0
Monday 23 Nov 2009 10:10

کشمیر کی سرحد کا دوبارہ تعین نہیں ہو سکتا،منموہن،کسی کو یکطرفہ فیصلے کا حق نہیں،پاکستان

کشمیر کی سرحد کا دوبارہ تعین نہیں ہو سکتا،منموہن،کسی کو یکطرفہ فیصلے کا حق نہیں،پاکستان
 واشنگٹن:بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ آزادانہ تجارت اور دیگر امور پر بات ہو سکتی ہے مگر ہم کشمیر کی سرحد کا دوبارہ تعین نہیں کر سکتے،کشمیر کی سرحد کا جو تعین ہو چکا ہے وہی کافی ہے،اب نئے سرے سے اسکی بنیاد ڈالی جا سکتی ہے نہ ہی اس کے لئے مذاکرات کو تیار ہیں۔امریکی ٹی وی سے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امریکی مقاصد پورے نہیں کر رہا کیونکہ پاکستان سمجھتا ہے کہ امریکہ بہت جلد افغانستان سے نکل جائے گا۔ منموہن سنگھ نے الزام عائد کیا کہ پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ فوج ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت روز روز سرحدیں تبدیل نہیں کر سکتے،لیکن پڑوسیوں کے ساتھ اچھی طرح رہا جا سکتا ہے۔ ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی پاکستان میں ہوئی تھی۔حافظ سعید پاکستان میں آزادی سے گھوم رہے ہیں،ممبئی حملوں کی تحقیقات پر پاکستان نے بہت کم کام کیا،ملزموں کے خلاف پاکستانی اقدامات ناکافی ہیں۔نیوز ویک سے انٹرویو میں منموہن سنگھ نے کہا کہ پاکستان کو دہشت گردی کی حمایت سے روکنے کے لئے امریکہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔انہوں نے کہا کہ بھارت ہمیشہ پاکستان میں دہشت گردی سے متاثر رہا ہے۔اگر القاعدہ قبائلی علاقوں سے نکل کر پاکستان کے شہروں میں آ گئی تو اس سے بھارت کی سلامتی پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان میں جمہوریت کے حامی ہیں تاہم کمزور حکومت کے باعث کئی علاقوں پر القاعدہ کی گرفت مضبوط ہے۔ افغانستان میں پاکستان اور امریکہ کے الگ الگ مفادات ہیں،پاکستان کابل کو خود کنٹرول کر کے امریکہ کو نکالنا چاہتا ہے۔ہم اس بات کے حامی ہیں کہ عالمی فوج کو طویل عرصے تک افغانستان میں موجود رہنا چاہئے۔پاکستان کو بھارت سے خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں،دونوں ملکوں کی قسمت ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔قبائلی علاقوں میں رہنے والے دہشت گرد پاکستان کے دوسرے حصوں میں منتقل ہو چکے ہیں،بھارت نہیں چاہتا کہ دہشت گرد پاکستان کی جمہوری حکومت کے لئے خطرہ بنیں،افغانستان میں امریکہ اور بھارت کے مقاصد الگ الگ ہیں۔بھارت دہشت گردوں کے ہاتھوں پاکستان کی سول حکومت کمزور کرنے کی خواہش نہیں رکھتا۔امریکہ جلد بازی میں افغانستان سے نکلا تو القاعدہ کی دوبارہ گرفت مضبوط ہو گی جس سے خانہ جنگی شروع ہونے کے امکانات ہیں۔1980ء کی دہائی میں سوویت یونین کیخلاف مذہبی بنیاد پرستی کا عنصر استعمال کیا گیا اور اب بھی مذہبی بنیاد پرستی کو استعمال کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں،تا کہ امریکہ کو نکالا جا سکے۔پاکستان افغانستان میں کنٹرول کیلئے امریکی افواج کا انخلاء چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت ہمیشہ پاکستان میں دہشت گردی سے متاثر رہا ہے۔ القاعدہ قبائلی علاقوں سے نکل کر پاکستان کے شہروں میں آ گئی تو اس سے بھارت کی سکیورٹی پر بھی سنگین اثرات مرتب ہونگے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت کے حامی ہیں تاہم کمزور حکومت کے باعث القاعدہ کی گرفت مضبوط ہو رہی ہے۔ 21ویں صدی کے مجاہدین کا مقابلہ کرنے کے لئے پائیدار اور فعال بھارت امریکہ شراکت ضروری ہے۔ صدر اوباما کے دور حکومت میں اپنے پہلے دورہ امریکہ کے دوران واشنگٹن پوسٹ سے انٹرویو میں منموہن نے کہا کہ پاکستان اپنی سرزمین دہشت گردی کی سرگرمیوں کے لئے استعمال نہ کرنے کا یقین دلائے،تو ہم مذاکرات بحال کرنا چاہتے ہیں۔ 21ویں صدی کے جنگجوﺅں کا مقابلہ کرنے کیلئے پائیدار اور فعال بھارت امریکہ شراکت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی،پاکستان کو بتا دیا ہے کہ آئندہ ایسے واقعات ہوئے تو اس کا بھرپور جواب دیا جائیگا،ہمسایہ ملک کو چاہئے کہ وہ ایسے اقدامات کو روکے۔
اسلام آباد:ترجمان دفتر خارجہ عبدالباسط نے منموہن سنگھ کے کابل پر پاکستان کے قبضہ کے بیان کو سمجھ سے بالاتر قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم افغانستان میں امن چاہتے ہیں اور کشمیر پر کسی فریق کو یکطرفہ فیصلے کا حق نہیں ہے۔ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کشمیر پر کسی فریق کو حق نہیں کہ وہ یکطرفہ فیصلہ کرے۔منموہن سنگھ کا کابل پر پاکستان کے قبضہ کا بیان سمجھ سے بالاتر ہے افغانستان میں امن پاکستان کے مفاد میں ہے کابل حکومت سے دیرینہ تعلقات ہیں ہم وہاں امن چاہتے ہیں افغانستان میں امریکہ کی پالیسی کا فیصلہ سامنے نہیں آیا مسئلہ کشمیر کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل طلب ہے منموہن سنگھ کا بیان عجیب ہے۔
خبر کا کوڈ : 15580
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش