0
Monday 19 Aug 2013 18:11

طالبان کی دھمکی کام کرگئی، نواز حکومت نے سزائے موت پر عمل درآمد مؤخر کر دیا

طالبان کی دھمکی کام کرگئی، نواز حکومت نے سزائے موت پر عمل درآمد مؤخر کر دیا
رپورٹ: این اے بلوچ

حکومت کی طرف سے سزائے موت پر عملدرآمد کے اپنے سابقہ اعلان سے انحراف سے ایسا لگتا ہے کہ تحریک طالبان کی طرف سے وہ دھمکی کام کرگئی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ اگر زیر حراست عسکریت پسندوں کو پھانسی دی گئی تو تحریک طالبان اس کو نون لیگ کی قیادت کے خلاف اعلان جنگ تصور کرے گی۔ حکومتی ترجمان نے پہلے ہی اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے تاحکم ثانی ملک میں سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا ہے۔ یہ فیصلہ پنجابی طالبان کے امیر عصمت اللہ معاویہ کے اس بیان کے چند ہی روز بعد کیا گیا جس میں اس نے کہا تھا کہ پھانسی پر عملدرآمد انہیں نون لیگ کے خلاف جنگ شروع کرنے پر مجبور کر دے گا۔ دھمکی کے بعد تحریک طالبان کے ترجمان کی طرف سے بھی ایک بیان جاری کیا گیا کہ اگر 23 اگست کو شیڈول کے مطابق عقیل عرف ڈاکٹر عثمان کو فیصل آباد میں پھانسی دی گئی تو نون لیگ کی دو اہم شخصیات کو نشانہ بنانے کے لئے انتہائی تربیت یافتہ خودکش بمباروں کا ایک اسکوارڈ تیار کر لیا گیا ہے۔

تحریک طالبان کے ترجمان نے انتباہ کیا کہ ”اگر عقیل کو پھانسی دی گئی تو نون لیگ کے اہم قائدین کے گھروں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ اے این پی کی قیادت کی طرح نون لیگ کی قیادت ہمارا نشانہ ہوگی۔“ دراصل تحریک طالبان اور لشکر جھنگوی کے کچھ اہم کمانڈرز کو سندھ میں بالترتیب 20 اور 25 اگست کے دوران پھانسی دی جانی تھی۔ تاہم میڈیا نے ایک حکومتی ترجمان کا بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صدر زرداری نے وزیراعظم نواز شریف کو خط لکھا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ سینکڑوں مجرموں کی زیر التوا سزائے موت کے معاملے پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ ترجمان کے بقول کیونکہ سزائے موت پر عملدرآمد کی تاریخ قریب آرہی ہے اور صدر مملکت بیرون ملک ہیں، وزیراعظم نے وزارت داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ صدر اور ان کے درمیان ملاقات تک سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا جائے۔ انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بھی پاکستانی حکومت سے اپیل کی ہے کہ سزائے موت پر عملدرآمد نہ کیا جائے۔ تاہم سزائے موت کے فیصلے پر یوٹرن سے قبل وزیر داخلہ چوہدری نثار نے 14 اگست کو اسلام آباد میں کہا تھا کہ نئی حکومت قانون کی بالادستی کے لئے پرعزم ہے۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ  ”سزائے موت کے 450 کیسز زیرالتوا ہیں، ہم جتنی جلد ممکن ہوسکتا ہے نمٹا رہے ہیں۔ ہم قانون کی بالادستی کے لئے دہشت گردوں کی سزائے موت کے احکامات پر عمل درآمد جاری رکھیں گے۔“ 15 اگست کو وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے بھی کہا تھا کہ سزائے موت عدالت نے دی ہے نون لیگ نے نہیں دی۔ انہوں نے کہا تھا کہ مجرموں کو پھانسی دینے میں تاخیر پر عدالتوں کی ناراضگی بجا ہے۔ دی نیوز نے 15 اگست کو پہلے ہی یہ خبر شائع کی تھی کہ حکومت تحریک طالبان کی دھمکیوں کے بعد لشکر جھنگوی کے 2 عسکریت پسندوں کی سزائے موت موخر کرنے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔ جن کو پھانسی دی جا رہی ہے، ان میں عطاءاللہ عرف قاسم اور محمد اعظم عرف شریف شامل ہیں، ان کو 2001ء میں کراچی میں ایک شیعہ ڈاکٹر علی رضا پیرانی کو قتل کرنے کے جرم میں سزائے موت دی گئی۔ انہوں نے 2002ء میں جامعہ پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ ملیر کے پرنسپل ظفر مہدی زیدی، ان کے ڈرائیور اور ملازم کو بھی قتل کیا تھا۔

ایک اور جہادی کمانڈر جن کو 23 اگست کو فیصل آباد میں پھانسی دی جانی ہے، وہ عقیل احمد عرف ڈاکٹر عثمان ہیں، جنہوں نے 10 اکتوبر 2009ء کو 10 فدائین کی قیادت کرتے ہوئے جی ایچ کیو پر حملہ کیا تھا۔ ان کمانڈرز کو فوری پھانسی دیئے جانے کی خبروں پر طالبان نے 14 اگست کو جنوبی و شمالی وزیرستان میں پمفلٹ کے ذریعے دھمکی دی ”اگر قیدی ساتھیوں کو پھانسی دی گئی تو یہ حکومت کی طرف سے اعلان جنگ کے مترادف ہوگا۔ باخبر سکیورٹی حلقوں کے مطابق سزائے موت پر عمل درآمد روکنے کا حکومتی فیصلہ بنیادی طور پر طالبان کی جوابی کارروائی سے بچنے کیلئے کیا گیا۔ سکیورٹی حلقوں نے فریقین کے درمیان امن معاہدے کی تازہ کوششوں کے امکان کو مسترد نہیں کیا۔ تحریک طالبان نے جنوری میں نواز شریف کو ضامن مقرر کیا تھا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ حکومت کے ساتھ امن معاہدے کی فوج کی طرف سے خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔ نواز شریف نے انتخابات میں کامیابی پر کہا تھا کہ ان کی حکومت کو تحریک طالبان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ مسئلہ بات چیت سے ہی حل ہوسکتا ہے۔

تحریک طالبان نے بھی نواز شریف کے مفاہمتی رویے کو سراہا تھا، لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا نواز شریف اس پوزیشن میں ہیں کہ تحریک طالبان کے ساتھ ان کے امن معاہدے کی فوج کی طرف سے خلاف ورزی نہیں کی جائے گی، دوسرا یہ کہ کیا طالبان مذاکرات کے بعد اسلحہ رکھ دیں گے اور ریاستی رٹ کو مان لیں گے، ایسا دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سکھر جیل میں لشکر جھنگوی کے تین قیدیوں کو دی جانیوالی پھانسی کی سزا روک دی گئی ہے۔ ان تین قیدیوں کو 20 اگست کو پھانسی دی جانی تھی۔ اس حوالے سے جیل انتظامیہ کو وزیر داخلہ چوہدری نثار علی کا خط  بھی موصول ہوگیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تینوں قیدیوں کی پھانسی کی سزا کو فی الحال مؤخر کر دیا جائے۔ یاد رہے کہ اسلام ٹائمز نے 12 اگست کو تحرک طالبان پنجاب کی جانب سے دی جانیوالی دھمکی کی خبر سب پہلے دی تھی۔
خبر کا کوڈ : 293824
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش