3
0
Tuesday 22 Jan 2013 01:06

سونے اور جواہرات کے کانوں پر زندگی گزارتی، وفاق سے بھیک مانگتی گلگت بلتستان کی قوم

سونے اور جواہرات کے کانوں پر زندگی گزارتی، وفاق سے بھیک مانگتی گلگت بلتستان کی قوم
اسلام ٹائمز۔ گلگت بلتستان حکومت کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کا معاملہ ایک بار پھر لٹک گیا ہے، جس کے بعد صوبائی حکومت نے معاملات طے ہونے تک صوبے کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کی کوششوں کی بھرپور مخالفت کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اس کی مرضی کے بغیر ٹیکس نہیں لگایا جا سکتا۔ اس سے قبل ایف بی آر نے یکم نومبر سے سرکاری ملازمین اور تجارتی فرموں کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانے کا اصولی فیصلہ کرتے ہوئے گلگت بلتستان کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ وفاقی حکومت نے صوبے کو درپیش مالی مشکلات ختم کرنے کے پیش نظر ٹیکس پہلی بار ٹیکسوں کے نفاذ کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ٹیکسیشن کمیٹی نے اپنی سفارشات وفاق کو پیش کر دی تھیں، جس کے بعد وزیراعظم پاکستان نے بھی ٹیکس وصولی کی منظوری دے دی تھی۔ گلگت بلتستان سے وفاق حکومت پہلے ہی اربوں ٹیکس وصول کر رہی ہے۔ ٹیکس فری زون ہونے کے باوجود تمام اشیاء خوردو نوش پر ٹیکس اسلام آباد سے ہی لگ کر آتا ہے اور ٹیکس فری زون کا نعرہ لگا کر وفاقی حکومت گلگت بلتستان میں کام کربنے والی فرموں سے بھی ٹیکس وصول کر رہی ہے، جس کے باعث ان ٹیکسوں کو اپنے علاقے میں ہی خرچ کرنے کی خاطر اس خطے کو تمام تر قانونی سقم کے باوجود ٹیکس کے دائرے میں لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ تاہم وفاق کی جانب سے سامنے آنے والی سرد مہری اور صوبائی حکومت کے تمام مطالبات نہ مانے جانے کے باعث دو ماہ گزر جانے کے باوجود ٹیکس نافذالعمل نہیں ہو سکا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت ٹیکس کی آمدن کی اسّی فی صد رقم گلگت بلتستان میں خرچ کرنے کے خواہش مند ہے۔ تاہم وفاق کی جانب سے اس سلسلے میں اب تک رضامندی ظاہر نہیں کی گئی ہے، جسے ٹیکس کے نافذ ہونے میں اصل رکاوٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق صوبائی حکومت اس وقت شدید مالی بحران کا شکار ہے اور بنکوں کی جانب سے چیکس واپس کئے جانے کے بعد وفاق نے ایک اور گرانٹ جاری کرکے حکومت کی ڈوبتی ناو کو سہارا دیا جس کے بعد فی الحال مالی بحران ٹل گیا ہے، لیکن خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ فروری کی تنخواہ جاری کرنا صوبائی حکومت کے لیے مشکل ہو گا۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر ٹیکس لگ جاتا تو یہ خطے کے مفاد میں ہوتا کیونکہ ٹیکس کے نفاذ سے گلگت بلتستان حکومت خودمختاری کی طرف بڑھے گی۔ دوسری طرف ذرائع کے مطابق گلگت بلتستان کی سیاحت، اور معدنیات کے علاوہ چین سے برآمد ہونے والی اشیاء پر لگنے والی ٹیکس کے رقوم کی تعداد اس سے کہیں زیادہ بنتی ہیں جو وفاقی حکومت گلگت بلتستان حکومت کو مانگنے اور ہاتھ پھیلانے پر دے دیتی ہے۔

گلگت بلتستان کے وسائل اور معدنیات سے حاصل ہونے والی آمدنی  اور دریائے سندھ کی رائیلٹی اس سے سوا ہے۔ واضح رہے کہ گلگت بلتستان پوری دنیا میں قیمتی پتھر رکھنے والا ساتواں بڑا خطہ ہے اور دنیا کے ساٹھ سے زائد اقسام کے قیمتی پتھر اس علاقے میں پائے جاتے ہیں، جبکہ دنیا کا سب سے بڑے صاف آبی ذخائر قطبین کے بعد گلگت بلتستان میں گلیشرز کی صورت میں ہے، جبکہ صرف گلگت بلتستان میں موجود دریاوں سے 60 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ یاد رہے پورے ملک کو اٹھارہ سے بیس ہزار میگاواٹ بجلی درکار ہے۔ گلگت بلتستان کی وفاق سے بھیک مانگتی اور ایک ڈیڑھ ارب کے لیے وفاق کے در پر جھکتی قوم کے بارے میں ایک مغربی محقق نے لکھا تھا کہ گلگت بلتستان والے دنیا کی وہ قوم ہے جو سونے اور جواہرات کی کانوں کے اوپر ننگی اور بھوکی زندگی گزارتی ہے۔ اگر گلگت بلتستان میں موجود قدرتی اور انسانی وسائل کو بروئے کار لایا جائے تو یہ خطہ ملک عزیز پاکستان کو بھی امداد دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن عاقبت نااندیشوں نے اس قوم کو بھیکاری بنا دیا ہے اور مختلف این جی اوز کے دست نگر بنادیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 233220
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Great ...well said....
Pakistan
yes nice
Pakistan
details should be maintioned and also the obstacles of development.............in region
ہماری پیشکش