1
0
Friday 16 Aug 2013 10:14

سزائے موت کے متعلق طالبان دھمکی مسترد

سزائے موت کے متعلق طالبان دھمکی مسترد
رپورٹ: ایس این حسینی

حال ہی میں موجودہ حکومت نے سزائے موت کے قانون پر عملدرآمد کا فیصلہ کرتے ہوئے متعدد قیدیوں کے ڈیتھ وارنٹ جاری کر دیئے ہیں۔ جس کے ردعمل میں پنجابی طالبان کے مبینہ امیر عصمت اللہ نے ایک خط کے ذریعے دھمکی دی ہے کہ انکے کسی ساتھی کو پھانسی کی سزا دی گئی تو اسے نواز حکومت کی جانب سے طالبان کے خلاف اعلان جنگ تصور کیا جائے گا۔ یوں ٹی ٹی پی نواز لیگ کا بھی اے این پی والا حشر کرے گی۔ واضح رہے سابق حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور میں سزائے موت کے قانون پر عملدرآمد روک دیا تھا۔ اس حوالے سے وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ حکومت نے سزائے موت روکنے کی "طالبان دھمکی" کو مسترد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، وزارت داخلہ کے ترجمان عمر حمید کے مطابق حکومت کسی بھی غیر ملکی دباؤ میں نہیں آئے گی اور ملکی قوانین کے تحت سزائے موت پر عملدرآمد کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
 خیال رہے اس وقت حکومت کے پاس 470 ایسے افراد کے مقدمات ہیں، جن کی تمام تر اپیلیں مسترد ہوچکی ہیں اور اب سزائے موت کے حکم پر عمل درآمد ہونا باقی ہے۔ 

حیرت انگیز طور پر تحریک طالبان کی نواز لیگ کو دھمکی، ٹی ٹی پی کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کے صرف 2 دن بعد ہی منظر عام پر آگئی، جس سے ٹی ٹی پی کی صفوں میں عدم اتفاق کے اشارے ملتے ہیں۔ اسلام آباد میں انسداد دہشتگردی کے ایک اہم ادارے کے ذمہ دار نے میڈیا کو بتایا کہ حکومت نے تحریک طالبان کی مذاکرات کی پیشکش اور اس دھمکی کا بغور جائزہ لیا ہے اور دونوں کو نظر انداز کر دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق انٹیلی جنس ذرائع سے دستیاب اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش، سزائے موت کے منتظر تحریک طالبان کے قیدیوں کو پھانسی سے بچانے کی کوشش ہے، مگر انکی جیل میں موجود قیادت خصوصاً ڈاکٹر عثمان اور دیگر ساتھیوں نے جو جیل سے باہر ہیں، مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت پر دباؤ ڈال کر انکی پھانسی کو رکوایا جائے۔ 

وزارت داخلہ کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ دھمکی آمیز خط ملنے کے بعد وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے فیصلہ کیا ہے کہ سزاؤں پر عملدرآمد 20 اگست سے شروع ہوجائے گا۔ اس ماہ تقریباً 10 سے 12 مجرموں کو سزائے موت دی جائے گی، جن میں جی ایچ کیو پر حملے کا مرکزی مجرم ڈاکٹر عثمان بھی شامل ہے۔ مگر وزارت داخلہ سے ابھی مرکزی مجرم ڈاکٹر عثمان کے ڈیٹھ وارنٹ کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس وقت صرف پنجاب کی جیلوں میں سزائے موت کے 6120 قیدی ہیں، جن میں 450 دہشتگردی کے مقدمات میں سزائے موت کے منتظر ہیں اور 465 کی اپیلیں مسترد ہوچکی ہیں۔ مگر پیپلز پارٹی کی سابق حکومت نے سزائے موت کے قانون پر عملدرآمد روک دیا تھا اور گذشتہ 5 برسوں میں کسی ایک قیدی کو بھی پھانسی نہیں دی گئی۔ 

دوسری جانب پی پی کی حکومت ختم ہوجانے کے بعد نواز لیگ کی حکومت نے جب قیدیوں کی سزاؤں پر عملدرآمد کا فیصلہ کرتے ہوئے ڈیتھ وارنٹ کی فائلیں ایوان صدر بھیجوائیں تو صدر آصف زرداری نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ جس پر جولائی میں زرداری کے بیرون ملک جانے کے بعد قائم مقام صدر نئیر حسین بخاری سے ڈیٹھ وارنٹ پر دستخط کروائے گئے۔ پولیس ذرائع کا دعویٰ ہے کہ عید کے روز بارہ کہو کی مسجد پر خودکش حملہ، دراصل نیئر حسین بخاری کی جانب سے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کے ردعمل کے سلسلے میں تھا کیونکہ نیئر بخاری اس امام بارگاہ میں آتے ہیں اور انکا گھر بھی اسکے قریب ہی واقع ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ نیئر بخاری نے جن قیدیوں کی ڈیتھ وارنٹ جاری کئے ہیں، ان میں لشکر جھنگوی کے سکھر جیل میں 3 قیدیوں سمیت 4 حیدرآباد، 2 میانوالی، 2 فیصل آباد جبکہ لاہور کی 2 جیلوں میں 4 قیدی شامل ہیں۔
خبر کا کوڈ : 292862
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
اگر نواز شریف حکومت نے دہشتگردوں کے دباو میں آکر دہشتگردوں کو پھانسی نہ دی تو یہ نواز حکوم کی جانب سے پوری پاکستانی قوم خصوصاً اہل تشیع کیخلاف اعلان جنگ تصور کیا جاۓ گا۔ اسکے بعد شیعہ قوم کو بھی چاہیۓ کہ اپنی مدد آپ کے تحت اپنی حفاظت کیلیۓ میدان عمل میں وارد ہو کر ظلم و دہشتگردی کا خاتمہ کر دیں۔ نصر من اللہ و فتح قریب۔
ہماری پیشکش