۔ چین میں اویغور مسلمانوں کیساتھ غیر انسانی سلوک پہ کچھ نہیں کہا گیا۔

حد تو یہ ہے کہ ایک ایکٹویسٹ نے جب روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے کی طرف توجہ دلائی تو اسے یہ کہہ کر بولنے سے روک دیا گیا کہ سمٹ کا یہ سیشن صرف ٹیکنالوجی کیلئے مخصوص ہے۔ اسی طرح ایک خاتون نے جب کشمیر کو فلسطین اور بھارت کو اسرائیل سے جوڑنے کی کوشش کی تو اس پہ معزز شرکاء نے گھمبیر خاموشی اختیار کئے رکھی۔ شام اور یمن کے معاملے پہ بھی یہ خاموش رہے، تو آخر امت مسلمہ کا کونسا مسئلہ اس سمٹ میں طے ہونے جا رہا تھا، جو پاکستان کو شرکت نہ کرنے پہ آج تک طعنے دیئے جا رہے ہیں اور اگر شریک ممالک اپنی کسی مصلحت کے تحت ان معاملات کو چھیڑنا نہیں چاہتے تھے تو پاکستان سے یہ توقع کیوں کی جا رہی تھی کہ وہ اپنی مصلحت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی غیر جانبداری مشکوک بناتا بالخصوص اس وقت جب ایران سعودی عرب تنازعہ اپنے عروج پر ہو۔ سمجھنا چاہیئے کہ ایران اور سعودی عرب تناو کے درمیان پاکستان کی غیر جانبداری ہی اس کی بقاء ہے۔ اس تناظر میں یہ فیصلہ مناسب تھا اور سمٹ میں شریک تمام دوست ممالک پاکستان کی اس مجبوری سے واقف ہیں، جیسا کہ بعد میں مہاتیر محمد اور اردوان نے ثابت بھی کیا۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب امریکہ اسرائیل دوستی کیوجہ سے امت مسلمہ میں تنہائی کا شکار ہے، کیا اس صورت میں امت مسلمہ کیلئے نیا بلاک ضروری نہیں ہوگیا۔؟؟
قدسیہ ممتاز:
سب سے پہلے تو اُمت مسلمہ کی تعریف بیان کر دوں۔ امت مسلمہ مسلمان حکمرانوں کے مفاداتی ٹولے کا نام نہیں، بلکہ مجبور و مقہور مسلمانوں کے اس درماندہ گروہ کا نام ہے، جس کا حقیقتاً کوئی پرسان حال نہیں۔ اگر آپ اس تعریف کو سمجھنے کیلئے تیار ہیں تو آپ کو ماننا ہوگا کہ تمام مسلم ممالک سمیت کوئی اُمت مسلمہ کا ہمدرد نہیں اور سب نے اپنے تزویراتی مفادات کیلئے مسلمانوں کے دکھوں میں اضافہ ہی کیا ہے۔ آپ یمن سے لے کر فلسطین تک سارا نقشہ اٹھا کر دیکھ لیں۔ کہیں کوئی روس کا اتحادی ہے تو کہیں امریکہ اور اسرائیل کا معاون۔ زمین بھی مسلمانوں کی ہے اور خون بھی مسلمانوں کا بہہ رہا ہے۔ وسائل کی جنگ ہو یا، ہوس ملک گیری، بادشاہت ہو یا تیل کے ذخائر پہ قبضہ کی کشمکش، ان سب کے نتیجے میں مسلم امہ کا خون بہا ہے۔ کوئی نیا بلاک بھی ان ہی ممالک پہ مشتمل ہوگا، جو اپنی سرحدوں کے مفادات کو پیش نظر رکھیں گے۔ ایسے میں امت مسلمہ کیلئے کوئی بھی نیا بلاک ایک نئے فریب کے سوا کچھ نہیں۔ بہتر ہوگا ہم اس فریب سے نکل آئیں۔

اسلام ٹائمز: ٹرمپ نے سنچری ڈیل کا کی حمایت کی اور مسلم ممالک کو بھی کہا کہ اس تجویز کو تسلیم کریں، کیا یہ تجویز درست ہے کہ فلسطینی پیسے لے لیں اور فلسطین چھوڑ کر ہمسایہ ممالک میں جا بسیں، اسطرح تو کل انڈیا بھی کشمیریوں کو کہے گا پیسے لے لیں اور کشمیر چھوڑ کر پاکستان جا بسیں۔؟؟
قدسیہ ممتاز:
ڈیل آف دی سینچری یا صدی کی ڈیل کے متعلق میں نے بہت پہلے کالم لکھا تھا، جب کم سے کم پاکستان میں اس کے متعلق کسی کو علم نہیں تھا۔ میں نے اس میں یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت ہوگا اور ابو دیس کو فلسطین کا دارالحکومت بنایا جائے گا۔ صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاوس میں متمکن ہوتے ہی امریکی سفارتخانہ یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا، صدی کی ڈیل ٹرمپ کے یہودی داماد جیرڈ کشنر نے اپنے ہاتھوں سے لکھی ہے۔ جیرڈ اس قدر کٹر صیہونی ہے کہ جس دن اس کے سسر الحذر صدر ٹرمپ کی صدارتی حلف برداری کی تقریب تھی، اس دن ہفتہ تھا۔ آپ کو علم ہے کہ یہودی یوم السبت پہ سفر نہیں کرتے۔ اس مقصد کیلئے اس نے اپنے مخصوص یہودی ربی سے خصوصی اجازت نامہ حاصل کیا۔ صدی کی ڈیل کوئی نئی بات نہیں۔ فلسطین میں اسرائیل کا بزور قوت قیام، عربوں کی فلسطین سے عملی دست برداری، مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال جو عرب بہار سے شروع ہوئی، اسرائیلی آبادکاری کا مسلسل پھیلاو۔ ایران کا مشرق وسطی میں نفوذ اور لبنان میں اسرائیل حزب اللہ جنگیں۔ سب ایک ہی سلسلے کی کڑی ہیں۔

سلطان صلاح الدین ایوبی کے زمانے سے ہی یہ عسکری نکتہ مشہور تھا کہ جس کا کنٹرول دمشق پہ ہے، اسی کا کنٹرول یروشلم پہ ہوگا۔ اس تناظر میں دیکھیں تو صدی کی بڑی ڈیل کوئی نئی بات نہیں۔ ہاں زمینی حقائق کو مدنظر رکھیں تو اس میں فلسطینیوں کی کسی نہ کسی حد تک بچت کا پہلو ہے کہ انہیں کچھ نہ کچھ مل جائے گا۔
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
قابض قوتوں کا ایک ہی طریقہ کار رہا ہے کہ کمزور کو موت دکھا کر بخار پہ راضی کر لیا جائے۔ امریکہ اور اسرائیل کے بعد کشمیر میں بھارت بھی اسی نقش قدم پہ ہے۔ کشمیریوں کی نسل کشی جاری ہے اور علاقے کی ڈیموگرافی بدلی جا رہی ہے۔ کچھ عرصہ بعد بچے کچھے کشمیریوں کو سرحد پار دھکیل دیا جائے گا یا دیگر علاقوں میں آباد کر دیا جائے گا۔ یہ ایک بڑی جنگ کا نقشہ ہے، جس کا ایک سرا کشمیر اور دوسرا فلسطین ہے۔

اسلام ٹائمز: آپکی مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر گہری نظر ہے، موجودہ حالات کو کن تناظر میں دیکھتی ہیں، حالیہ ایران امریکہ کشیدگی کا انجام کیا ہوگا؟
قدسیہ ممتاز:
آپ کے اس سوال کا جواب تو کسی کے پاس نہیں۔ ہم زیادہ سے زیادہ تجزیہ کرسکتے ہیں اور وہ میں گذشتہ سات برسوں سے کرتی آرہی ہوں اور اللہ علیم و خبیر کے فضل سے مشرق وسطی سے متعلق میرا کوئی تجزیہ ابھی تک غلط نہیں ہوا۔ حالات عین اسی سمت جا رہے ہیں، جس کی طرف میں صراحتاً اور اشارتاً لکھتی رہی ہوں۔ مختصراً اتنا کہنا چاہوں گی کہ ایران امریکہ کشیدگی اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی۔ فی الحال ترکی کو کنٹرول کرنے کیلئے شام میں ایران کی موجودگی ضروری ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتی۔

اسلام ٹائمز: ایران نے اعلان کیا کہ وہ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کا ’’سخت انتقام ‘‘ لے گا، آپکی نظر میں یہ سخت انتقام کیا ہوسکتا ہے، حالانکہ ایران عراق میں امریکہ کے 2 اہم ترین اڈے بھی تباہ کرچکا ہے۔؟؟
قدسیہ ممتاز:
آپ کے اس سوال کا جواب پہلے سوال سے پیوستہ ہے۔ شاید آپ کو علم ہو کہ عراق نے 1987ء میں عراق ایران جنگ کے دوران امریکی بیڑا یو ایس ایس اسٹارک تباہ کیا تھا، لیکن امریکہ نے اس پہ خاموشی اختیار کی۔ اسرائیل نے عرب اسرائیل جنگ کے دوران یو ایس ایس لبرٹی تباہ کیا تھا، لیکن امریکہ نے خاموشی اختیار کی۔ جنرل قاسم سلیمانی کا قتل ایران کیلئے بڑا دھچکا ہے، لیکن عراق میں امریکی اڈے تباہ کرنے کے بعد امریکی خاموشی محض وقتی ہے۔ جیسے یہ صدام حسین کیخلاف وقتی تھی۔ امریکی کانگریس نے حال ہی میں صدر ٹرمپ کے ایران پہ حملے کے اختیار کیخلاف بل منظور کیا ہے، جس میں ری پبلکن ممبران نے بھی حق میں ووٹ دیا ہے۔ البتہ کسی اچانک کارروائی کی صورت میں جوابی کارروائی کا صدارتی اختیار ہنوز موجود ہے، جو امریکی صدور ماضی میں بے دھڑک استعمال کرتے رہے ہیں۔

پینٹا گون ہر صورت میں جنگ چاہتا ہے اور صدر ٹرمپ کو اقتدار میں لانے والی صیہونی لابی کی بھی یہی خواہش ہے۔ حالات آپ کے سامنے ہیں۔ فی الحال ترکی شام اور لیبیا میں مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ادلب میں ترکی نے شامی فوجی اڈے تباہ کئے ہیں، جو ایک جوابی کارروائی تھی، کیونکہ ترک فوجیوں پہ شامی فوج نے حملہ کیا تھا۔ ساتھ ہی اسرائیل نے شام میں ہی ایرانی فوجی اڈوں پہ باقاعدہ حملہ کیا ہے۔ باقاعدہ میں نے خاص طور پہ کہا ہے، کیونکہ یہ حملے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں، آپ اس باقاعدہ پہ جتنا غور کریں گے صورتحال اتنی ہی واضح ہوگی۔ میں پھر کہوں گی پہلا مسئلہ ایران نہیں ترکی ہے، ہم مشرق وسطیٰ میں لیبیا کو نظر انداز کر رہے ہیں، جہاں کریسنٹ آف آئل پہ قبضے کی جنگ جاری ہے، جس میں ترکی پوری طرح کود چکا ہے۔ شام سے امریکی انخلا کے بعد کردوں کو قابو میں کرنے میں ترکی پہلے ہی پھنسا ہوا ہے۔ یہ ایک پیچیدہ صورتحال ہے، اس کے بے شمار عسکری پہلو ہیں۔

اسلام ٹائمز: کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ سخت ترین انتقام امریکہ کا مشرق وسطیٰ سے انخلاء ہوگا، کیا امریکہ مشرق وسطیٰ سے نکل جائیگا۔؟؟
قدسیہ ممتاز:
آپ کے یہ تمام سوالات ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔ شام سے امریکی انخلا ضرور ہوگا اور معاملات روس ترکی شام اور ایران کے درمیان براہ راست ہو جائیں گے اور یہ گریٹر اسرائیل کے اس کھیل میں مہمیز کا کام کرے گا۔ یہ اس وقت ہوگا جب ترکی پوری طرح اس دلدل میں پھنس چکا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: پچھلے دنوں افغانستان میں امریکہ کا طیارہ گرایا گیا، طالبان نے ذمہ داری بھی قبول کی، اس طیارے میں سی آئی اے کا آپریشنل چیف مائیکل ڈی اینڈریا بھی ہلاک ہوا، کیا یہ طیارہ طالبان نے ایران کے کہنے پر گرایا ہے۔؟؟
قدسیہ ممتاز:
طالبان کی اس کارروائی میں طالبان کے علاوہ کوئی ماسٹر مائنڈ نہیں تھا۔ طالبان کی اپنی پالیسی ہے اور وہ اس پہ پوری طرح عمل پیرا ہیں۔ وہ جب چاہتے ہیں، جہاں چاہتے کارروائی کر لیتے ہیں۔ مذاکرات بھی جاری ہیں اور وہ ساتھ ساتھ اپنی اہمیت برقرار رکھنے کیلئے ایسے حملے بھی کر لیتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اب واپس آتے ہیں، کچھ حلقے کہہ رہے ہیں کرونا وائرس امریکہ نے چین میں پھیلایا ہے، تاکہ اسے معاشی طور پر کمزور کرسکے، کیا ایسی ٹیکنالوجی امریکہ کے پاس ہے کہ وہ ایسی اوچھی حرکتیں کرسکے۔؟؟
قدسیہ ممتاز:
جی میں اس خدشے کا اظہار پہلے ہی سوشل میڈیا پہ کرچکی ہوں۔ کرونا وائرس امریکہ کا حیاتیاتی ہتھیار ہوسکتا ہے، جو وہ پہلے بھی کئی ممالک کے خلاف استعمال کرچکا ہے۔ اس کی ایک لمبی فہرست ہے۔ اس کے نتائج حسب منشا نکلے ہیں، یعنی چین کی اکانومی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اس کی اسٹاک ایکسچینج میں گراو آیا ہے اور برآمدات متاثر ہوئی ہیں۔ چینی معیشت کا بہت بڑا حصہ وہ برآمدات ہیں، جو وہ تقریباً تمام دنیا کو کرتا ہے، جس میں خود امریکہ بھی شامل ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ کو بہت بہت شکریہ، آپ نے وقت دیا اور سیر حاصل گفتگو ہوئی، یہ سلسلہ آئندہ بھی برقرار رکھا جائے گا؟
قدسیہ ممتاز:
جی آپ کا بھی شکریہ،کہ آپ تشریف لائے، بالکل آئندہ بھی ایسی نشستیں جاری رہیں گی، آپ کی اور آپ کے ادارے کی شکرگزار ہوں۔
خبر کا کوڈ : 844636
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش