0
Tuesday 10 Jan 2012 20:51

وزیراعظم بادی النظر میں ایماندار شخص نہیں رہے، نااہل ہو سکتے ہیں، سپریم کورٹ

صدر، وزیراعظم این آر او فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کے مرتکب قرار
وزیراعظم بادی النظر میں ایماندار شخص نہیں رہے، نااہل ہو سکتے ہیں، سپریم کورٹ
اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ نے این آر او عملدرآمد کیس کا عبوری فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم بادی النظر میں ایماندار شخص نہیں رہے۔ کوئی شخص ایماندار نہ ہو تو پارلیمنٹ کا ممبر نہیں رہ سکتا۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے چیف جسٹس سے گزارش کی ہے کہ 16 جنوری کو کیس کی سماعت کیلئے فل بنچ تشکیل دیا جائے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے عملدرآمد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اٹارنی جنرل کو 6 آپشن پر مشتمل نوٹس جاری کر دیا گیا۔ 

پہلے آپشن کے مطابق چیف ایگزیکٹو اور وفاقی سیکرٹری کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ آرٹیکل 63 جی کے تحت وزیراعظم کو نااہل قرار دیدیا جائے۔ عوام فیصلہ کریں اور سپریم کورٹ خاموش رہے۔ حلف کی پاسداری نہ کرنے پر صدر کیخلاف بھی آئین کے آرٹیکل 63 جی کے تحت کارروائی کی جائے۔ عدالت ایک کمیشن قائم کر دے جو فیصلے پر عمل درآمد کرائے۔ چیئرمین نیب کیخلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی کی جائے۔ سپریم کورٹ نے 16 جنوری کو اٹارنی جنرل، سیکرٹری قانون اور چیئرمین نیب کو ذاتی طور پر طلب کر لیا۔ 

بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے حلف اٹھاتے ہوئے اللہ کا نام لیا لیکن اب وہ اپنی پارٹی کو اہمیت دے رہے ہیں۔ وہ قانون اور آئین کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں ناکام رہے۔ وزیراعظم نے اپنے حلف سے روگردانی کی ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ وزیراعظم بادی النظر میں ایماندار شخص نہیں رہے اور کوئی شخص ایماندار نہ ہو تو پارلیمنٹ کا ممبر نہیں رہ سکتا۔ سپریم کورٹ کا مزید کہنا ہے کہ وزیراعظم کی اہلیت کو پرکھنے کیلئے کمیشن بنا سکتے ہیں اور وزیراعظم نااہل بھی ہو سکتے ہیں۔

دیگر ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ نے صدر، وزیراعظم، سیکریٹری قانون اور چیئرمین نیب کو دانستہ این آر او فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کا مرتکب قرار دیتے ہوئے کارروائی کیلئے چھ آپشنز کے ساتھ معاملہ لارجر بنچ کو بھیج دیا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں لارجر بنچ سولہ جنوری کو سماعت کرے گا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے این آر او عملدرآمد کیس کی سماعت کے بعد نو صفحات پر مشتمل تحریری حکم جاری کر دیا۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ بادی النظر میں صدر، وزیراعظم، سیکریٹری قانون اور چیئرمین نیب دیدہ دلیری، ہٹ دھرمی اور دانستہ طور پر این آر او سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کے مرتکب قرار پائے ہیں۔ پانچ رکنی بنچ نے این آر او فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کا معاملہ لارجر بنچ کیلئے چیف جسٹس کو بھیجتے ہوئے متعلقہ افراد کیخلاف کارروائی کیلئے چھ آپشنز دیئے ہیں۔

پہلے آپشن میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے اپنے حلف کی پاسداری نہیں کی اور آئین کے بجائے سیاسی جماعت سے وفاداری نبھائی۔ لہٰذا وہ دیانتدار اور امین نہیں۔ اگر عدالت نے ان کے بارے میں یہ قرار دے دیا تو پھر وہ آئین کی رو سے رکن پارلیمنٹ نہیں رہ سکتے۔ اسی آپشن میں واضح کیا گیا ہے کہ سیاسی جماعت کے شریک چیئرمین نے صدر مملکت اور وزیر قانون نے عہدہ سنبھالتے وقت جو حلف اٹھایا تھا اس سے روگردانی کی، لہٰذا انہیں بھی ایسے نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
 
عدالت نے اپنے آپشن نمبر دو میں کہا ہے کہ عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے پر وزیراعظم، وزیر قانون اور سیکریٹری قانون کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ تاہم عدالت نے قرار دیا ہے کہ ایسی صورت میں بھی انہیں نااہلیت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 

آپشن تین میں عدالت نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے کمیشن قائم کرنے کا حکم دے۔ 

عدالت نے آپشن نمبر چار میں کہا ہے کہ چونکہ اس کیس میں کوئی بھی فریق سامنے نہیں آیا، لہٰذا اگر کوئی آئین کے آرٹیکل دو سو اڑتالیس کے تحت استثنٰی لینا چاہتا ہے تو عدالت سے رجوع کرے۔ 

عدالتی آپشن نمبر پانچ نیب کے چیئرمین سے متعلق ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین نیب نے عدالتی احکامات کے مطابق سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم، عدنان خواجہ اور احمد ریاض شیخ کیخلاف کارروائی کرنے سے نہ صرف اجتناب کیا بلکہ موجودہ بینچ کے سامنے پیش ہو کر مستقبل میں بھی کارروائی نہ کرنے کی بات کی۔ لہٰذا ان کیخلاف بھی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
 
آپشن نمبر چھ میں کہا گیا ہے کہ عدالت کسی بھی قسم کی کارروائی سے گریز کرتے ہوئے یہ معاملہ پاکستان کے عوام یا ان کے منتخب نمائندوں پر چھوڑ دے، تاکہ وہ یہ معاملہ خود حل کریں، کیونکہ عوام ہی آئین کے اصل محافظ ہیں۔ 

عدالت نے اپنے حکمنامے میں اٹارنی جنرل کو ہدایت کی ہے کہ وہ آئندہ سماعت پر اس حکم سے متاثر ہونے والوں کے موٴقف سے عدالت کو آگاہ کریں، ساتھ ہی ساتھ عدالت نے واضح کیا ہے کہ اگر مذکورہ بالا فیصلے سے متاثر ہونے والا کوئی بھی فریق عدالت کے سامنے پیش ہو کر اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہے تو اگلی سماعت پر عدالت میں آ سکتا ہے۔ ورنہ بعد میں یہ نہ کہا جائے کہ مجھے سنے بغیر فیصلہ دیا گیا۔ پانچ رکنی لارجر بینچ نے اٹارنی جنرل، چیئرمین نیب اور پراسیکورٹر جنرل نیب کو ذاتی طور پر پیش ہونے کی ہدایت دیتے ہوئے سماعت سولہ جنوری تک ملتوی کر دی۔
خبر کا کوڈ : 129258
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش