0
Tuesday 16 Oct 2012 00:32

بلوچستان بدامنی کیس پر عبوری حکم نامہ

بلوچستان بدامنی کیس پر عبوری حکم نامہ

بلوچستان کی خراب صورتحال سے متعلق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری گزشتہ چند مہینوں سے کیس کی سماعت کر رہے تھے۔ اور بالآخر سپریم کورٹ نے بلوچستان کیس سے متعلق عبوری حکم نامہ جاری کردیا ہے۔ عبوری حکم نامے میں صوبائی حکومت کی کارکردگی کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے جبکہ خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت بھی جاری ہے۔

عبوری حکم نامہ کے مطابق وفاقی حکومت نے اس معاملے میں خاموش تماشائی کا کردار اپنائے رکھا تھا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے لاپتہ افراد کے معاملے میں خفیہ ایجنسیوں سمیت ایف سی کی مداخلت کا بھی اشارہ دیا ہے۔ بلوچستان بدامنی کیس میں بلاشبہ کافی پیش رفت ہوئی، جس میں‌ اختر مینگل کا خود چیف جسٹس کے پاس آنا اور اپنے تحفظات سے عدلیہ کو آگاہ کرنا سرفہرست ہے۔ یہ کام نہ تو موجودہ صوبائی یا وفاقی حکومت کرسکی اورنہ ہی باقی ریاستی ادارے۔ شاید اسی لئے عبوری حکم نامے میں صوبائی حکومت کو نااہل قرار دیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ نے ایک حد تک تو اپنی ذمہ داریاں‌ مکمل کرلیں لیکن اب حکومت کو عدلیہ کے حکم نامے پر چلتے ہوئے عملی اقدامات اٹھانے ہونگے۔ بلاشبہ اگر حکومت آئین کی حدود میں رہتے ہوئے کام کرتی ہے تو افواج پاکستان بھی اس کی حمایت کریگی۔ جیسا کہ چیف آف آرمی اسٹاف نے پہلے سے مسئلہ بلوچستان پر گرین سیگنل دے دیا ہے۔ اس موقع پر مسلم لیگ ن نے بھی قومی اسمبلی میں مسئلہ بلوچستان کے متعلق قرار داد پیش کی ہے، جس میں تمام بلوچ قوم پرست رہنماؤں کو مذاکرات کی ٹیبل پر بلانے پر زور دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان تو پہلے سے کہہ چکے ہیں کہ عدالت اعظمیٰ ملکی آئین کے مطابق فیصلے کرتی چلی آئی ہے اگر آئین پر عملدرآمد سے گریز کا سلسلہ جاری رہا تو عدالت اعظمیٰ ایسا حکم بھی جاری کرسکتی ہے جس سے بلوچستان حکومت کیساتھ ساتھ دوسری حکومت بھی جاسکتی ہے۔

اس پس منظرمیں مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین کی طرف سے ایک دوسرے کیخلاف الزام تراشی کی بجائے اصلاح و احوال کیلئے ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ جبکہ وفاقی و صوبائی حکومتیں ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کریں اور حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے موثر اور نتیجہ خیز اقدامات کے زریعے مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دیں۔ طلال بگٹی یہ پیشکش کرچکے ہیں کہ اگر حکومت ان کے مطالبات مان لے تو وہ نہ صرف صوبے کے مخلتف علاقوں میں پہاڑوں کے اندر روپوش لوگوں کو ہتھیار رکھ کر پرسکون زندگی کی طرف واپس آنے پر آمادہ کرلیں گے بلکہ ملک سے باہر بیٹھے بلوچ رہنماؤں کو بھی وطن واپس لانے میں کامیابی کا ثبوت فراہم کرسکیں گے۔

بلوچستان میں کرپشن اور بے حسی اپنے عروج پر ہے۔ لہذا صوبائی حکومت کو اب سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اصلاح پر توجہ دینا ہوگی اور کسی بھی بااختیار ادارے کو اسے انا کا مسئلہ بنانے سے اجتناب کرنا ہوگا تاکہ سقوط ڈھاکہ جیسے واقعات کا پاکستان میں سدباب کیا جاسکے۔

خبر کا کوڈ : 203448
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش