0
Friday 22 Feb 2013 22:34

کسی کو ملت جعفریہ کے معاملات میں دخل اندازی کی اجازت نہیں دی جاسکتی، شیعہ علماء

کسی کو ملت جعفریہ کے معاملات میں دخل اندازی کی اجازت نہیں دی جاسکتی، شیعہ علماء
اسلام ٹائمز۔ نامور شیعہ آئمہ مساجد، علمائے کرام اور اکابرین نے سانحہ کوئٹہ کے ردعمل میں شیعہ علمائے کرام کے بھرپور کردار کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کوئٹہ اور ملک بھر میں احتجاجی دھرنے ختم کرنے کے فیصلہ کو درست قرار دیا اور اس کی تائید کی۔ ممتاز شیعہ علمائے کرام مولانا شہنشاہ حسین نقوی، مولانا مرزا یوسف حسین، مولانا شبیر الحسن طاہری، مولانا نعیم الحسن الحسینی، مولانا شیخ غلام محمد سلیم، مولانا رضی حیدر، مولانا شیخ غلام علی وزیری، مولانا باقر عباس زیدی، مولانا احمد علی امینی، مولانا حیدر عباس عابدی، مولانا صادق رضا تقوی، مولانا علی افضال، مولانا محمد حسین کریمی، مولانا علی انور، مولانا عقیل موسٰی اور دیگر نے کراچی پریس کلب میں میڈیا کانفرنس سے خطاب اور مشترکہ اعلامیہ میں کہا کہ سانحہ کوئٹہ کے 114 شہداء کے جنازوں کی تدفین کو مطالبات کی منظوری تک احتجاجاً دھرنے کی صورت میں رکھا گیا۔ سانحہ کوئٹہ کے شہداء کے لواحقین، شیعہ اکابرین اور علماء نے حکومتی وفد سے 20 مطالبات منظور کروانے کے بعد باہمی اتفاق سے جنازوں کی تدفین کی اور پورے ملک میں پرامن اور باوقار دھرنوں کے ختم کرنے کا اعلان کیا گیا، جس کی اکابرین و علماء نے بھرپور حمایت کا اعلان کیا۔ کوئٹہ یکجہتی کونسل کی جانب سے 3 رکنی کمیٹی بنا دی گئی ہے جس میں سردار سعادت علی ہزارہ، سردار قیوم چنگیزی اور محترمہ رقیہ ہاشمی 10 سے 15 روز میں ان مطالبات پر عمل درآمد کروائیں گے۔

علمائے کرام کے مطابق اہم مطالبات میں کوئٹہ اور بیرون کوئٹہ ٹارگٹڈ آپریشن، کالعدم لشکر جھنگوی، کالعدم سپاہ صحابہ (موجودہ نام اہل سنت و الجماعت) کے لیڈروں کے خلاف ملک بھر میں کارروائی، بے گناہ شیعہ و ہزارہ شیعہ افراد کی باعزت رہائی، گذشتہ سانحات کے شہداء کے ورثاء کو مالی امداد کی فوری ادائیگی، سانحہ ہزارہ ٹاؤن کے شہداء کے ورثاء اور جن کا مالی نقصان ہوا، ان کو معاوضے کی ادائیگی، یوم القدس اور دیگر ایام میں شیعہ کے معززین کے خلاف جھوٹے مقدمات کی واپسی، کوئٹہ اور دیگر علاقوں میں شیعہ افراد، طلبا و طالبات، تاجر برادری، سرکاری ملازمین اور زائرین کے لئے فول پروف سکیورٹی اور ان کے ساتھ متعصبانہ رویے کا خاتمہ، کالعدم دہشت گرد گروہوں پرجو نام بدل کر سانحات و واقعات کی ذمے داری قبول کرتے ہیں اور ان کی سرپرستی کرنے والوں پر پابندی اور ان کے خلاف مقدمات قائم کرنا، میڈیا کے افراد کا تحفظ، سابق حکومت کے وزرا جو دہشت گردی میں ملوث رہے یا دہشت گردوں کی سرپرستی کرتے رہے اور جن کا ذکر بلوچستان اسمبلی اور دیگر فورم پر بارہا کیا گیا، ان کی گرفتاری اور تفتیش، اہل تشیع کو آسان طریقہ کار کے تحت ذاتی دفاع کے لئے اسلحہ لائسنس کا اجراء، دیواروں پر تکفیری نعرے ختم کرکے لکھنے والوں کے خلاف کارروائی، بے نظیر اسپتال کی اپ گریڈیشن، کم از کم 5000 شیعہ جوانوں کی فورسز میں بھرتی اور کوئٹہ میں تعیناتی، ہر شہید کے ورثاء میں سے کسی ایک کو سرکاری نوکری، ہر شہید کے قتل کی دیت کے اعتبار سے معاوضہ اور ہر زخمی کو کم از کم 20 لاکھ معاوضہ کی ادائیگی، ہر خانوادے کو ایک پلاٹ جس کا رقبہ 200 گز ہو، ہر شہید کے بچوں کو کم از کم گریجویشن تک مفت تعلیم، اخراجات حکومت کے ذمے، ہزارہ ٹاؤن میں کم از کم ایک بوائز اور ایک گرلز کالج کا قیام شامل ہے۔

شیعہ علمائے کرام کے مطابق یہ سارے مطالبات تسلیم کرلئے گئے۔ ٹارگٹڈ آپریشن شروع ہوچکا، دیگر مطالبات من و عن تسلیم کرلئے گئے جبکہ 3 مطالبات پر حکومت نے کہا ہے کہ پلاٹ جھل مگسی میں دیئے جائیں گے، معاوضہ 10 لاکھ فی کس اور 1000 جوان کی فورسز میں بھرتی ہوگی۔ شیعہ علماء، اکابرین و ذاکرین نے کہا کہ ان حقائق کی روشنی میں آسانی سے فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ سارے مطالبات حکومت نے منظور کئے اور شہداء کے ورثاء، لواحقین اور شیعہ قیادت نے مشترکہ طور پر دھرنوں کے ختم کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے ایک سیاسی جماعت کی جانب سے اس موضوع پر میڈیا وار کو مدعی سست گواہ چست کے مترادف قرار دیا۔
خبر کا کوڈ : 241720
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش