0
Thursday 27 Feb 2014 00:48

اینٹی طالبان اے پی سی قیام امن کیلئے سنگ میل ثابت ہوگی

اینٹی طالبان اے پی سی قیام امن کیلئے سنگ میل ثابت ہوگی
لاہور سے ابو فجر کی رپورٹ

پاکستانی تاریخ میں پہلی بار طالبان کے حامی اور مخالف کھل کر سامنے آچکے ہیں۔ لاہور میں تحفظ ناموس رسالت محاذ نے ناموس وطن کا بھی نعرہ حق بلند کیا اور اہلسنت سمیت ہم خیال سیاسی و مذہبی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کر ڈالی۔ کانفرنس توقع سے زیادہ کامیاب رہی، جس میں 50 سے زائد سنی جماعتوں نے شرکت کی، اس کانفرنس میں ملت تشیع پاکستان کی نمائندگی مجلس وحدت مسلمین نے کی، جبکہ سیاسی جماعتوں میں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ قاف قابل ذکر ہیں، جنہوں نے کھل کر طالبان کی مخالفت اور پاک فوج کی جانب سے دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کی حمایت کی، جبکہ ان کے برعکس پاکستان میں طالبان کی حامی جماعتوں کی تعداد تین چار سے زیادہ نہیں۔

اہل سنت جماعتوں میں سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا، پاکستان سنی تحریک کے سربراہ ثروت اعجاز قادری، ناظم اعلٰی جامعہ نعیمیہ اور نائب ناظم اعلٰی تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان علامہ محمد راغب حسین نعیمی، تحفظ ناموس رسالت محاذ کے صدر علامہ رضائے مصطفٰی نقشبندی، تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان کے علامہ غلام محمد سیالوی، سنی تحریک لاہور ڈویژن کے امیر مولانا مجاہد عبدالرسول قادری، ادارہ صراط مستقیم پاکستان کے بانی ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالی، خیرالامم فاؤنڈیشن پاکستان کے سربراہ پیر کرامت علی حسین، محمد ضیاءالحق نقشبندی، تحفظ ناموس رسالت محاذ کے جنرل سیکرٹری مولانا محمد علی نقشبندی، نعیمین ایسوسی ایشن پاکستان کے صدر مفتی محمد حسیب قادری، جمعیت علماء پاکستان سواد اعظم کے امیر محفوظ مشہدی، محافظان ختم نبوت پاکستان کے امیر مولانا محمد اعظم نعیمی اور علامہ ذوالفقار مصطفٰی ہاشمی بھی شریک ہوئے۔

دیگر رہنماؤں میں انجمن اساتذہ پاکستان پنجاب کے صدر پروفیسر محمد احمد اعوان، تحریک فدایان مصطفٰی کے امیر حافظ محمد اکبر جتوئی، وکلاء ونگ کے صدر کامران بھٹہ ایڈووکیٹ، اسلامک ریسرچ کونسل پاکستان کے صدر مفتی محمد کریم خان، پاکستان فلاح پارٹی کے صدر قاضی عتیق الرحمن، مرکزی جماعت اہل سنت پاکستان کے مولانا محمد نعیم عارف نوری، دعوت حق کے امیر مولانا اصغر علی نورانی، تحریک فدایان ختم نبوت کے امیر سید واجد علی شاہ، مولانا محمد ارشد نعیمی فخرالعلوم علماء کونسل، عدنان رضا قادری اور دیگر اکابرین اہل سنت بھی شریک ہوئے جبکہ اہلسنت کی دیگر تنظیموں میں مجلس علماء نظامیہ، بزم رسولیہ شیرازیہ، انوار مدینہ نعت کونسل، بزم نعیمیہ، نگینہ ویلفیئر سوسائٹی، تنظیم علماء اہل سنت، کونسل آف جرائد اہل سنت، الفکر ٹرسٹ، بزم لاثانی، نیشنل مشائخ کونسل پاکستان، پاکستان مشائخ کونسل، نفاذ فقہ حنفیہ، دفاع اسلام محاذ، بزم جامعہ اسلامیہ، ادارۃ المصطفٰی، حقوق اہل سنت، عالمی اہل سنت والجماعت، عالمی تنظیم اہل سنت، ختم نبوت انٹرنیشنل، عالمی بزم لاثانی شامل ہیں۔

آل پارٹیز کانفرنس نے طالبان سے مذاکرات ختم کرکے آپریشن شروع کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ تمام پرامن اور محب وطن طبقات ریاست مخالف دہشت گردوں کیخلاف جنگ میں ریاست اور پاک فوج کے ساتھ ہیں۔ ’’اینٹی طالبان و دہشتگردی اے پی سی‘‘ میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ عنقریب گو طالبان گو تحریک چلائی جائے گی اور جمعہ 28 فروری کو اینٹی طالبان ڈے منایا جائے گا۔ تمام محب وطن جماعتیں طالبان کی مزاحمت کے لیے متحد ہوچکی ہیں، طالبان کے حامیوں ہمدردوں اور سرپرستوں کیخلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے اور ریاست کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے اور طالبان کی حمایت کو سنگین ترین جرم قرار دیا جائے، پاکستان کے باغیوں کی حمایت کرنیوالے ملک اور قوم کے غدار ہیں، رہنمائوں نے طالبان کی حامی مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو مناظرے کا چیلنج دیا۔ شرکاء نے مطالبہ کیا کہ آئین نہ ماننے والوں کو ریاستی گرفت میں لایا جائے، طالبان اسلام کے خوبصورت چہرے کو بدنام اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو کمزور کر رہے ہیں۔ شرکاء نے کہا کہ جن دہشت گردوں کو عدالتوں سے سزائے موت سنائی جاچکی ہے، ان کی سزا پر فی الفور عمل کیا جائے اور گرفتار دہشت گردوں کا سپیڈی ٹرائل کرکے انہیں سرعام پھانسی پر لٹکایا جائے، تاکہ دوسرے دہشت گردوں کیلئے عبرت بن سکیں۔

رہنماؤں نے کہا کہ طالبان ڈالروں کے لالچ میں پاکستان دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، اس لیے طالبان کو ریاست کا نمبر 1 دشمن قرار دیا جائے، پاک افغان بارڈر کو سیل کرکے دہشت گردوں کی آمدورفت روکی جائے۔ پچاس ہزار سے زائد شہداء کے بے رحم قاتلوں سے مذاکرات شہداء کے خون سے غداری ہے۔ وفاقی شرعی عدالت طالبان کی شریعت کے نام پر دہشت گردی کا از خود نوٹس لے اور طالبان سے شرعی قوانین کے مطابق پچاس ہزار سے زائد شہداء کا قصاص طلب کیا جائے اور ان پر شرعی مقدمات چلائے جائیں۔ اے پی سی کے شرکاء نے کہا کہ جماعت اسلامی اور جے یو آئی طالبان کا سیاسی ونگ ہیں، جماعت اسلامی، جے یو آئی اور طالبان ایک ہی سکے کے مختلف رخ ہیں۔ پاک فوج، ایف سی اور پولیس کے افسروں اور جوانوں کے قتل کا بدلہ حکومت پر قرض اور فرض ہے کلمہ گو مسلمانوں کا خون بہانے والے طالبان عہد حاضر کے خوارج ہیں، جو اپنے سوا ہر ایک کو کافر اور واجب القتل سمجھتے ہیں۔ ملک کی سلامتی کے تحفظ کیلئے ریاست اور آئین کے باغیوں کے خلاف ملک گیر آپریشن ناگریز ہوچکا ہے، پاک فوج کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فری ہیڈ دیا جائے اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر مشترکہ نیشنل سکیورٹی پالیسی واضح کی جائے فوجیوں کے گلے کاٹنے والے کسی رحم اور رعایت کے مستحق نہیں، طالبان اور ان کے حامیوں کو سرکاری طور پر ’’غداران اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ قرار دیا جائے اور ریاستی اداروں کو طالبان نواز عناصر سے پاک کیا جائے۔

مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان کو غیر اسلامی قرار دینا گمراہ کن سوچ ہے، 1973ء کے آئین پر تمام مکتبہ فکر کے جید علماء و مشائخ نے دستخط کر رکھے ہیں۔ آئین میں شامل غیر اسلامی دفعات کو قرآن وسنت کے مطابق بنانے کے لیے متعلقہ نمائندہ فورم اسلامی نظریاتی کونسل کی متفقہ تجاویز کو پارلیمنٹ میں پیش کرکے آئین میں شامل کیا جائے اور آئین پاکستان کا عملی نفاذ قرارداد مقاصد کی روشنی میں یقینی بنایا جائے، اس لیے آئین شریعت کے نفاذ کی ضمانت دیتا ہے، ملک میں شریعت نافذ ہوگئی تو طالبان اور ان کے حمایتی پھانسی چڑیں گے۔ حکومت اپنے شہریوں کے تحفظ کے آئینی تقاضے پورے کرے۔ دہشت گردی کے بحث پیدا ہونے والے خوف و ہراس کی فضاء میں اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری کا عمل روک گیا ہے اور ملک پاکستان کے دشمن بیرونی عناصر کو پیدا کردہ حالات سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل رہا ہے پورا ملک ’’مقتل اور آتش فشاں‘‘ بن چکا ہے۔ اس لیے حکومت دہشت گردوں کو کچلنے کو اپنی پہلی ترجیح بنائے اور حکمران خوف مسلط سے نکل کر جرات مندانہ فیصلے کرے، دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کو نتیجہ خیز بنایا جائے اور منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔

کانفرنس میں سب سے اہم بات سب سے آخر میں مشترکہ اعلامیہ میں شامل کی گئی اور وہ شام میں پاکستان کی ممکنہ مداخلت کے حوالے سے نقاط تھے۔ آل پارٹیز کانفرنس نے جہاں ملکی معاملات پر مفصل گفتگو کی، وہاں انہوں نے ملک کی خارجہ پالیسی پر بھی تنقید کی اور کہا کہ شام ہمارا مسلمان بھائی ملک ہے اور اس کے خلاف امریکی جنگ میں ہم سعودی عرب کے کہنے پر اپنا کندھا فراہم نہیں کریں گے۔ کانفرنس میں جاری ہونے والے اعلامیہ میں یہ بات شامل کی گئی کہ شامی باغیوں کو پاکستان عسکری تربیت دے گا اور نہ ہی انہیں اسلحہ فراہم کیا جائے گا۔ آل پارٹیز کانفرنس میں پاکستان میں آئے روز سعودی حکمرانوں کے دوروں پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ رہنماؤں نے کہا کہ سعودی عرب ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے جو کہ کسی طور بھی درست عمل نہیں۔ حکومت سعودی حکمرانوں کی خوشنودی کیلئے ایسے بیج نہ کاشت کرے جن کی فصل ہمیں کانٹوں کی صورت کاٹنا پڑے۔ ضیاءالحق نے 80ء کی دہائی میں دہشت گردی کی جو فصل بوئی تھی، آج ہم بدامنی اور قتل و غارت گری کی شکل میں اسے بھگت رہے ہیں۔

کانفرنس کے آخر میں دشمنان اسلام و دشمنان پاکستان کی نابودی، اسلام کی سربلندی اور پاکستان کی ترقی و خوشحالی کی دعا کی گئی۔ یہ کانفرنس پاکستان میں جہاں قیام امن کے لئے حکومت پر دباؤ میں اضافے کا باعث بنے گی، وہاں اس کانفرنس نے انعقاد سے دہشت گردوں کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان ایک حد فاصل بھی کھینچ دی ہے۔ اس کانفرنس کے انعقاد سے متاثرین دہشت گردی ایک طرف اور معاونین دہشت گردی دوسری طرف ہوگئے ہیں اور اس کانفرنس نے معاونین دہشت گردی کو تنہا کر دیا ہے۔ اس کانفرنس نے جہاں اتحاد امت کے لئے سنگ میل کا کردار ادا کیا ہے، وہاں حکمرانوں کو بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ مظلوموں نے اگر دہشت گردوں کے خلاف قیام کر لیا تو پھر یہ مٹھی بھر دہشت گرد رہیں گے نہ ان کے ’’باپ‘‘ بچ پائیں گے۔ یہ آل پارٹیز کانفرنس ان مدارس کے خلاف بھی اعلان لاتعلقی تھا جو دہشت گردوں کی نرسریاں ہیں۔
خبر کا کوڈ : 355915
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش