0
Wednesday 11 Dec 2013 15:03

فرقہ وارانہ کشیدگی کا خاتمہ، ضابطہ اخلاق کو قانونی شکل دینے کے لئے پیشرفت ہورہی ہے، مولانا فضل الرحمان

فرقہ وارانہ کشیدگی کا خاتمہ، ضابطہ اخلاق کو قانونی شکل دینے کے لئے پیشرفت ہورہی ہے، مولانا فضل الرحمان
اسلام ٹائمز۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ فرقہ وارانہ پہلے سے طے شدہ ضابطہ ہائے اخلاق پر نئی قانون سازی کے لئے حکومت اور مسالک کے درمیان پیشرفت ہورہی ہے۔ دیوبند اور دہلی میں شیخ الہند کانفرنس میں شرکت سے قبل واہگہ بارڈر لاہور میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ شیعہ سنی اکابرین کے درمیان ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم، مولانا عبدالستار نیازی کمیٹی، حکومت پنجاب کے ضابطہ اخلاق، اور حال ہی میں تمام مکاتب فکر کے علما کے اتفاق رائے سے گلگت بلتستان میں جاری آرڈیننس میں فرقہ وارانہ مسائل کے لیے ضابطہ ہائے اخلاق موجود ہیں، ان تمام کو یکجا کرکے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے نئی قانونی سازی کی ضرورت ہے، تاکہ خلاف ورزی کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کی جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف سے ان کی حالیہ ملاقات میں پہلے سے موجود قوانین کو موثر بنانے کے لئے مزید ترامیم اور مختلف اوقات میں متفقہ ضابطہ اخلاق کو بنیاد بناکے قانون سازی کے لئے تمام مکاتب فکر کے علما سے ان کی بات ہو بھی چکی ہے اور مزید جاری بھی ہے۔  

انہوں نے کہا کہ بھارت کی سیاسی قیادت سے دو طرفہ تعلقات پر بھی بات چیت اور کشمیر سمیت تمام تنازعات کے حل میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے حوالے سے بات چیت ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاک بھارت کشیدہ تعلقات میں کشمیر کور ایشو ہے، کشمیر کا مسئلہ اگر حل ہو جائے تو خطہ میں امن قائم ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کو افغانستان کی سیکورٹی میں بھارتی کردار کو انفرادی طور پر دیکھنے کی بجائے ہمیں مشترکہ طور پر غور کرنا چاہیے۔اب کوئی ملک تنہا رہ سکتا ہے اور نہ ہی دہشت گردی، غربت اور جہالت جیسے مسائل سے اکیلے نمٹا جاسکتا۔  

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ حکومت طالبان سے مذاکرات کے لیے پرعزم ہے، قبائلی جرگہ نے بھی تعاون کی پیش کش کردی ہے، مگر طالبان کی طرف سے ابھی کچھ وقت لیا جارہا۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخواہ این جی اوز کے حوالے ہے، یہاں منتخب حکومت کا کوئی وجود نظر نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخواہ حکومت نے جو بلدیاتی نظام دیا ہے، اس میں منتخب نمائندے این جی اوز کے ملازم ہوں گے۔ 

انہوں نے کہا کہ ریٹائرڈ ہونے والے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے کچھ معاملات پر اختلاف ہونے کے باوجود ان کی طرف سے ماضی کے مقابلے میں عدلیہ میں نیا احساس پیدا کرنا قابل تحسین ہے۔اب ایک نئی عدلیہ نظر آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیٹو سپلائی کے حوالے سے مجھ سے کوئی رابطہ نہیں ہوا، اس حوالے سے وہی احتجاج کررہے ہیں جو چاہتے ہیں کہ امریکہ پاکستان سے اپنے دس سالہ شکووں کا بدلہ لے۔ 
خبر کا کوڈ : 329537
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش