اسلام ٹائمز۔ متماز دفاعی تجزیہ کار جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم نے کہا ہے کہ افغان طالبان کے سامنے ایک سوچ اور ایک ارادہ ہے، انہیں علم ہے کہ ان سے انکی حکومت ظلم اور جبر کے ساتھ چھین لی گئی، ان کے ملک پر بغیر کسی ثبوت کے قبضہ کرلیا گیا، اس صورتحال میں انہوں نے کیا کرنا ہے، ان کی سوچ پختہ اور مذاکرات کی میز پر بات چیت کیلئے آمادہ ہیں، لیکن جہاں تک پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بات ہے تو اس چیز کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو طالبان سے مذاکرات کئے جائیں اور انہیں آخری حد تک موقع دیا جانا چاہیے، لیکن جہاں پر ضرورت پڑے وہاں طاقت کا استعمال کیا جانا چائے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ پاکستانی طالبان چوں چوں کا مربع ہیں، یہ پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے، جموریت اور پارلیمنٹ کو تسلیم نہیں کرتے، ایسے میں مذاکرات کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں، اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی مذاکرات کی میز پر نہیں آتا اور پاکستان کے آئین کو تسلیم نہیں کرتا تو پھر اس کے خلاف طاقت کا بھرپور استعمال کیا جانا چاہئے۔ جنرل عبدالقیوم کا کہنا تھا کہ حکومت، فوج اور سیاسی قیادت کو ایک پیج پر آنا ہوگا، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں امریکی مداخلت اور دہرے معیار نے ہمارے لئے مشکلات کھڑی کر دی ہیں، ایک طرف امریکہ پاکستان میں ڈرون حملے جاری رکھے ہوئے ہے تو دوسری جانب افغانستان میں موجود مولوی فضل اللہ پر کوئی ڈرون نہیں گرایا جاتا۔ اس عمل سے امریکی دہرے معیار کو پرکھا جاسکتا ہے۔