2
0
Thursday 18 Apr 2013 10:38

خیبر ایجنسی اور اس میں آباد قبائل کی ہمدردیاں

خیبر ایجنسی اور اس میں آباد قبائل کی ہمدردیاں
تحقیق: ایس این حسینی

فاٹا کے تقریبا وسط میں واقع، خیبر ایجنسی کی سرحدیں شمالی میں مہمند ایجنسی، مشرق میں ضلع پشاور، مغرب میں افغان صوبے ننگرہار اور کرم ایجنسی جبکہ جنوب میں اورکزئی سے ملتی ہیں۔ اس کو انتظامی سطح پر تین تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ تحصیل جمرود، تحصیل لنڈی کوتل اور تحصیل باڑہ۔ جبکہ اس ایجنسی میں دو بڑے قبیلے آفریدی اور شینواری آباد ہیں۔ شینواری قبیلے کے بیشتر لوگ بارڈر کے پار افغانستان میں آباد ہیں۔ اور آفریدیوں کی تعداد شینواریوں کی نسبت زیادہ بھی ہیں اور انہیں کو اس ایجنسی کے امور میں غلبہ حاصل ہے۔ اسکے علاوہ آفریدی قوم کی کافی آبادی اورکزئی اور کرم میں بھی رہتی ہے۔

رقبے کے لحاظ سے تحصیل باڑہ دیگر دونوں تحصیلوں سے کافی بڑا ہے نیز یہ علاقہ اکثر دشوار گزار سنگلاخ پہاڑی وادیوں پر مشتمل ہے، اور اس میں آفریدی قوم کے جو ذیلی قبیلے رہتے ہیں ان میں سپائے قمبرخیل، برقمبرخیل، شلوبر، ملک الدین خیل، اکاخیل، طوری خیل اور کالا خیل شامل ہیں۔ 
تحصیل لنڈی کوتل رقبے کے لحاظ سے جمرو سے بڑا ہے تاہم یہ بھی اکثر پہاڑی سلسلوں پر مشتمل دشوار گزار قسم کا علاقہ ہے۔ اس میں اکثر شیلمانی اور شینواری قوم کے ذیلی قبیلے آباد ہیں۔ مشہور صوفی شاعر امیر ہمزہ شینواری کا تعلق بھی اسی قبیلے اور اسی تحصیل لنڈی کوتل سے تھا، اور اسکی قبر بھی اسی تحصیل میں واقع علی مسجد کے اندر واقع ہے۔ شینواریوں کے علاوہ اس تحصیل کے جنوب مغربی پہاڑی وادیوں میں افغان سرحد اور تیراہ کیجانب گگرانی اور بازار ذخہ خیل بھی رہتے ہیں مجموعی طور پر اس تحصیل میں آفریدیوں کے قبیلے برائے نام ہیں۔ 
اسی طرح تحصیل جم (جمرود) رقبے کے لحاظ سے تو کافی چھوٹی ہے لیکن ہشاور شہر سے نزدیک ہونے کی وجہ سے باقی دونوں کی نسبت کافی ترقی یافتہ ہے اور یہاں کی عوام بھی کافی مہذب اور پر امن ہے۔ اس کا اکثر علاقہ میدانی ہے قابل کاشت زمین بھی وافر مقدار میں موجود ہے۔ اس میں جو بڑے قبیلے آباد ہیں ان میں کوکی خیل، زوجہ گل خیل، سڑہ الگڈ اور ملاگوری قبائل قابل ذکر ہیں۔

خیبر ایجنسی کو تحصیلوں کی طرح نظریاتی لحاظ سے بھی اسی طریقے سے تقسیم کیا جاسکتا ہے تحصیل جم اور تحصیل لنڈی کوتل کے آفریدی اور شینواری قبائل کے اکثر لوگ امن پسند ہیں۔ ان میں آباد لوگوں کی اکثریت طالبان کی حمایت تو کیا، طالبان مخالف نظریات رکھتے ہیں۔ اور نظریاتی لحاظ سے یہ لوگ شیخ گل صاحب اور اسکے فرزند سابق ایم این اے علامہ نور الحق قادری کے مرید اور پیروکار ہیں۔ جبکہ شدت پسندی کا عنصر زیادہ تر تحصیل باڑہ کی آفریدیوں میں پایا جاتاہے۔ اور موجودہ فسادات کی بنیاد بھی باڑہ ہی سے پیر سیف الرحمان اور مفتی منیر شاکر کے درمیان نظریاتی ٹھکراؤ کی وجہ سے پڑی ہے۔ اگرچہ اس ٹھکراؤ کے بعد یہ دونوں تو علاقہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں لیکن انہوں نے خصوصا منیر شاکر کی قدامت پسندانہ نظریات نے آفریدیوں کو خون کے دریا میں نہلا دیا ہے۔

اب ذرا تیراہ کی خبر لیتے ہیں۔ 80 کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے وادی تیراہ میں خیبر ایجنسی کی مذکورہ تین مختلف تحصیلوں کے قبائلی آباد ہیں۔ اسکے علاوہ تیراہ میں سکھ برداری کے لوگوں کے مکانات بھی ہیں لیکن خراب حالات کی وجہ سے وہ کچھ عرصہ پہلے پشاور اور مضافاتی علاقوں میں منتقل ہوگئے ہیں۔ انتظامی لحاظ سے تیراہ کا بیشتر علاقہ تحصیل باڑہ کی حدود میں شامل ہے۔ کچھ علاقے ایسے ہیں جنہیں تیراہ تو کہا جاتا ہے لیکن وہ انتظامی لحاظ سے اب اورکزئی یا کرم ایجنسی کا حصہ بنا ہوا ہے۔

تیراہ کے جنوب مشرق میں اورکزئی اور جنوب مغرب میں کرم ایجنسی واقع ہے۔ تحصیل لنڈی کوتل کے علاقے افغان سرحد کے قریب ہیں، جہاں ذخہ خیل کے علاقے میں توحید الاسلام کے جنگجو موجود ہیں جبکہ تحصیل باڑہ کے اکثر علاقے لشکر اسلام اور تحریک طالبان کے زیر اثر اور زیر قبضہ ہیں اگرچہ درمیان میں کبھی کبھار ان سے یہ علاقے چھن بھی جاتے ہیں۔ تاہم اس علاقے میں ان دو تنظیموں کا خاص اثر و رسوخ ہے۔ اور اس علاقے کے اکثر لوگ متشدد قسم کے نظریات کے حامی تصور کئے جاتے ہیں۔ نظریاتی طور پر یہ لوگ کٹر قسم کے دیوبندی ہیں۔ تاہم تازہ اطلاع کچھ اسطرح بھی ہے کہ اب اکثر لوگوں کے دلوں میں ان دونوں تنظیموں کے خلاف نفرت بڑھ گئی ہے لیکن وہ ظاہرا کچھ کہہ نہیں سکتے۔ بہر حال اب بھی عوام کی ایک خاصی تعداد ان دونوں تنظیموں کی حامی ثابت ہورہی ہے۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ تیراہ کے مختلف علاقوں پر کافی عرصہ سے حکومتی حمایت یافتہ انصار الاسلام کے جنگجووں کا قبضہ تھا لیکن گزشتہ ایک عرصے سے تحریک طالبان پاکستان اور لشکر اسلام کے اتحاد کے بعد اکثر علاقوں پر انصار الاسلام کے جنگجوؤں کا قبضہ کمزور پڑ گیا ہے۔ خیال رہے کہ تیراہ میں اس سے پہلے تحریک طالبان پاکستان اور انصارالاسلام کا اتحاد تھا تاہم بد اعتمادی کی وجہ سے وہ اتحاد ٹوٹ گیا تھا۔ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے کچھ عرصہ پہلے میڈیا کو بتایا تھا کہ طالبان نے امن کی خاطر انصار الاسلام کے ساتھ معاہدہ کیا تھا تاہم انصار الاسلام نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور 29 طالبان کو ہلاک کر دیا تھا۔

خیبر ایجنسی میں لشکر اسلام اور انصار الاسلام کے جنگجوؤں کے درمیان گذشتہ کئی سالوں سے جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے جس میں اب تک دونوں جانب سے بڑی تعداد میں لوگ ہلاک زخمی اور معذور ہوچکے ہیں۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق تیراہ سے لگ بھگ چالیس ہزار خاندان نقل مکانی کرکے یا تو نوشہرہ میں واقع جلوزئی کیمپ میں پناہ لے چکے ہیں یا پھر دور دراز علاقوں میں آباد اپنے اپنے رشتہ داروں کے پاس جاکر سر چھپا چکے ہیں۔ جبکہ ایک قدر مشترک جو یہاں پایا جاتا ہے وہ یہ کہ دونوں جانب سے آفریدی ہی مررہے ہیں۔ مگر کوئی نہیں انکی خبر گیری کرنے والا، جو ان سے کہہ سکیں کہ خدا کے بندو! یہ کیا مصیبت بنا رکھی ہے یہ تم اسلام کی کونسی خدمت کررہے ہو۔ تم دونوں تو مسلمانوں ہی کو نہیں بلکہ اپنی آفریدی برادری کو تہہ تیغ کرتے جارہے ہو۔
اور ساتھ یہ پوچھیں کہ تم کس کے اشارے پر یہ سب کچھ کررہے ہو۔ تم نے نفع کتنا کیا ہے جبکہ لاکھوں خاندانوں کو بے گھر، آبادیوں کو اجاڑ کر رکھ دیا اور نسلوں کو ختم کر ڈالا۔ تم یہ کس کافر سے لڑ رہے ہو، تم نے تو اپنی ہی آفریدی ماووں سے اپنے پیاروں کو چھین کر اجھاڑ دیا۔ اپنی ہی خواتین کے سہاگ چھین لئے۔ کوئی نہیں جو کہہ سکیں کیونکہ ہر ایک پر شرپسندوں کا سایہ سوار ہے۔ جس کسی سے پوچھیں خوف کی وجہ سے اپنی مظلومیت تک بتانے سے گریز کرتے ہیں۔ ورنہ کس کو پتہ نہیں کہ آفریدی قوم کے ساتھ کیا نہیں ہورہا۔ انکے مساجد میں دھماکے ہوئے، انکے جنازوں کو نشانہ بنایا گیا۔ عیدگاہوں میں دھماکے کراکے ان سے عید کی خوشیوں بھی چھین لی گئیں۔ اور بڑے افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ یہ سب کچھ انہیں اپنوں کی طرف سے سہنا پڑا ہے۔ 

میرے وہاں کافی دوست ہیں لیکن کوئی بھی اس شرط پر کوئی اطلاع دینے کو تیار نہیں کہ انکا نام لیا یا لکھا جائے، شرپسندوں کی جانب سے بعد میں لاحق ہونے والے خطرات انکے پیش نظر ہوتے ہیں۔میرے ان دوستوں کا کہنا ہے کہ یہاں ایک خوفناک سا ماحول بنا ہوا ہے۔ کوئی صبح کو نکلتا ہے تو گھر والوں کو اسکی واپسی کی امیدیں نہیں ہوتی۔ خصوصا تیراہ اور باڑہ کے علاقوں میں حالات بہت ہی مایوس کن ہیں۔ مقامی لوگوں میں سے بعض کا کہنا تھا کہ ہمیں الیکشن نہیں بلکہ امن چاہئے۔ ہمیں کسی قسم کے ترقیاتی کام بھی نہیں چاہئے بلکہ ہمیں اپنے گھر چاہئے۔ انکا حکومت پاکستان اور ذمہ دار افراد سے ایک ہی مطالبہ تھا کہ خدا کے لئے جو کچھ تم کررہے ہو، کبھی ایک فریق کو سپورٹ کرتے ہیں کبھی دوسرے کو، یہ رویہ ترک کردو، اس سے شائد تم کو تو فائدہ ہوگا لیکن ہمارا تو سب کچھ لٹ گیا۔ ہم نے گھر گھر کی ٹوکریں کھائیں، ہماری آبرو تو جاتی رہی۔ خدا کے لئے ہم پر رحم کیا جائے۔ اور ہمیں پاکستانی سمجھ کر اپنے علاقے میں واپس بھیجنے کی تدبیر کریں۔ سول انتظامیہ اور سکیورٹی فورسز سے انکی ہزاروں شکایتں ایسی تھی کہ ہر ایک پر دم نکلے۔ انکا کہنا تھا۔ کہ کبھی امن لشکر کے نام پر اور کبھی کسی اور بہانے سے ہمیں شرپسندوں کے خلاف کچھ عرصہ کے لئے تو استعمال کیا جاتا ہے لیکن بعد میں چھوڑ کر جب چلے جاتے ہیں۔ تو شرپسند پوری طاقت سے دوبارہ پہاڑوں سے اتر کر ہم پر حملہ آور ہوجاتے ہیں، اس دوران حکومت سے تعاون کی ہر چند اپیلیں درخواستیں کی جاتی ہیں، ہماری ایک بھی نہیں سنی جاتی۔ تین چار دن ہم بمشکل شرپسندوں کا مقابلہ کردیتے ہیں اس دوران ہمارا مالی جانی نقصان تو ہو ہی جاتا ہے، جبکہ اسپر مستزاد یہ کہ شرپسند ہماری عزت کا بھی کوئی خیال نہیں رکھتے۔ حکومت بالآخر پہنچ تو جاتی ہے، لیکن اس وقت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔
یعنی یا تو سب مرچکے ہوتے ہیں یا پھر سب کچھ چھوڑ کر یہاں سے جاچکے ہوتے ہیں۔
(معلومات کی فراہمی میں ایک صحافی دوست نے تعاون کیا ہے لیکن اس نے نام ذکر کرنے سے منع کیا ہے، راقم الحروف خود اور ادارہ اسکے تعاون کے لئے شکر گزار ہیں۔)
مصنف : ایس این حسینی
خبر کا کوڈ : 255335
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

masha allah.
ap tahqiqi maqaly awr reports parhta hoon. bahot dilhusp hoty han..allh khosh raky ap loggon ko.
aik arz ye karon k ap k tasaweer bohot choty hoty han. pato nai chalta. ap taswer ka siz agr thra sa bara kren tho boht merabani hogi. shakoria
mai b afridi hoo awr jmrod mai rah kr b ye malomat na thy. boht shokrera
ہماری پیشکش