0
Saturday 29 Dec 2012 00:10

پشاور میں دہشتگردانہ کارروائیاں

پشاور میں دہشتگردانہ کارروائیاں
رپورٹ: ایس این حسینی

پشاور بلکہ پورے ملک میں اس وقت عجیب صورتحال ہے۔ پورا ملک دہشتگردوں کے نرغے میں ہے۔ باقی ملک سے ہمارا اس وقت کوئی خاص واسطہ نہیں اس وقت ہم خیبر پختونخوا کی صورتحال پر معمولی سے روشنی ڈالتے ہیں۔ بشیر احمد بلور اور ان سے پہلے چارسدہ میں اے این پی کے جلسے پر حملہ کرکے طالبان کی طرف سے ذمہ داری قبول کرنے کے علاوہ اسکے بعد میں بھی اس طرح کے حملے کرنے کی دھمکی دینا ایک عجیب قسم کی بات ہے کہ طالبان رہتے بھی اس ملک کے اندر ہیں اور اسی ملک پر حکومت کرنے والوں کو دھمکیاں دیکر کوئی خوف بھی محسوس نہیں کرتے۔ 

کچھ عرصہ قبل کسی خفیہ ادارے کی طرف سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان اس وقت پشاور کے علاقے حیات آباد میں رہائش پذیر ہیں۔ اب معلوم نہیں کہ طالبان کے ترجمان رہتے پشاور میں ہیں اور یہاں کے قائدین کو قتل بھی کرتے ہیں لیکن حکومت ان کے خلاف یا تو کارروائی کر نہیں سکتی یا انکو کارروائی کی اجازت نہیں۔ یعنی یا یہ کوئی بیرونی املا ہے۔ ہمارے ایک دوست کے ساتھ منگل باغ کے ایک بیٹے کا تعلق ہے اسکا کہنا ہے۔ کہ ایک دفعہ منگل باغ کا بیٹا اچانک پشاور میں ملا جبکہ اس وقت منگل باغ کے خلاف تیراہ میں آپریشن بھی جاری تھا اسے دیکھ کر پوچھا کہ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔ حکومت تو اس وقت آپکی تلاش میں ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ ایک کھیل ہے جب بھی ہمارے خلاف آپریشن کے لئے ایف سی یا فوج جاتی ہے تو آپریشن سے تین دن پہلے ہمیں علاقے سے نکال کر پشاور بالا حصار لایا جاتا ہے اور ایک ہفتہ ہم یہاں رہ کر خوب مزے اڑاتے ہیں۔ دنبے بکرے کھلاتے ہیں اور آرام سے ایک ہفتہ گزارنے کے بعد اپنے علاقے جاتے ہیں۔ 

چنانچہ ان باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ دہشتگرد خود حکومت ہی تیار کرتی ہے اور ان میں سے بعض جو انکے منظور نظر نہ ہوں انہیں مارتی ہے، اور بعض دہشتگرد جو سرکاری شخصیات کو مارتے ہیں انکو بھی اشارہ ہوتا ہے۔ الغرض یہ ایک نورا کشتی ہے، چوہے اور بلی کا کھیل ہے۔ جو آئی ایس آئی کھیلتی ہے۔ جبکہ سول حکومت کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے۔ اداروں کے ان سے کافی مقاصد ہوتے ہیں جن میں سے ایک یہ کہ مغربی ممالک خصوصاً امریکہ کو یہ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ دیکھیں دہشگردوں سے ہم اپنے ملک میں خود بھی نہیں محفوظ۔ تو ہم افغانستان اور نیٹو اور امریکہ کا ذمہ کیسے لے سکتے ہیں؟ دوسرا یہ کہ اسی طرح یہ دہشتگردی کے خلاف جہاد کے نام پر ایڈ بھی وصول کرتی ہے۔ ایجنسیاں اس کھیل کو طول دینا چاہتی ہیں تاکہ زیادہ دیر تک انکی امداد کا سلسلہ چل سکے۔ 

اب اہل تشیع کی طرف آتے ہیں۔ طالبان اور دہشتگردوں کی طرف سے شیعوں پر جو حملے ہوتے ہیں۔ ان میں ایجنسیاں برابر کی شریک ہیں۔ جبکہ سول حکومت بھی بعض اوقات بےبس ہوتی ہے۔ اس سال محرم میں رحمان ملک نے دہشتگردانہ کارروائیوں سے بچنے کے لئے موبائل سروس اور موٹر سائیکل پر پابندی لگا دی تھی لیکن اس پر کافی شور مچایا گیا۔ اور پھر یہ کہ پابندی کے باوجود ڈی آئی خان اور بعض دوسرے مقامات پر بغیر کسی وجہ کے موبائل سروس کو بند نہیں کیا گیا۔ جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ کہ وہاں کتنا ہولناک واقعہ رونما ہوا۔ 

طالبان کی طرف سے شیعوں میں سے ہر عام و خاص کو نشانہ بنانے کی پوری سفارش کی گئی ہے تاہم شیعوں کی اہم مذہبی اور سیاسی شخصیات، ڈاکٹرز، انجنیئرز اور سماجی شخصیات کو خاص طور پر ٹارگٹ کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ ان میں سے علامہ سید جواد ہادی اور علامہ سید عابد حسین الحسینی سرفہرست ہیں۔ پورے پاکستان کی سطح پر ان دونوں کی اہمیت اپنی جگہ جبکہ کرم ایجنسی کے حوالے سے ان دونوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اسکے علاوہ ان دونوں کا تعلق انقلاب اسلامی سے بھی بہت قریب رہا ہے۔ اس وجہ سے انکے خلاف ایجنسیاں بہت کام کر رہی ہیں۔ اور دہشتگردوں کو بھی ایجنسیوں کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ 

چند روز قبل پشاور میں پھندو روڈ جو گنج سے شروع ہوکر رنگ روڈ کی طرف مدرسہ جامعۃ الشہید عارف الحسینی سے جنوب مغرب کی طرف صرف چند سو گز کے فاصلے پر ختم ہوتا ہے، پولیس نے 15 من بارود پکڑا لیکن یہاں پولیس جب بھی مجرم یا مشکوک اور خطرناک افراد کو پکڑتی ہے یا اسلحہ پکڑا جاتا ہے، پھر اس کی کوئی رپورٹ منظر عام پر نہیں لاتی، بلکہ اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ ملزمان سے بھاری رقم لے کر موقع پر ہی چھوڑ دیتی ہے اور اخباروں میں یوں بیان دیا جاتا ہے کہ بھاری اسلحہ چھوڑ کر ملزمان بھاگنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 5 محرم کو خودکش بمبار بلال کے ساتھ پکڑے جانے والے ماسٹر مائنڈ جہانگیر کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔ بعض لوگوں کو یہ شک ہے کہ اسے چھوڑ دیا گیا ہے۔ 

دہشتگرد ٹولے کا ہدف اگرچہ حکومت ہوتا ہے تاہم انہیں اگر حکومت میں شامل شیعہ ملے تو اسے وہ "ہم خرما و ہم ثواب" جانتے ہیں۔ چنانچہ سرکاری افراد میں سے ڈاکٹرز انجنئیرز خصوصاً پولیس اہلکار و افسران انکے نشانے پر ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے پشاور میں شیعہ ایس پی ہلال حیدر کو شہید کیا۔ اگرچہ اس سلسلے میں وہ سنیوں کو بھی نہیں بخشتے بلکہ ہر اس کو نشانہ بناتے ہیں جو انکی کارروائیوں کو ناجائز کہہ کر انکی مذمت کرتا ہے۔ چنانچہ گذشتہ دنوں بشیر بلور کو نشانہ بنانا بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے لیکن موقر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ کافی عرصہ سے پشاور مدرسہ خصوصا علامہ سید جواد ہادی صاحب انکے نشانے پر ہیں۔ لیکن اس سلسلے میں انہیں ابھی تک کامیابی نہیں ملی ہے۔ 

اس محرم میں اور پھر چند دن قبل دوبارہ چمکنی کے ڈی ایس پی اور ایس ایچ او نے بار بار آکر یہاں (مدرسہ) کے ذمہ داران کو سفارش کی کہ مدرسہ کی سکیورٹی بڑھاؤ، اور یہ کہ مدرسہ کے گیٹ کو 24 گھنٹے بند رکھیں۔ کسی کے لئے بھی نہ کھولیں۔ واضح رہے کہ مدرسے کے گیٹ دن کو صبح سے شام تک کھلے رہتے ہیں اگرچہ اب اسے گاڑیوں کے داخلے کے لئے مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے۔ 24 دسمبر کو اسپیشل برانچ کے افسران بھی آئے۔ انہوں نے بتایا کہ رکشوں پر خصوصی نظر رکھیں، بعض رکشوں سے متعلق اطلاع ہے کہ وہ بار بار اپنی نمبر پلیٹ بدلتے رہتے ہیں۔ آپ بھی ان پر نظر رکھیں۔ اگر ایسا کوئی واقعہ دیکھیں تو ہمیں فوراً اطلاع کریں۔ اور یہ کہ ایسے رکشوں کو مدرسہ کی حدود میں بار بار دیکھا گیا ہے، یہ بات پولیس کے ذمہ دار افراد نے خود آکر بتائی۔ 

مدرسہ اس وقت ایک اور افسوسناک صورتحال سے بھی دوچار ہے کہ وہ یہ کہ پارا چنار میں جنگ سے طالبان کے ہم فکر جو (سنی) قبیلے متاثر ہوکر پشاور آچکے ہیں، ان میں سے اکثر نے مدرسہ کے آس پاس مکان خرید کر یا کرایہ پر لیکر آباد ہونا شروع کردیا ہے۔ ان لوگوں سے مدرسہ کی سکیورٹی اس لحاظ سے بھی متاثر ہوسکتی ہے کہ مدرسہ کے آس پاس پہلے جو بھی سنی آباد تھے وہ غیر متعصب قسم کے لوگ تھے اور ان سے کوئی خاص خطرہ نہیں تھا لیکن اب یہ آکر شاید ان غیر متعصب لوگوں کا ذہن بھی تبدیل کریں۔
خبر کا کوڈ : 225674
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش