1
0
Friday 19 Apr 2013 00:20

خیبر پختونخوا، دہشتگردی کے سائے میں جاری انتخابی سرگرمیاں اور حکومتی اے پی سی

خیبر پختونخوا، دہشتگردی کے سائے میں جاری انتخابی سرگرمیاں اور حکومتی اے پی سی

رپورٹ: عدیل عباس

عام انتخابات 2013ء کے انعقاد میں لگ بھگ تین ہفتوں کا وقت باقی ہے، تاہم ملک کے مختلف صوبوں میں باالعموم اور صوبہ خیبر پختونخوا میں بالخصوص انتخابی سرگرمیاں دھماکوں اور گولیوں کی گھن گرج میں جاری ہیں۔ اس وجہ سے سیاسی جماعتوں کے روایتی جوش و خروش کا مظاہرے دیکھنے کو نہیں مل رہا۔ پشاور ہو یا سوات، لکی مروت ہو یا ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں ہو یا چارسدہ۔ الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کو صوبہ بھر میں دہشتگردی کا سامنا ہے۔ دہشت زدگی کے سائے میں جاری ان انتخابی سرگرمیوں میں ''ہٹ لسٹ'' پر عوامی نیشنل پارٹی ہے۔ جسے کچھ عرصہ قبل تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے الیکشن مہم کے دوران براہ راست نشانہ بنانے کی واضح دھمکی ملی تھی۔ الیکشن سرگرمیوں میں اب تک کئی قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ بالخصوص 16 اپریل کو پشاور کے گنجان آباد علاقہ یکہ توت میں اے این پی کے جلسہ کے قریب ہونے والے خودکش حملہ میں تین معصوم بچوں سمیت 17 بے گناہ افراد دہشتگردوں کی درندگی کی بھینٹ چڑھ گئے۔
 
اس واقعہ کے بعد صوبائی نگران حکومت اور ضلع پشاور کی انتظامیہ حرکت میں آئی اور ہنگامی بنیادوں پر اجلاس طلب کئے گئے۔ دھماکہ کے اگلے روز پشاور میں سکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے پولیس لائنز میں ایک اجلاس سی سی پی او پشاور لیاقت علی کی سربراہی میں منعقد ہوا۔ جس میں تمام ایس ایس پیز اور ایس پیز نے شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ شہر بھر میں پولیس کی اضافی نفری کی تعیناتی کے ساتھ اہم شاہراہوں پر نئی ناکہ بندیاں 24 گھنٹوں میں قائم کی جائیں گی۔ اجلاس میں سیاسی جماعتوں سے گزارش کی گئی چار دیواری میں کارنر میٹنگز منعقد کی جائیں اور سیاسی رہنماء بارونق مقامات پر بغیر سکیورٹی داخل نہ ہوں۔ اجلاس میں پشاور کے مختلف علاقوں میں سرچ آپریشنز جاری رکھنے کا بھی فیصلہ کیا گیا اور سیاسی قائدین کو اپنی سکیورٹی کیلئے کارنر میٹنگز کے دوران رضا کاروں کی تعیناتی کی بھی اجازت دی گئی۔

علاوہ ازیں نگران وزیر اعلٰی جسٹس (ر) طارق پرویز نے صوبہ میں امن و امان کی خراب صورتحال اور انتخابی سرگرمیوں سے متعلق ہنگامی بنیادوں آل پارٹیز کانفرنس طلب کی۔ 17 اپریل کو وزیراعلٰی ہاوس میں منعقد ہونے والی اس اے پی سی میں پیپلز پارٹی کی جانب سے اعظم آفریدی، عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے افراسیاب خٹک اور میاں افتخار حسین، مسلم لیگ نون کی جانب سے اقبال ظفر جھگڑا، مسلم لیگ قاف کی جانب سے انتخاب عالم ایڈووکیٹ اور مولانا محمد شعیب، جماعت اسلامی کی جانب سے شبیر احمد خان، جمعیت علمائے اسلام (ف) کی طرف سے عبدالجلیل جان، پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے شوکت علی یوسفزئی سمیت پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور دیگر جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر سیکرٹری داخلہ سمیت مختلف انتظامی افسران بھی موجود تھے۔
 
آل پارٹیز کانفرنس میں فیصلہ کیا گیا کہ سکیورٹی خدشات کے پیش نظر تمام انتخابی امیدواروں کو پانچ پانچ سکیورٹی اہلکار مہیا کئے جائیں گے۔ جس کے تمام تر اخراجات حکومت خود برداشت کریگی۔ اس کے علاوہ آل پارٹیز کانفرنس میں وفاق سے ایف سی پلاٹونز کی واپسی کا بھی پرزور مطالبہ کیا گیا۔ آل پارٹیز کانفرنس کے شرکاء نے نگران حکومت پر اعتماد کا اظہار کیا اور اپنے خدشات اور تجاویز پیش کئے۔ ذرائع کے مطابق آل پارٹیز کانفرنس کے دوران نگران وزیراعلٰی جسٹس (ر) طارق پرویز نے تمام شرکاء کانفرنس کی تجاویز بغور سنیں اور ان پر عمل درآمد کیلئے موقع پر احکامات جاری کئے۔ اے پی سی کے شرکاء کو ہدایات جاری کی گئی کہ وہ گنجان آباد علاقوں، بند گلیوں میں اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے سے اجتناب کریں اور کسی بھی پارٹی میٹنگز اور جلسے جلوس کے انعقاد سے 48 گھنٹے پہلے پولیس حکام کو آگاہ کریں، جبکہ پارٹی رضاکاروں کی پولیس کے ساتھ شناخت کو یقینی بنایا جائے۔

اے پی سی میں فیصلہ کیا گیا کہ چونکہ صوبہ خیبر پختونخوا کی سرحدیں فاٹا کے ساتھ منسلک ہیں، اور یہاں پر امن و امان کا مسئلہ دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ شدت کیساتھ درپیش ہے۔ لہذا وفاقی حکومت فوری طور پر ایف سی پلاٹونز کی صوبہ خیبر پختونخوا منتقلی کو یقینی بنائے، تاکہ بارڈر پر سکیورٹی انتظامات کو مزید فل پروف بنایا جاسکے۔ واضح رہے کہ خیبر پختونخوا کی کئی ایف سی پلاٹونز بلوچستان اور دیگر مقامات پر بھیجی گئی تھیں۔ آل پارٹیز کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں اور نمائندوں نے ایف سی پلاٹونز کی واپسی کے مطالبہ پر زور دیا۔ اے پی سی کے بعد صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے نگران صوبائی وزیر اطلاعات مسرت قدیم نے کہا کہ عام انتخابات کیلئے پرامن ماحول پیدا کرنے کیلئے حکومت اس قسم کے اجلاس کا انعقاد جاری رکھے گی۔ جس میں تمام جماعتوں کے ساتھ مل بیٹھ کر اہم تجاویز اور مشوروں سے استفادہ کیا جائیگا۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات سے ایک دن پہلے اور الیکشن کے روز اور ایک دن الیکشن کے بعد کئویک رسپانس فورس ہر پولنگ اسٹیشن پر تعینات ہوگی، تاکہ سکیورٹی کو فل پروف بنایاجاسکے۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں پر حملوں کے بعد نگران حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر انتخابی امیدوار کو پانچ سکیورٹی اہلکار مہیا کئے جائینگے۔ جس کے تمام تر اخراجات حکومت برداشت کریگی۔ انہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ محکمہ پولیس میں تبادلوں و تقرریوں کی وجہ سے سیاسی رہنمائوں سے سکیورٹی واپس لی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اس قسم کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں تاہم کسی جگہ یہ مسئلہ ہو نگران حکومت اس کے تدارک کیلئے اقدامات اٹھائیگی۔

خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کے پے در پے واقعات اور نگراں صوبائی حکومت کی جانب سے بروقت سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینا احسن اقدام ہے۔ تاہم الیکشن کے قریب آتے دنوں اور دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے خطرات کے باعث الیکشن کمیشن آف پاکستان اور پاک فوج کی معاونت کی ضرورت کو بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ فوری طور پر تمام اضلاع کیلئے سکیورٹی پلان ازسرنو مرتب کرنا ناگزیر ہوچکا ہے، جس میں دہشتگردوں کے خطرناک عزائم ناکام بنانے کی صلاحیت موجود ہو۔ دہشتگردوں کے خلاف شہروں کے مضافاتی علاقوں میں فورسز کی کارروائیاں بھی اہم ثابت ہوسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ تمام حکومتی اداروں کیساتھ عوام کا تعاون بھی صورتحال کو پرامن بنانے کیلئے ضروری ہے۔ بصورت دیگر الیکشن ملتوی کرنے کی قیاس آرائیاں اور مفروضے حقیقت میں بدل سکتے ہیں، جس کا ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔

خبر کا کوڈ : 255241
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

acha hai. malomati hai. sirf typing ki kuch ghaltian han
ہماری پیشکش