0
Thursday 2 Aug 2012 22:40

اظہار رائے بنیادی حق ہے مگر توہین عدالت کی کسی کو چھوٹ نہیں دی جا سکتی، چیف جسٹس

اظہار رائے بنیادی حق ہے مگر توہین عدالت کی کسی کو چھوٹ نہیں دی جا سکتی، چیف جسٹس
اسلام ٹائمز۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ کے روبرو دلائل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل عرفان قادر نے چار ججز کو جانبدار قرار دیا جس پر بنچ نے ججوں پر اعتراضات تحریری طور پر جمع کروانے کیلئے کہا لیکن اٹارنی جنرل نے تحریری اعتراضات دینے کے بجائے مؤقف اختیار کیا کہ وہ ناگوار ماحول اور غلط فہمیوں سے بچنے کے لئے اپنے اعتراضات سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ ججوں نے ریمارکس دیئے کہ بنچ پر اعتراض کو اٹارنی جنرل نے عادت بنا لیا ہے۔ وہ عدلیہ اور اپنے منصب کو مذاق نہ بنائیں۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ بار کونسلز نے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کرکے قانون اور اپنے اختیارات سے تجاوز کیا انہیں قانون پر تجاویز پارلیمنٹ کو دینی چاہیئے تھی۔ جس پر جسٹس خواجہ نے کہا کہ توہین عدالت قانون دو دن میں منظور ہو گیا تجاویز کیسے دی جا سکتی تھیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ این آر او عمل درآمد بنچ نے یوسف رضا گیلانی کو آئین کی خلاف ورزی اور استثنٰی کو نظر انداز کرنے کیلئے مجبور کیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سماعت کے دوران بار بار استفسار پر کسی نے استثنٰی کی بات کی ہی نہیں لٰہذا یہ دلیل قابل قبول نہیں۔ اٹارنی جنرل کا مؤقف تھا کہ توہین عدالت ایکٹ 2012ء ایسے وقت میں منظور کیا گیا جب ملک میں توہین عدالت کا کوئی قانون نہیں تھا تو چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے پہلے 2003ء کا قانون رائج تھا جسے سترھویں ترمیم کے ذریعے آئین میں تحفظ دیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بطور اٹارنی جنرل آپ غیر جانبدار پچ پر ہیں لیکن آپ فریق بن گئے ہیں۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو جمعہ کے روز دلائل سمیٹنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

خبر کا کوڈ : 184447
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش