0
Sunday 11 Dec 2011 00:32

عراق سے امریکی انخلاء اور مغربی ذرائع ابلاغ کی پراسرار خاموشی

عراق سے امریکی انخلاء اور مغربی ذرائع ابلاغ کی پراسرار خاموشی
اسلام ٹائمز- العالم نیوز چینل کے مطابق معروف عرب سیاسی ماہر معن بشور نے حال ہی میں شائع ہونے والے اپنے ایک مقالے میں لکھا ہے کہ ان افراد کو جو عراق پر حملے کیلئے امریکی مقدمہ چینی کو زیر نظر رکھے ہوئے تھے اچھی طرح یاد ہو گا کہ پنٹاگون نے ابتدا میں "میڈیا پروپیگیشن" کے عنوان سے ایک مخصوص شعبہ بنایا اور اسکے کیلئے اربوں ڈالر کا بجٹ مخصوص کیا تاکہ پنٹاگون پر ہونے والی تنقید کو دوسرا رخ دیا جا سکے۔
معن بشور نے تاکید کی کہ یہ شعبہ بنانے کا پہلا مقصد سیٹلائٹ چینلز، ریڈیو چینلز اور بعض میڈیا اور انٹیلی جنس رپورٹس خاص طور پر ایسے افراد کے ذریعے جو صحافی کے روپ میں عراق کی سرزمین میں داخل ہو چکے تھے، کے ذریعے عراق کے خلاف فوجی حملے کا زمینہ فراہم کرنا تھا۔ اسکا دوسرا مقصد عراق پر ہوائی، زمینی اور سمندری حملوں کے ساتھ ساتھ میڈیا وار کا آغاز کرنا تھا اور اس طرح سے اپنے فوجوں کی پیشروی میں مدد فراہم کرنا تھا۔
اکثر افراد نے دیکھا کہ کس طرح بغداد کے عملی طور پر سقوط سے قبل یہ مطلب میڈیا کے ذریعے منظر عام پر لایا گیا۔ یہ پروپیگنڈہ باعث بنا کہ شہر کا دفاع کرنے والی فورسز فوجی دفاعی مراکز اور خندقوں سے مزاحمتی مراکز میں منتقل ہو جائیں اور اس طرح اس پروپیگنڈے کے چند ہی گھنٹے بعد مزاحمتی تحریک نے اپنی موجودیت کو ظاہر کرتے ہوئے دنیا کی تیز ترین مزاحمتی تحریک کا لقب پایا۔
عرب سیاسی تجزیہ کار معن بشور نے لکھا کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وائٹ ہاوس کا حکمران طبقہ جو امریکہ کے صنعتی، فوجی، بینکنگ اور میڈیا اداروں کی نمائندگی کرتے ہیں میڈیا کی مدد حاصل کرنے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ البتہ میڈیا ایک بڑی انڈسٹری میں تبدیل ہو چکا ہے۔
معن بشور نے مزید لکھا کہ امریکی حکام چاہتے ہیں عوام صرف اس چیز کو حقیقت کے طور پر دیکھیں جو میڈیا کے ذریعے بیان کی جا رہی ہے جبکہ ایسی صورت میں جب میڈیا حقائق کو صحیح طور پر بیان نہ کر رہا ہو تو ایسی واقعیت موجود نہیں ہو گی۔ بعض ذرائع ابلاغ ضرورت پڑنے پر شیطان کو فرشتہ اور فرشتے کو شیطان بنا کر پیش کر دیتے ہیں اور بدترین انسانی جرائم کی ہزاروں توجیہات بیان کرتے ہیں۔
میڈیا پر شکست [جیسا کہ 2006 میں 33 روزہ جنگ میں لبنان کے مقابلے میں اسرائیل کی شکست] کا انکار کر دیا جاتا ہے اور اگر اسکے اعتراف پر مجبور ہو جائیں تو کوشش کی جاتی ہے کہ اسکے اثرات اور نتائج کو انتہائی محدود انداز میں بیان کیا جائے۔
عرب تجزیہ کار نے مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے میڈیا کے کوڈ آف کنڈکٹ کی دھجیاں اڑانے کا ایک واضح نمونہ پیش کرتے ہوئے لکھا کہ عراق سے امریکی فوجیوں کا انخلاء اسکی انتہائی واضح مثال ہے۔ انہوں نے لکھا کہ مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے اس خبر پر پراسرار خاموشی اپنائی گئی جبکہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ خبر تمام میڈیا معیاروں کے مطابق صدی کی اہم ترین خبر سمجھی جا سکتی ہے۔ اس واقعے کی جانب تھوڑی توجہ دینے سے مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے اس بارے میں پیش کردہ اخبار اور تجزیوں کا مضحکہ خیز ہونا انتہائی واضح ہو جاتا ہے۔
جناب معن بشور نے لکھا کہ ان واقعات کی اہمیت اپنی جگہ لیکن دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کا ایک مسلمان ملک کے مقابلے میں شکست کھا جانے جیسے واقعے سے کم اہمیت اخبار کو بہت زیادہ کوریج دی گئی۔ ایسا مسلمان ملک جسے اکیلا چھوڑ دیا گیا اور ذرائع ابلاغ کی جانب سے اس پر مذہبی فرقہ پرستی، قتل و غارت اور فتنہ گری جیسے جھوٹے الزامات بھی عائد کئے گئے اور اس طرح سے اس کو سیاسی ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے مزید تاکید کرتے ہوئے لکھا کہ ہم آج دیکھتے ہیں کہ وہ نیوز چینلز جو عراق میں جنگ کو کوریج دینے کے بہانے مسلمان عرب باشندوں کے گھروں میں داخل ہو جاتے تھے، آج عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلاء جیسے اہم واقعے پر خاموشی اختیار کر چکے ہیں اور اسے نظرانداز کر رہے ہیں۔ گویا انکا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں اور عراق کی سرزمین پر کوئی پاکیزہ خون نہیں بہایا گیا۔
معن بشور نے مزید لکھا کہ امریکی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس شکست کا اعتراف انکے ملک کیلئے انتہائی شدید دھچکہ ثابت ہو سکتا ہے اور ایسے افراد کے بیدار ہونے کا باعث بن سکتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی تسلط اور قبضہ ایک ناگزیر امر ہے۔ کیونکہ سب نے دیکھا کہ یہ قبضہ اپنے خاتمے کی جانب بڑھ رہا ہے اور مختلف ممالک میں امریکی اثر و رسوخ یکے بعد دیگرے ختم ہوتا جا رہا ہے۔
اس عرب سیاسی ماہر کا کہنا تھا کہ امریکی قابض فورسز کی شکست عرب اور مسلمان قوم کی جزئی کامیابی کی نوید دلاتی ہے لیکن حقیقی فتح اس وقت نصیب ہو گی جب عراقی عوام خود کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اپنے تجربات پر نظرثانی کرتے ہوئے ایک وسیع قومی مفاہمت کو حاصل کر پائیں گے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی میں انقلاب رونما ہونے کے بعد ڈکٹیٹرز یہ گمان کر رہے ہیں کہ وہ اس کمیونیکیشن کے اس عظیم دھماکے کی بدولت اپنے سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی مقاصد کے حصول کیلئے نہ صرف موجودہ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے قابل ہو گئے ہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر معمولی واقعات کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کر سکتے ہیں۔
آخر میں جناب معن بشور یہ سوال مطرح کرتے ہیں کہ ان تمام وضاحتوں کے مدنظر آیا عراق سے امریکہ کی عقب نشینی اور اسکے نتائج کو ذرائع ابلاغ پر کوریج دینے کی ضرورت نہیں؟
خبر کا کوڈ : 121163
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش