0
Monday 25 Nov 2013 18:44

فرقہ وارانہ تشدد کے خاتمہ کیلئے طاہراشرفی نے 15 نکاتی ضابطہ اخلاق پیش کر دیا

فرقہ وارانہ تشدد کے خاتمہ کیلئے طاہراشرفی نے 15 نکاتی ضابطہ اخلاق پیش کر دیا
اسلام ٹائمز۔ پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مولانا طاہر اشرفی نے 15 نکاتی ضابطہ اخلاق، غوروخوض کیلئے خصوصی اجلاس کی طلبی کی ایک درخواست کے ساتھ ارسال کیا ہے۔ ضابطہ اخلاق میں تمام مذہبی جماعتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ مذہب کے نام پر تشدد سے خود کو علیحدہ کر لیں، اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی مسلم فرقے کو کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس میں توہین رسالت میں کسی بھی قسم کی ترمیم کی مذمت کی گئی ہے۔ مولانا اشرفی نے بتایا کہ ہم نے دیکھا کہ تمام سیاسی جماعتیں اگر اس پر اتفاق کرلیتی ہیں تو شیعہ کمیونٹی کے بہت سے رہنما بھی اس ضابطہ اخلاق سے متفق ہیں، سانحہ راولپنڈی کے بعد مولانا احمد لدھیانوی نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کوئی ضابطہ اخلاق تیار کرتی ہے تو اس کے کچھ نکات پر عمل کرنے کیلے تیار ہیں۔ یہ اسلامی نظریاتی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ مختلف معاملات میں قرآن و سنت کی روشنی میں حکومت کی رہنمائی کرے۔مولانا اشرفی نے اسلامی نظریاتی کونسل کو ارسال کیے گئے خط میں کہا ہے کہ حکام کی جانب سے کی جانے والی متعدد کوششوں کے باوجود ہم دیکھتے ہیں ملک فرقہ واریت کی وجہ سے دھماکہ خیز صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔

مجوزہ ضابطہ اخلاق میں کہا گیا کہ کوئی بھی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے اہل بیت بشمول ان کی قابل احترام ازواج اور امام مہدی(ع) کے بارے میں قابل اعتراض تبصرے کرتا ہے تو اس کو اسلامی عقیدے سے مرتد قرار دے دینا چاہیے ۔ضابطہ میں کہا گیا کہ ایسی کسی بھی تقریر اور تحریری مواد کو روکا جائے جو کسی دوسرے فرقے کیلئے ناپسندیدہ ہو یا نفرت پر اکساتا ہو۔ ضابطہ اخلاق میں کہا گیا کہ نفرت انگیز تقاریر کی ریکارڈنگز اور انہیں کسی بھی ذریعے سے پھیلانے پر پابندی ہونی چاہیے۔ مذہبی گروہوں کی طرف سے نفرت کی ترغیب پر مبنی یا تشدد کی آگ کو بھڑکانے والے کسی بھی نعرے سے گریز کرنا چاہیے اور تمام فرقوں کو چاہیے کہ وہ دوسروں کی عبادت گاہوں اور روایات و اقدار کا احترام کریں۔ ضابطہ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ تمام مذہبی اجتماعات اور مذہبی مقامات پر اسلحے خصوصاً غیرقانونی اسلحے کی نمائش پر پابندی ہونی چاہیے۔ مجوزہ ضابطہ اخلاق میں اس خواہش کا اظہار کیا گیا کہ تقاریر، خاص طور پر جمعہ کی نماز کے دوران کی جانے والی تقاریر میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن کو فروغ دینا چاہیے۔

ضابطہ میں کہا گیا کہ باقاعدگی کے ساتھ ایسے سیمیناروں کا انعقاد کیا جائے جس میں مذہبی علماء اپنے خطاب میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیں اس میں اختلافات کے حل کیلئے مختلف فرقوں کے مذہبی علماء پر مشتمل ایک بورڈ کی تجویز بھی پیش کی گئی۔ مولانا طاہر اشرفی نے اپنے خط میں کہا کہ ضابطہ اخلاق حکومت کی جانب سے نافذ کیا جائے گا، جسے تشدد کرنے والوں کے ساتھ قانون کے مطابق نمٹنا چاہیے۔ خط میں اسلامی نظریاتی کونسل سے سفارش کی گئی ہے کہ وہ غیر مسلموں کے مذہبی مقامات کی حرمت پامال کرنیوالے عناصر کیخلاف سخت اقدامات اْٹھائے۔ مولانا طاہر اشرفی نے کہا کہ اس طرح کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے ملک میں قوانین موجود تھے تاہم یا تو نرم تھے یا پھر وہ سزا کیلئے ناکافی تھے۔ مولانا طاہر اشرفی نے بتایا کہ میں نے کوشش کی تھی کہ کالعدم سپاہِ صحابہ کی قیادت ملی یکجہتی کونسل میں شمولیت اختیار کر لے اور تشدد کا راستہ ترک کر دے اور وہ اس پر رضامند تھے یہی وقت ہے کہ مذہبی علماء آگے آئیں اور اپنا کردار ادا کریں، دوسری صورت میں تاریخ انہیں اچھے الفاظ میں یاد نہیں کرئے گی۔دوسری جانب مختلف فرقوں اور مذہبی گروں کے رہنماؤں نے اس ضابطہ اخلاق کا اچھی طرح مطالعہ کیے بغیر اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
خبر کا کوڈ : 324521
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش