0
Saturday 11 Feb 2012 01:07

سپریم کورٹ نے اڈیالہ جیل کے لاپتہ قیدیوں کو پیر کے روز پیش کرنے کا حکم دے دیا

سپریم کورٹ نے اڈیالہ جیل کے لاپتہ قیدیوں کو پیر کے روز پیش کرنے کا حکم دے دیا
اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اڈیالہ جیل سے حساس اداروں کی تحویل میں دئیے گئے 11 افراد میں سے باقی زندہ بچنے والے 7 افراد کو 13فروری کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا کو ذاتی طور پر عدالت میں طلب کر لیا۔ عدالت نے گورنر خیبر پختونخوا بیرسٹر کوثر مسعود کو چیف سیکرٹری کے ذریعے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔ عدالت نے ڈی جی آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سربراہ کو ہدایت کی ہے کہ سات افراد کو تیرہ فروری کے دن عدالت کے رو برو پیش کیا جائے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے اڈیالہ جیل سے حساس اداروں کی تحویل میں دیئے گئے گیارہ افراد میں سے چار افراد کے قتل کے خلاف دائر مقدمہ کی سماعت شروع کی تو حساس اداروں کے وکیل راجہ ارشاد نے عدالت میں باقی بچ جانے والے سات افراد کی میڈیکل رپورٹس پیش کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ قیدی عدالت میں پیش کیے جانے کے قابل نہیں ہیں کیونکہ قیدی بیمار ہیں۔ انہوں نے بلند آواز میں بات کی تو عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلند آواز میں بات مت کریں ہم اس سے بلند آواز میں بات کر سکتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت نے ان افراد کو آج اس بینچ کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا تھا اس پر عمل کیوں نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ان قیدیوں کو آج (جمعہ) ہی عدالت میں پیش کیا جائے جب ملک کا وزیر اعظم عدالت آ سکتا ہے تو پھر ہر کوئی عدالت آ سکتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم بیٹھے ہیں قیدیوں کو ہیلی کاپٹر میں بھی لانا پڑے تو لایا جائے ہم دو بجے، تین بجے حتیٰ کہ سات بجے تک بیٹھے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر گھر بھی چلے گئے تو واپس آ جائیں گے۔ عدالت نے بار بار استفسار کیا کہ بتایا جائے کونسی اتھارٹی ہے جو ہمارے احکامات نہیں ماننا چاہتی یا کون قیدیوں کو یہاں لانے میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔

دوران سماعت طارق اسد ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے عدالتی حکم نہ ماننے پر مقدمہ میں فریق ڈی جی آئی ایس آئی ،ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ اور وزارت دفاع کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی ہے تاہم عدالت نے اس حوالے سے کوئی حکم جاری نہیں کیا اور قیدیوں کو پیش کرنے کا حکم جاری کر دیا بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے طارق اسد ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالت نے جو آرڈر دیا ہے اس نے ثابت کر دیا ہے کہ عدلیہ آزاد ہے اور قانون کی حکمرانی کو نافذ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے کہا ہے کہ ان افراد کو کیوں پیش نہیں کیا جا رہا، عدالت کو اس شخص کا نام بتایا جائے جو رکاوٹ ڈال رہا ہے۔

بعد ازاں خفیہ اداروں کے وکیل راجہ ارشاد نے میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے عدالتی معاون کو آگاہ کیا ہے کہ ان افراد کو آج سپریم کورٹ میں پیش کرنا ممکن نہیں تاہم عدالت جہاں کہے گی ان افراد کو پیش کر دیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ چار قیدی لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور اور تین قیدی پارا چنار تفتیشی مرکز میں ہیں اور پاراچنار کا موسم خراب ہے اس لیے ہیلی کاپٹر پر ان کو لانا ناممکن ہے اور انہیں براستہ روڈ لایا جا رہا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ ابھی یہ نہیں بتا سکتے کہ قیدیوں کو کب عدالت لایا جائے گا۔ شام کے وقت مقدمہ کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ قیدیوں کو ابھی تک عدالت میں پیش نہیں کیا گیا اس لئے سیکرٹری دفاع کو بلائیں اور وہ تحریری طور پر عدالت کو بتائیں کہ لاپتہ افراد کہاں ہیں؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بریگیڈیئر زاہد کون ہے؟ جس پر وزارت دفاع کے نمائندے کمانڈر شہباز نے عدالت کو بتایا کہ بریگیڈیئر زاہد آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب کہ لاپتہ افراد آئی ایس آئی کی حراست میں ہیں۔

سماعت کے دوران وزارت دفاع کی طرف سے ڈائریکٹر لیگل بھی پیش ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تیس جنوری کو عدالت نے حکم دیا تھا کہ ان افراد کو عدالت میں پیش کیا جائے اس کا آج تک انتظار کیوں کیا گیا۔ عدالت نے اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخواہ کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ قیدیوں کو آج پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا جس کی تعمیل نہیں کی گئی اس موقع پر اٹارنی جنرل نے خفیہ ایجنسیوں کے وکیل راجہ ارشاد کی اطلاع پر عدالت کو بتایا کہ پارا چنار میں موجود قیدیوں کو لایا جا رہا ہے اور پشاور سے بھی 4 قیدیوں کو ان کے ساتھ ہی اسلام آباد لایا جا رہا ہے جس پر عدالت نے اپنا تحریری حکم جاری کرتے ہوئے قرار دیا کہ جمعہ کی نماز سے قبل راجہ ارشاد نے رپورٹ پیش کی تھی جس کو قبول نہیں کیا گیا اور عدالت نے واضح ہدایت کی تھی کہ ان لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کیا جائے جو نہیں کیا گیا۔

عدالت نے قرار دیا کہ معاملے کی اہمیت کے باعث سماعت پانچ بجے تک جاری رکھی گئی اور ہدایت کی گئی کہ قیدیوں کو آج ہی پیش کیا جائے باوجود اس کے صرف جواب جمع کرایا گیا اور عدالت کے حکم پر عمل نہیں کیا گیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ مقدمے میں فریق بنائے گئے ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی ایم آئی سمیت دیگر کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ عدالت کے حکم پر عمل کرتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا عدالت نے کہا کہ پارا چنار سنٹر گورنر کے دائرہ اختیار میں ہے اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال بھی سول انتظامیہ کے ماتحت ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا کہ راجہ ارشاد نے گزشتہ سماعتوں کے دوران بتایا تھا کہ ان گیارہ افراد کو آرمی ایکٹ کے تحت اڈیالہ جیل راولپنڈی سے حراست میں لیا گیا اور اب یہ بتایا گیا ہے کہ ان میں سے چار افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔

عدالت نے قرار دیا تھا کہ بیان درست مان لیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ یہ قیدی سول تحویل میں ہیں اور درخواست گزار کے مطابق مرنے والوں کی لاشیں ہسپتال کے باہر چھوڑ دی گئیں۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کی طرف سے راجہ ارشاد کی طرف سے دئیے گئے بیان کو بھی اپنے آرڈر کا حصہ بناتے ہوئے مقدمے کے فریقین کو حکم دیا کہ ان سات افراد کو تیرہ فروری کے دن عدالت کے رو برو پیش کیا جائے۔ عدالت نے حکم دیا کہ گورنر خیبر پختونخوا سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو قیدیوں کی حالت زار کے بارے میں آگاہ کریں گے۔ سماعت کے دوران جیگ برانچ کے افسران بھی عدالت میں موجود تھے جبکہ جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کے سامنے سچ بولنے سے گریز کیوں کیا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ جاں بحق ہونے والے چار افر اد میں سے ایک شخص عبدالصبور کی والدہ رافعہ نے سپریم کورٹ میں ایڈووکیٹ طارق اسد کے ذریعے درخواست دائر کر رکھی ہے اور گزشتہ سماعت پر حساس اداروں کے وکیل راجہ ارشاد نے عدالت کو بتایا تھا کہ خفیہ اداروں نے ان قیدیوں کو خیبر پختونخوا حکومت کے حوالے کر دیا تھا اور مرنے والے افراد بیمار تھے اس لیے جاں بحق ہوئے ہیں تاہم عدالت نے ان کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے ان افراد کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
خبر کا کوڈ : 136850
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش