0
Thursday 12 Apr 2012 22:43

پارلیمنٹ نے غیر فوجی نیٹو سپلائی کی اجازت دیدی، 14 نکاتی سفارشات متفقہ منظور

پارلیمنٹ نے غیر فوجی نیٹو سپلائی کی اجازت دیدی، 14 نکاتی سفارشات متفقہ منظور
اسلام ٹائمز۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں نیٹو سپلائی کی بحالی، امریکا کے ساتھ آئندہ تعلقات اور نئی خارجہ پالیسی کیلئے قومی سلامتی کمیٹی کی 14نکاتی سفارشات کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا ہے، سفارشات میں امریکا سے سلالہ واقعہ پر معافی مانگنے، ڈرون حملے بند اور غیر فوجی نیٹو سپلائی کی اجازت دیدی گئی اور کہا گیا ہے کہ امریکی فوجیوں، نجی سکیورٹی کنٹریکٹرز اور ایجنٹس کی موجودگی برداشت نہیں کی جائیگی اور نہ ہی پاکستان کی سرزمین غیر ملکی اڈوں کے قیام کیلئے فراہم کی جائیگی، قومی سلامتی سے متعلق زبانی معاہدہ نہیں کیا جائے اور تمام غیر تحریری معاہدے فوری ختم کر دیئے جائیں۔
 
سفارشات کی تحریک پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر رضا ربانی نے پیش کی، اسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے اجلاس کی صدارت کی۔ سفارشات کی منظوری کے بعد پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ سفارشات پر مکمل عملدرآمد کیا جائیگا، امریکا کی طاقت سے آگاہ ہیں، لیکن ہماری خودمختاری کا احترام سب پر لازم ہے، جبکہ متحدہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ نئے پارلیمانی فیصلوں کے بعد پاکستان کو عالمی اتحاد سے الگ تصور کیا جائے، وزیراعظم کیا گارنٹی دیتے ہیں کہ ان سفارشات کا حشر پہلے جیسی قراردادوں جیسا نہیں ہو گا۔ 

جمعرات کو قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین رضا ربانی کی جانب سے پارلیمنٹ میں پیش کی گئی نظرثانی شدہ سفارشات میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا، زبانی باتوں اور حقائق کے درمیان خلیج اور خلاء کو موثر اقدامات کے ذریعے پرُ کرنیکی ضرورت ہے، حکومت کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ایک آزاد خارجہ پالیسی کے اصول پالیسی کے ان اصولوں کے مطابق ہونے چاہئیں جن کا آئین پاکستان کے آرٹیکل 40، اقوام متحدہ کے چارٹر میں ذکر کیا گیا ہے اور عالمی قوانین کے تحت ہوں۔ 

پاکستان میں امریکا کی موجودگی پر نظرثانی ہونی چاہیے، جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی سرحدوں کے اندر ڈرون حملے فوری بند ہونے چاہئیں، اہم ہدف کے تعاقب سمیت کسی بھی بہانے پاکستان کی علاقائی حدود کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے، پاکستان کے زمینی اور فضائی راستے افغانستان میں اسلحہ اور دیگر گولہ بارود لے جانے کیلئے استعمال نہیں ہونے چاہئیں۔ 

سفارشات کے مطابق پاکستان کے جوہری پروگرام اور اثاثوں بشمول ان کے تحفظ و سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، امریکا اور بھارت کے سول جوہری معاہدے نے خطے میں اسٹرٹیجک توازن کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا ہے، اس لئے پاکستان امریکا یا دیگر ممالک سے ایسا ہی معاہدے کرے، ایف ایم سی ٹی کے معاملے پر بھارت کے حوالے سے پاکستان کے اسٹرٹیجک موقف پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے اور اس معاملے پر مذاکرات میں اس اصول کو مدنظر رکھا جائے۔ 

سفارشات میں کہا گیا کہ 24 پاکستانی فوجی جوانوں کی شہادت کا باعث بننے والا نیٹو/ایساف کا قابل مذمت اور بلااشتعال حملہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی کھلی خلاف ورزی ہے، حکومت پاکستان دیگر اقدامات لینے کے علاوہ امریکا سے مہمند ایجنسی کے واقعہ پر غیر مشروط معافی طلب کرے، مہمند ایجنسی حملے کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے اور یقین دہانیاں کرائی جائیں کہ ایسے حملے یا پاکستان کی خودمختاری کو پامال کرنیوالی کوئی اور کارروائی نہیں دہرائی جائیگی، وزارت دفاع و پاک فضائیہ کو سرحد سے متصل علاقوں کیلئے نئے ”فلائنگ رولز“ مرتب کرنے چاہئیں۔
 
حکومت پاکستان، اس کی وزارتیں، ڈویژنز، ڈیپارٹمنٹ و متعلقہ محکمے، خود مختارادارے یا تنظیمیں قومی سلامتی کے حوالے سے کسی غیر ملکی حکومت یا اتھارٹی کے ساتھ کوئی زبانی معاہدے نہیں کرینگی، پہلے سے موجود ایسے تمام معاہدے یاداشتیں آئندہ قابل عمل نہیں ہونگے۔ 

سفارشات میں کہا گیا کہ قومی سلامتی کے معاملات سے متعلق مذاکرات، معاہدوں یا مفاہمتی یاداشتوں پر دوبارہ بات چیت میں یہ اصول اپنائے جائینگے کہ تمام معاہدے اور مفاہمت کی یادداشتیں خواہ وہ فوجی تعاون یا لاجسٹکس سے متعلق ہوں، خارجہ پالیسی کے مطابق ہوں اور تمام متعلقہ وزارتوں، ملحقہ تنظیموں یا ڈیپارٹمنٹس کا نقطہ نظر لیا جائیگا۔ یہ کہ وزارت قانون و انصاف اور پارلیمانی امور تمام معاہدوں اور مفاہمت کی یاد داشتوں کی جانچ پڑتال کریگی، تمام معاہدے اور مفاہمت کی یادداشتیں کی قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی میں زیرغور آئیں گی، کمیٹی جائزہ لے گی اور شراکت داروں کی مشاورت سے سفارشات تیار کریگی، جنہیں وفاقی حکومت کے رولز آف بزنس کے تحت منظوری کیلئے وفاقی کابینہ کو ارسال کیا جائیگا۔ معاہدوں اور مفاہمتی یاد داشتوں پر متعلقہ وزیر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پالیسی بیان دیگا۔
 
پارلیمنٹ نے نظرثانی شدہ سفارشات کی متفقہ منظوری دے دی، جس کے بعد اجلاس غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ پارلیمنٹ کا حالیہ مشترکہ اجلاس ملکی پارلیمانی تاریخ میں سے زیادہ عرصہ تک جاری رہا۔
 
بعدازاں وزیراعظم نے کہا کہ یہ سفارشات حکومت کیلئے رہنما اصول ہونگے، اس پارلیمنٹ نے تاریخ بنائی ہے اور ثابت کیا ہے کہ جب بھی قومی مفاد کا معاملہ آیا ہے تو ہم سب ایک ہیں، پارلیمنٹ نے ہر مشکل وقت میں قوم کے مفاد میں پیچیدہ ترین فیصلے کئے۔ انہوں نے قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات اتفاق رائے سے منظور کئے جانے پر تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین، اراکین پارلیمنٹ، اسپیکر اور کمیٹی کے اراکین کو مبارکباد دی۔ وزیراعظم نے کہا کہ قائد حزب اختلاف نے سفارشات پر عملدرآمد کی گارنٹی کے حوالے سے نکتہ اٹھایا ہے تو آج میں وزیراعظم ہوں تو کل کوئی اور ہو گا، اگر ہم اکٹھے ہوں گے تو سب ہمارا احترام کرینگے، جو قومیں متحد ہو کر کھڑی ہوں ان کی سب عزت و احترام کرتے ہیں۔ 

قبل ازیں اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ قرارداد کو اس وقت تک تاریخی نہ کہا جائے جب تک اس پر من و عن عملدرآمد نہیں ہو جاتا، وزیراعظم اس کی کیا گارنٹی دیتے ہیں کہ ان سفارشات کا حشر پہلے جیسی قراردادوں جیسا نہیں ہو گا، حکومت ایوان میں واضح کرے کہ اگر دوبارہ ڈرون اور چیک پوسٹ پر حملہ ہوا یا بھارت کی طرح سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی میں پیش رفت نہ ہوئی اور امن مذاکرات میں شامل نہ کیا گیا تو حکومت کا کیا ردعمل ہو گا، اگر امریکہ اپنے لوگوں کا خیال رکھ سکتا ہے تو ہمیں بھی پورا حق حاصل ہے کہ اپنے عوام کا تحفظ کریں۔ نکتہ اعتراض پر جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پارلیمنٹ سے سفارشات کی منظوری کے بعد حکومت کسی بھی ملک سے پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر معاملات طے نہیں کر سکے گی، ماضی کا قصہ ختم ہو چکا، نئے سفر کا آغاز کر رہے ہیں، آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل کیلئے یہ پہلا قدم ہے، اگر پارلیمانی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی تو مخالفت کرینگے۔
خبر کا کوڈ : 152768
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش