0
Monday 11 Mar 2013 13:37

خانہ جنگی کا منصوبہ اور پاکستان

خانہ جنگی کا منصوبہ اور پاکستان
لاہور سے نمائندہ ’’اسلام ٹائمز‘‘کی خصوصی رپورٹ

پاکستان کو خانہ جنگی کی آگ میں جھونکنے کا منصوبہ نیا نہیں بلکہ اس کو پرویز مشرف کے دور حکومت سے قبل ہی تیار کر لیا گیا تھا اور اس پر عمل بھی اسی وقت سے شروع کر دیا گیا۔ اسی منصوبے کے تحت پاکستان دشمن قوتوں نے اپنے ایجنٹوں کی ایک کثیر تعداد پاکستان میں داخل کی، جو مختلف روپ دھارکر ترقیاتی اور فلاحی منصوبوں کی آڑ میں پاکستان میں داخل ہوئے یہی وجہ ہے کہ حکومت کو ’’سیف دی چلڈرن‘‘ جیسی این جی او کو بھی پاکستان سے نکالنا پڑا۔ پاکستان میں صرف سیف دی چلڈرن ہی نہیں اور بھی بہت سے تنظیمیں سرگرم عمل ہیں اور جن میں بلیک واٹر جیسی بدنام زمانہ ایجنسی کا نام بھی ایک عرصے سے سنا جا رہا ہے۔ پاکستان کے دشمنوں کی یہ پالیسی رہی ہے کہ پاکستانی قوم کو گروہ در گروہ تقسیم کر دیا جائے تا کہ ان کی قوت کو توڑا جا سکے اور پاکستانی قوم اس پوزیشن میں نہ آ سکے کہ کسی بھی بیرونی یلغار کا مقابلہ کر سکے۔ اس حوالے سے اب جس منصوبے پر عمل ہونے جا رہا ہے وہ قوم کی تقسیم ہے۔ اسی منصوبے کے تحت ماضی قریب میں جہاں مسلمانوں کو شیعہ سنی کے نام پر لڑایا گیا وہاں لسانی اور صوبائی تعصب کی بھی ہوا دی گئی۔

پاکستان میں فرقہ واریت کا کہیں نام ونشان تک نہیں، شیعہ اور سنی صدیوں سے ساتھ رہتے چلے آ رہے ہیں، اختلافات دونوں میں موجود ہیں لیکن ان کی نوعیت ایسی نہیں کہ قتل وغارت کا بازار گرم کر دیا جائے۔ دشمن قوتوں نے پہلے شیعہ سنی کو لڑایا، اب شیعوں کے اندر نئے نئے گروہ پیدا کر کے ان کی قوت کو توڑا جا رہا ہے۔ اسی طرح سنیوں میں اس وقت 60 سے زائد گروہ بن چکے ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ تعداد اہلسنت بریلوی مکتب فکر کی ہے، پاکستان کے بریلوی ایک قوت کے طور پر منظم ہو سکتے تھے لیکن اسی خدشے کے پیش نظر دشمنوں نے اہلسنت بریلویوں کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا، اب علامہ طاہرالقادری، صاحبزادہ فضل کریم، ثروت اعجاز قادری، علامہ سید ریاض حسین شاہ، علامہ سید عرفان مشہدی، علامہ الیاس عطاری قادری، راغب حسین نعیمی، علامہ سید انس نورانی، علامہ ابوالخیر محمد زبیر، علامہ اشرف آصف جلالی، حنیف جالندھری ، مفتی منیب الرحمن اور ایسے200 سے زائد رہنما ہیں جنہوں نے اپنے اپنے گروہ کی ’’امامت‘‘ سنبھالی ہوئی ہے۔

اسی طرح ملت تشیع میں بھی تین گروہ موجود ہیں جن میں مجلس وحدت مسلمین، شیعہ علماء کونسل اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ، ان میں مجلس وحدت کسی حد تک وحدت کے فروغ کیلئے کوشاں ہے اور جہاں وہ پاکستان کے شیعوں کو متحد کرنے میں مصروف عمل ہے وہاں دیگر اہلسنت جماعتوں (سنی اتحاد کونسل، سنی تحریک اور تحریک منہاج القرآن) سے بھی رابطے بڑھا رہی ہے۔ ان کی اتحاد کی یہ کوششیں کس حد تک کامیاب ہوتی ہیں یہ تو حالیہ انتخابات سے قبل ہی واضح ہو جائے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آیا انتخابات ہونے بھی جا رہے ہیں یا نہیں؟ تاحال منظر نامہ واضح نہیں ہوا، ایک دھند سی چھائی ہے۔ جس میں کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ ملک دشمن قوتوں کا منصوبہ یہ ہے کہ پاکستان کو خانہ جنگی کی آگ میں جھونک دیا جائے۔ سنی شیعہ کو لڑانے کی سازش کی ناکامی کے بعد اب مسلمانوں اور عیسائی کمیونٹی میں تصادم کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کو صرف اس لئے نشانہ بنایا گیاکہ اہل تشیع کو تقسیم کیا جا سکے۔ ہزارہ کی قتل و غارت پر میڈیا میں یہ خبریں چلوائی گئیں کہ یہ تو ہزارہ قتل ہو رہے ہیں، شیعوں کو ان سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے۔ بار بار ہزارہ والوں کا تسلسل کے ساتھ ذکر ہوتا رہا لیکن اہل تشیع نے ہزارہ کو اپنے گلے سے لگائے رکھا اور یوں یہ سازش ناکام ہو گئی۔

کراچی میں ہونیو الے سانحہ عباس ٹاؤن میں 35 سے زائد اہلسنت شہید ہوئے جس سے یہ مژدہ بھی کھل گیا کہ دہشت گردوں کا نشانہ صرف شیعہ نہیں بلکہ اہلسنت بھی ہیں۔ یوں اہلسنت میں بھی بیداری کی لہر اٹھی اور انہوں نے بھی اہل تشیع کے ساتھ مل کر دھرنے بھی دیئے اور دہشت گردی کے خلاف احتجاج بھی کیا۔ اس کے بعد یہ اطلاعات تھیں کہ مسلمانوں کو دوسرے مذاہب کے ساتھ لڑایا جائے گا جس کے مثال لاہور کے علاقے بادامی باغ کی جوزف کالونی میں دیکھنے کو مل گئی۔ بادامی باغ میں دوشرابیوں کی لڑائی ہوئی۔ شاہد عمران اور ساون مسیح مل کرشراب پیتے تھے کسی بات پر دونوں میں جھگڑا ہوگیا، شاہد عمران نے ساون کو ’’چوڑھا‘‘ کہہ دیا۔ ساون نے اس کے مذہب پر تنقید شروع کر دی۔ پولیس نے ملزم کو گرفتارکر لیا، لیکن دودن بعد دشمنوں نے اس ایشو کا فائدہ اٹھایا اورعیسائی بستی پر چڑھ دوڑے۔ عیسائی بستی میں آگ لگانے والے عام لوگ یا مقامی نہیں تھے ان کی شکلیں بھی واضح بتاتی ہیں کہ یہ لاہور سے باہر سے آئے تھے۔ پھر لگائی جانے والی آگ میں کیمیکل استعمال کیا گیا جو عام طور پر عوام کے پاس نہیں ہوتا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیمیکل کہاں سے آیا اور آگ لگانے والے کہاں سے ’’امپورٹ‘‘ کئے گئے۔

کوئٹہ ،کراچی اور پشاور کے بعد خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اب لاہور کو نشانہ بنایا جائے گا، لاہور میں سکیورٹی انتظامات تو کافی حد تک بہتر ہیں اس لئے دہشت گرد کوئی اور واردات تو نہ کر سکے البتہ انہوں نے اس بار واردات کا طریقہ کار تبدیل کر لیا اور یوں بے گناہ مسیحوں کے گھر نذرآتش کر دیئے۔ اس سانحہ میں وہی قوتیں کار فرما ہیں جو ملک میں خانہ جنگی کروانے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ لاہور پولیس میں ڈی آئی جی آپریشنز رائے طاہر حسین نے کہا کہ اس میں کوئی سیاسی یا مذہبی جماعت ملوث نہیں بلکہ کوئی اور ہی ہاتھ ہے۔ انہوں نے یہ بھی خدشہ ظاہر کیا کہ لوہا مارکیٹ میں ہونے والے تاجروں کے انتخابات میں کمزور گروپ کی کارروائی بھی ہو سکتی ہے لیکن اس کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے بھی کہا ہے کہ جوزف کالونی کا واقعہ الیکشن سبوتاژ کرنے کی سازش ہے۔ اب آنے والے وقتوں کیلئے یہ اطلاعات ہیں کہ ملک دشمن قوتیں اہم سیاسی شخصیات کو قتل کروانے کا منصوبہ رکھتی ہیں اور پاکستان سے 200 سے زائد سیاسی و مذہبی رہنماؤں کو نشانہ بنایا جائے گا اور ملک میں خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا کرکے جہاں الیکشن سبوتاژ کروایا جانا مقصو د ہے وہاں پاکستان کو غیر محفوظ ملک بھی قراردلوانا ہے تاکہ دنیا میں پاکستان کی ساکھ متاثر ہو۔ اس کے علاوہ پاک ایران گیس منصوبہ کی پاداش میں بھی اس منصوبے کی مخالف قوتیں امن وامان سبوتاژ کر رہی ہیں۔ یہاں سکیورٹی اداروں کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے، کسی بھی بڑے سانحے سے بچنے کے لئے انہیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی۔
خبر کا کوڈ : 245959
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش