0
Tuesday 28 Jan 2014 18:53
ہزارہ قبیلے کا کیا جرم ہے، انہیں کیوں مارا جا رہا ہے؟

دہشتگردوں سے مذاکرات کا کہنے والے انکو تحفظ دے رہے ہیں، طاہرالقادری

دہشتگردوں سے مذاکرات کا کہنے والے انکو تحفظ دے رہے ہیں، طاہرالقادری
اسلام ٹائمز۔ پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا ہے کہ ریاست اگر برابری کی بنیاد پر دہشتگردوں سے مذاکرات کرے تو یہ حکومت کی نااہلی ہوگی، دہشتگرد پہلے ہتھیار پھینکیں، پرامن راستہ اختیار کریں اور اگر وہ پھر مذاکرات کی شکل میں کوئی مطالبات رکھیں تو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ انکی بات سنی جائے، جائز بات کو مانا جائے اور ناجائز کو رد کر دیا جائے، دہشتگردوں کی قوت اور طاقت کو توڑے بغیر ان سے مذاکرات کرنا قرآن اور سنت رسول (ص) کے مطابق نہیں، بدقسمتی سے حکمرانوں اور سیاسی لیڈروں نے اللہ رسول کے حکم کے مطابق یہ اسوہ اپنایا ہی نہیں، اگر دہشتگردوں سے مذاکرات کرنے ہیں تو پھر چوروں، ڈاکوؤں، قاتلوں کو جیلوں میں کیوں ڈال رکھا ہے۔؟ ان پر مقدمات کیوں چل رہے ہیں؟ ان سے بھی مذاکرات کئے جائیں، قانون اور عدالتیں ختم کر دی جائیں اور ہر معاملہ مذاکرات کے ذریعے طے کیا جائے، مذاکرات کرنا جائز ہیں مگر انکے لئے ایک طریقہ اور وقت ہوتا ہے۔ وہ مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹاؤن میں بذریعہ ویڈیو کانفرنس منہاج القرآن علماء کونسل کے اہم اجلاس سے گفتگو کر رہے تھے۔

اس موقع پر علامہ سید فرحت حسین شاہ، علامہ امداد اللہ قادری، علامہ میر آصف اکبر، علامہ محمد حسین آزاد، علامہ ممتاز صدیقی، علامہ غلام اصغر صدیقی، علامہ عثمان سیالوی اور علامہ لطیف مدنی و دیگر بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ پاکستان میں علماء کا ایک طبقہ ہے جو دہشتگردوں کے حوالے سے کوئی واضح موقف اختیار کرنے کی بجائے اگر مگر شروع کر دیتے ہیں، گول مول مذمت کرکے سیدھا امریکہ پر چلے جاتے ہیں، ایسے نئے مضامین چھیڑ دیتے ہیں جس میں اصل موضوع اور سوالات پیچھے رہ جاتے ہیں اور قوم کو بھول بھلیوں میں الجھا دیتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ مذاکرات کا اصلاً انکار نہیں، قوم کو نظریاتی طور پر تقسیم کرکے ابہام پیدا کر دیا گیا ہے، امریکہ کی غلامی اور اس سے جنگ میں نہیں جانا چاہیے، اپنی خود مختاری اور ملکی سالمیت کا سودا نہیں ہونا چاہیے، مذہبی لوگ مدرسوں اور تبلیغ کے نام پر ڈالر اور ریال اکٹھے کرتے ہیں، جب تک پاکستان میں بیرونی پیسہ آنا بند نہیں ہوگا اس وقت تک دہشتگردی جاری رہیگی، کئی ملک حکمرانوں کو اقتدار کی کرسی پر بٹھانے میں مدد دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پہلے ڈاکو، چور، جارح اور باغیوں کی قوت کو توڑا جائے، وہ ریاست کی رٹ کو تسلیم کریں، امن کے راستے پر مستقل مزاجی سے آجائیں، پرامن ہو کر، ہتھیار پھینک کر مذاکرات کی بات کریں، دہشت گرد ریاست کے علاقوں پر قابض ہیں، ہزاروں معصوم لوگ انکے ہاتھوں شہید ہوچکے، سینکڑوں ہو رہے ہیں، فوج اور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں، ہزارہ برادری والے میتیں لیکر پانچ پانچ دن تک بیٹھے رہتے ہیں، ان معصوم لوگوں نے کیا جرم کیا ہے؟ انہیں کس گناہ کی سزا دی جا رہی ہے، مساجد، امام بارگاہوں، گرجا گھروں اور فوجی چھاؤنیوں پر حملے ہو رہے ہیں، شہریوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے، دہشتگرد ریاست کی رٹ کو تسلیم کیے بغیر قوت اور طاقت سے اپنے مطالبات منوانا چاہتے ہیں، ان حالات میں حکمران مذاکرات کی بات کریں تو یہ انتہائی کمزور موقف ہوگا، جو لوگ دہشتگردوں سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں دراصل وہ بالواسطہ ان دہشت گردوں کو تحفظ دیتے ہیں، انکی فلاسفی کو تقویت دیتے ہیں، دہشتگردی کرنیوالے شہید نہیں فساد انگیز ہیں، فتنہ پرور ہیں جو باہر کے ممالک سے پیسہ لیکر اس ملک کا امن برباد کر رہے ہیں، وہ دہشت گرد ہیں، وہ اس ملک کی نیوکلیئر حیثیت کو نقصان پہنچانے کیلئے راستہ ہموار کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 345974
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش