0
Monday 13 Aug 2012 07:57

خدا شہداء کا خون رائیگان نہیں جانے دیتا اور انکی آرزوں کو برآوردہ کرتا ہے، علامہ ناصر عباس جعفری

خدا شہداء کا خون رائیگان نہیں جانے دیتا اور انکی آرزوں کو برآوردہ کرتا ہے، علامہ ناصر عباس جعفری
اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے مقدس شہر قم میں شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) کی یاد میں ایم ڈبلیو ایم قم کی جانب سے عظیم الشان سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔ سیمینار سے حجت الاسلام و المسلمین سید شفقت شیرازی سیکرٹری امور خارجہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان اور مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے خطاب کیا۔ سیمنار میں علماء کرام اور حوزہ علمیہ قم میں موجود دینی طلاب کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ پروگرام کے آغاز میں یکم جولائی قرآن و سنت کانفرنس کے حوالے سے ایک ویڈیو کلپ کی نمائش کی گئی۔ مجلس وحدت مسلمین قم نے پروگرام کے اختتام پر دینی طلاب کے اعزاز میں افطار ڈنر کا اہتمام بھی کیا ہوا تھا۔
 
شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) کی چوبیسویں برسی کی مناسبت سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ تاریخ گذرنے کے ساتھ ساتھ مذاہب اور مکاتیب فکر میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں، جہاں دوسرے ادیان اور مذاہب میں تبدیلیاں آئی ہیں، وہیں شیعہ مسلمانوں میں بھی تاریخ گذرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلی آتی رہی۔ ہم مذہب تشیع کی تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ کہیں زیدیہ فرقہ قائم ہوا اور کہیں واقفیہ فرقہ وجود آیا۔
 
اسی طرح غیبت کبری کے بعد شیعہ اثنا عشریوں کے درمیان بھی بعض ایسے افراد نے جنم لیا کہ جنہوں نے علماء کرام اور فقہاء کے دامن کو چھوڑ دیا اور ان کی اس جدائی نے انہیں اخلاقی برائیوں اور بے راہ روی کی جانب گامزن کر دیا اور وہ علماء کرام، فقہا اور تقلید سے دوری کی وجہ سے قرآن اور تعلیمات محمد و آل محمد (ع) سے بھی دور ہوگئے اور یہ بات ان کی فکری بے راہ روی کا سبب بنی۔ 

علامہ ناصر عباس جعفری نے مزید کہا کہ ایک اور اہم انحراف جو شیعہ اثنا عشری مسلمانوں کے درمیان وجود میں آیا وہ سیاست اور دین کی جدائی کا نظریہ تھا، یعنی ولایت سے دوری۔ آپ نے کہا شیعہ اثنا عشری نے کبھی بھی سقیفہ کو قبول نہیں کیا، گویا ہم دین کو سیاست سے جدا نہیں کرسکتے، ہم اس بات کے قائل نہیں ہوسکتے کہ سیاسی لیڈر تو اہل بیت (ع) کے علاوہ کوئی اور ہوں اور دینی رہبروں کی جگہ ہم اہل بیت (ع) کو قبول کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے دینی اور سیاسی دونوں میدانوں میں رہنما اہل بیت (ع) اور آئمہ اطہار (ع) ہی ہیں۔
 
ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ اگر سیاست کو دین سے جدا سمجھا جائے تو بقول اقبال یہ چنگیزیت ہوتی ہے اور یہی سیکولر فکر بعد میں یزیدیت کی پیدائش کا سبب بنتی ہے۔ آپ نے کہا یہ غلط فکر حوزات علمیہ میں بھی رواج پاگئی اور اسی کے سبب ہم حوزات میں صرف توضیح المسائل کے وجود کو دیکھتے ہیں، جو فردی مسائل کا حل ہے، لیکن دوسرے انسانی علوم اور معاشروں کے مسائل کے بارے میں علوم کو نہیں پاتے۔ آج ہم دینی فکر کو علماء کرام سے لیتے ہیں، لیکن اقتصادی، اجتماعی اور معاشرتی فکروں کو آکسفورڈ اور کیمبرج سے حاصل کرتے ہیں کہ جو دین اور سیاست میں جدائی کا شاخسانہ ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ یہی سوچ باعث بنی کہ آج معاشروں پر لبرل ڈیموکریٹک نظام رائج ہے، یعنی عوام کی عوام پر حکومت۔ جبکہ ہمارا دینی اور اسلامی نظریہ خدا کی عوام پر حکومت ہے۔ اس نظریہ کہ وجہ سے ملت تشیع کے جوان بھی اصل ہدف سے پیچھے رہ گئے۔ آج معاشروں میں عزاداری تو موجود ہے، لیکن یزیدیت کا تعاقب موجود نہیں ہے۔ اس نظریہ کے باعث اور غدیر سے دوری نے ہمیں امریکی اور یورپی نظاموں کا گرویدہ کر دیا۔ ہما را نعرہ ''اشھد ان علیا ولی اللہ'' ہے، لیکن عملی طور پر ہم امریکہ اور یورپ کو اپنا سرپرست مانتے ہیں۔
 
علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ اب یہاں مصلحین کا کردار آتا ہے، سب سے پہلی مصلح جناب سیدہ زہرا (س) کی ذات ہے، آپ نے انحراف کے خاتمے اور معاشرے میں اصلاح کی کوشش کی اور اس راہ میں اپنی جان بھی فدا کر دی۔ علامہ جعفری کا کہنا تھا کہ ہمارے بارہ آئمہ میں سے گیارہ شہید ہیں اور انہوں نے معاشرے میں اصلاح کا کام انجام دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کے زمانے میں اس انحراف کا مقابلہ امام خمینی (رہ) نے انجام دیا اور معاشرے میں اصلاح کا کام کیا۔ آپ نے سیاست اور دیانت کی جدائی کے نظریہ پر خط بطلان کھینچا اور ولایت کے فقیہ کے نظریہ کو متعارف کروایا۔ 

مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی جنرل سیکرٹری کا کہنا تھا کہ ہم اپنے اہل سنت بھائیوں کی طرح یہ نظریہ قبول نہیں کرسکتے کہ غیبت کبریٰ میں آئمہ ہمیں کوئی نظام نہیں دے کر گئے اور اپنے جانشین کے بارے میں ہمیں کوئی حکم نہیں دیا۔ لوگوں نے غیبت کبریٰ میں بھٹو، نوازشریف اور شاہ جیسے حکمرانوں کو اپنا سیاسی پیشوا تسلیم کر لیا۔ نظام خلافت میں رہنے کے نتیجے میں امام علی علیہ السلام کے سامنے صفین میں اور امام حسین علیہ السلام کے سامنے کربلا میں تلواریں نکالی گئیں۔ پاکستان کی سرزمین پر اس نظریہ کی ترویج کرنے والی شخصیت کا نام شہید علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ جو لوگ شہید باقر الصدر اور شہید بہشتی کے قاتل تھے، شہید علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) کے بھی وہی قاتل تھے۔ شہید علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) قوم کو کہا کرتے تھے کہ اپنے سیاسی کردار کو ادا کریں، دشمنوں نے آپ کو ہٹانے کیلئے اندرونی رکاوٹیں بھی کھڑی کیں، 80 کیلومیٹر پیدل چل کر امام علی علیہ السلام کی زیارت کیلئے جانے والے شخص یعنی علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) کو مقصر کہا گیا، لیکن جب آپ نے تمام رکاوٹیں کو عبور کر لیں تو آپ کو شہید کر دیا گیا۔
 
ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری جنرل کا مزید کہنا تھا کہ خدا شہیدوں کا خون رائیگان نہیں جانے دیتا اور ان کی آرزوں کو برآوردہ کرتا ہے۔ آج مجلس وحدت مسلمین پاکستان شہداء کی وارث ہے۔ شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی خواہش تھی کہ ملت میں اتحاد و اتفاق ہو، ماتمی اور تنظیمی ایک جگہ جمع ہوں اور ہم نے شہید کی اس خواہش کو شہید کی یاد میں اور ان کی قرآن و سنت کانفرنس کی یاد میں جولائی کے مہینے میں مینار پاکستان پر قرآن و سنت کانفرنس کو منعقد کیا اور ملی وحدت کا ثبوت دیا اور شہید کی اس آرزو کو پورا کیا۔  انکا مزید کہنا تھا کہ ہمیں بصیرت کے ساتھ آگے چلنا ہے، صبر کے دامن کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا، ہم نے آپس میں نہیں الجھنا۔ انہوں نے کہا ہم کسی بھی شیعہ سے نہیں لڑنا چاہتے اور کوشش کریں گے کہ حتی کسی بھی داخلی مسئلہ کا گلہ بھی نہ کریں۔
 
علامہ ناصر عباس جعفری نے ملکی حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ  کچھ عرصے بعد الیکشن آ رہے ہیں، ہم ان الیکشن میں بھرپور کردار ادا کریں گے۔ اس سلسلے میں قم کے علماء کرام ہماری مدد کریں۔ ہم نے جنگی بنیادوں پر قوم میں کام کرنا ہے۔ ہم نے قوم کو ووٹ کی طاقت کی اہمیت بتانی ہے، ہم اس ووٹ کے ذریعے نظام کو بھی تبدیل کرسکتے ہیں۔ ہم ملت تشیع کے کروڑوں جوانوں کو پیغام دیتے ہیں کہ وہ اپنے کردار کو ادا کرنے کیلئے تیار ہو جائیں۔
خبر کا کوڈ : 187048
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش