0
Friday 17 Sep 2010 22:06
کیا دہشت گرد فورسز سے زیادہ مضبوط ہیں؟

کرم ایجنسی،خیوص گاﺅں پر دہشت گردوں کا شدید حملہ 60 افراد شہید

مسجد اور امام بارگاہ نذر آتش کیا،پورے گاﺅں میں آگ لگی ہوئی ہے،کوئی گھر نہیں بچا
کرم ایجنسی،خیوص گاﺅں پر دہشت گردوں کا شدید حملہ 60 افراد شہید
پاراچنار:اسلام ٹائمز-مجلس وحدت مسلمین کے کی ویب سائیٹ کے مطابق تازہ ترین اطلاع کے مطابق پارا چنار سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شیعہ اکثریتی آبادی پر مشتمل خیوص کے گاوں میں شدید لڑائی ہو رہی ہے،ایک طرف خیوص گاوں پر دہشت گردوں کے حملے کو روکتے ہوئے اب تک آٹھ کے قریب شیعہ افراد شہید ہو چکے ہیں،تو دوسری طرف رہائشی علاقوں پر طالبان دہشت گردوں کی گولہ باری سے کئی خواتین اور بچوں کی شہادت واقع ہوئی۔
ملک میں ذرائع ابلاغ اگرچہ دہشت گردوں کے ان حملوں کو پانی کا تنازعہ قرار دے رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ دہشت گردوں کو اس علاقے میں امن،سکون کے تمام امکانات ختم کرنے کا ہدف دیا گیا ہے،لوئر کرم میں دہشت گردوں کے بڑے ٹھکانوں کے خاتمے کے بعد اور بیرونی طور پر طویل المدت محاصرے اور ناکہ بندی کے باوجود چونکہ کرم ایجنسی اس وقت پورے ملک کا پرامن ترین علاقہ تصور کیا جاتا ہے،دہشت گردوں نے شلوذان اور پہاڑیوں میں واقع “خیوص” نامی گاوں کہ جس کی اکثر آبادی شیعیان حیدر کرار پر مشتمل ہے،پر حملے شروع کر دیئے ہیں،جس کا مقصد اس پورے علاقے کو لڑائی اور جھگڑوں میں دھکیلنا اور مرکزی حکومت کی واحد اطاعت گذار،مگر عالمی دہشت گردوں کے مقابلے میں حکومتی مدد سے محروم،جنگ زدہ اور قلعہ بند قبائلی ایجنسی کے اندرونی امن و امان کو بھی تباہ کیا جا سکے اور مستقبل قریب میں پرامن شیعہ اور سنی قبائل کو امن کے قیام سے بھی دور رکھا جا سکے۔
یہ سطور لکھنے تک علاقے میں اہل تشیع شہیدوں کی تعداد 25 تک پہنچ گئی ہے جبکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک ہلاک کئے جانے والے دہشت گردوں کی تعداد 24 تک پہنچ گئی ہے۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق ہیلی کاپٹرز کے حملے سے بھی بے گناہ اہل تشیع مدافعین کو شیدید نقصان پہنچا ہے۔پہاڑون میں رہنے والے شیعہ قبائل کی فریاد پہاڑوں سے ٹکرا کر واپس لوٹ جاتی ہے اور وہ خود ہی اس کی صدائے بازگشت سن لیتے ہیں،کیونکہ ذرائع ابلاغ میں خاموشی یا پھر خبروں کی تحریف ہے اور حق و حقیقت کا اظہار و انعکاس اس زمانے میں کیمیا کی مانند ناپید ہے۔علاقے کے مکینوں کے مطابق لڑائی کا آغاز مقامی و غیر مقامی دہشت گردوں نے کیا ہے اور سرکاری پالیسی کے تابع ذرائع ابلاغ نے بھی مجبور ہو کر آج ہی اعتراف کر لیا ہے کہ علاقے میں دہشت گردوں نے مداخلت شروع کر لی ہے۔
روزنامہ جنگ نے لکھا ہے کہ دہشت گردوں کی مداخلت سے لڑائی میں تیزی آ گئی ہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ دہشت گرد پہلے روز سے ہی اس لڑائی میں شریک ہیں اور جو مقامی لوگ ان کو دعوت دے چکے ہیں اور ان کو اپنے گھروں مین بسا رہے ہیں اور ان کے ساتھ مل کر پرامن ملکی شہریوں کے خلاف لڑ رہے ہیں وہ بھی تو دہشت گرد ہیں،جو ملک کے امن و امان کو تباہ کر رہے ہیں اور حکومت کی رٹ کو تسلیم ہی نہیں کرتے اور پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر حکومتی فورسز کے بعض عناصر (جیسا کہ کرنل مجید جیسے افراد)دہشت گردوں کی پشت پناہی نہ کر رہے ہوتے تو یہ لڑائی اب تک ختم ہو چکی ہوتی،کیونکہ علاقے کے لوگ بہت بہتر انداز میں اپنا دفاع کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں،گو کہ ان مقامی لوگوں کے پاس نہ تو بھاری ہتھیار ہیں اور نہ ہی سرکاری اور نیٹو یا امریکی فورسز کی جانب سے ان کی مدد کی جا رہی ہے،جبکہ دہشت گرد جو ہتھیار استعمال کر رہے ہیں،وہ پاکستانی افواج کے لئے بھی غیر معروف ہیں۔
چنانچہ نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ دہشت گردوں کو ہمسایہ ملک پر قابض بیرونی افواج کی ہمہ جہت مدد بھی حاصل ہے اور انہیں افغانستان کے راستے سے بیرونی قوتوں سمیت ملکی عملداری کے خلاف بغاوت کرنے والے دہشت گرد ٹولوں سے بھرپور امداد مل رہی ہے،جبکہ سرکاری فورسز کے بعض عناصر کی نظر کرم بھی جنگ کی شدت میں موثر  ثابت ہو رہی ہے۔
پاراچنار سے 5 میل کے فاصلے پر شلوزان کی حسین وادی واقع ہے جو گذشتہ دو ہفتوں سے مسلسل حملوں کی زد میں ہے۔اس گاوں کی شمالی پہاڑیوں میں مینگل قبائل کا بسیرا ہے،جو 2007ء میں حکومت اور طالبان کے مشترکہ اقدامات کے باوجود پرامن شیعہ باشندوں کی طرف سے کسی بھی حملے کا نشانہ نہیں بنے،لیکن ان کی طرف سے مسلسل شرارتیں ہوتی رہیں،جن میں سے ایک شرارت پانی کی بندش کا مسئلہ تھا جو مسلسل جاری رہا،لیکن شیعہ قبائل نے اس کو لڑائی کا بہانہ بنانے کی کوشش نہیں کی،بلکہ جب بھی ان لوگوں نے اپنے یزیدی اسلاف کی روایت پر چلتے ہوئے پانی بند کیا،تو اہل تشیع نے حکومت کی وساطت سے یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی۔
حال ہی میں مختلف علاقوں کے طالبان دہشت گردوں نے افغانستان جا کر دشوار گذار پہاڑی راستوں سے گذر کر ان پہاڑی دیہاتوں کو اپنا مسکن بنا لیا ہے اور انھوں نے بھاری ہتھیار بھی اس علاقے میں منتقل کئے ہیں اور  اب یہ دیہات پرامن عوام کی سکونت کی بجائے دہشت گردی کے بڑے اڈے میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ان دیہاتوں کے پہاڑی باشندوں اور دیگر علاقوں سے آئے ہوئے دہشت گردوں نے مل کر پہاڑی دروں میں کیمپ قائم کئے ہیں اور بعید از قیاس نہیں ہے کہ القاعدہ کے بیرونی و اجنبی دہشت گرد اور ان سے منسلک مقامی دہشت گرد ٹولے بھی جو اس وقت طالبان کی شکل میں منظم ہوئے ہیں،اس علاقوں میں آئے ہوئے ہوں،جس کا ثبوت ان کی جانب سے جدید ہتھیاروں سے شدید گولہ باریاں ہیں،جن کا نشانہ شلوزان اور ملحقہ شیعہ علاقے ہیں۔
دو ہفتے قبل اس علاقے میں اس وقت لڑائی کا آغاز ہوا،جب مقامی اور غیر مقامی دہشت گردوں نے شلوزان کے اوپر واقع پہاڑی چوٹیوں پر قبضہ کر کے شلوزان کو بھاری ہتھیاروں کا نشانہ بنانے لگے۔علاقے کے مکینوں کا خیال ہے کہ گویا مرکزی حکومت نے جان بوجھ کر ان کو گذشتہ ساڑھے تین برسوں سے دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے،تاکہ یہاں کے عوام بھی مجبور ہو کر دیگر قبائلی علاقوں کے عوام کے نقش قدم پر چلنا شروع کریں اور سرکاری فورسز کو اس علاقے سے نکلنے پر مجبور کریں،تاکہ حکومت کو یہاں بھی فوجی آپریشن کے بہانے عوام کے قتل عام کا موقع مل سکے!!۔
اس وقت شلوزان کی شمالی پہاڑیوں میں طالبان کے مختلف گروپ تعینات ہیں،جو شلوزان اور ملحقہ علاقوں پر بھی حملے کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں متعدد مکانات اور مساجد کو شدید نقصان پہنچا ہے لیکن تکفیری طالبان دہشت گردوں کے جانی نقصان کے صحیح اعداد و شمار کا کسی کو بھی علم نہیں ہے۔
دوسری طرف سے کرم ایجنسی کے طوری و بنگش قبائل نے حکومت سے ایجنسی میں طویل بدامنی کے خاتمے کے لئے اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کرتی ہوئی فورسز کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔پاراچنار میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قبائلی عمائدین اور علماء نے کہا ہے کہ علاقہ طویل بدامنی کے باعث ہر میدان میں تباہ ہو گیا ہے،علاقے کے لوگ مزید بدامنی برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔قبائلی رہنماوں اور علماء نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ علاقے میں امن و امان کی بحالی کے لئے طویل خاموشی ترک کر کے قدم بڑھائے۔
تازہ ترین اطلاع کے مطابق مظلوم عوام نے اپنے تین دیہاتوں کو دہشت گردوں سے آزاد کرا لیا ہے،جو درحقیقت ان کے اہم اڈے تھے اور دہشت گردوں نے ان دیہاتوں کو پہلے ہی دہشت گردی کی غرض سے باشندوں سے خالی کرا لیا تھا،چنانچہ تینوں دیہات بالکل خالی تھے اور ان میں کوئی بھی مکین نہیں تھا۔اس رپورٹ کے مطابق دہشت گرد پسپا ہونے پر مجبور ہو کر عقبی پہاڑیوں کی جانب فرار ہو گئے ہیں۔
واضح رہے کہ مفتوحہ دیہات شلوزان کے شیعہ باشندوں کی آبائی جائیداد کا حصہ ہیں،جن میں کسی زمانے میں افغانستان سے آئے بعض خاندانوں کو عارضی طور پر بسایا گیا تھا،جو بعد میں نہ صرف پہاڑی علاقے کے مالک بن بیٹھے تھے،بلکہ اپنے محسنون کو تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔
اس وقت نرئی نامی صرف ایک گاوں دہشت گردوں کے ہاتھوں میں ہے جو مذکورہ دیہاتوں سے کافی دور ہے،جبکہ آج رات واحد شیعہ گاوں پر بھاگنے والے دہشت گردوں کے حملے کا خطرہ بدستور باقی ہے۔
کرم ایجنسی،خیوص گاﺅں پر دہشت گردوں کا شدید حملہ 60 افراد شہید
مسجد اور امام بارگاہ نذر آتش کیا،پورے گاﺅں میں آگ لگی ہوئی ہے،کوئی گھر نہیں بچا

افغانستان سے القاعدہ اور طالبان کے ہزاروں کی تعداد میں آئے ہوئے دہشت گردوں نے خیوص گاﺅں کو تباہ کر دیا،خیوص گاﺅں کربلاء کا منظر پیش کر رہا ہے،سینکڑوں زخمی طبی امداد کے منتظر ہیں،گاﺅں کی مظلوم اہل تشیع عوام نے دنیا بھر سے امداد کی اپیل کی ہے اور سنسر شب کو توڑنے کی اپیل کی ہے اس وقت میڈیا اور حکومت  اس مسئلے کے بارے میں مکمل چپ سادھے ہوئے ہیں،عوام کو خود میڈیا کا کردار ادا کرنا ہو گا۔خبریں آ رہی ہیں کہ خیوص گاﺅں میں اس وقت تمام مکانات جلائے جا چکے ہیں اور شہداء کی تعداد پہلے سے زیادہ ہو چکی ہے،افغانستان سے القاعدہ اور طالبان کے مزید دہشت گرد وہاں جمع ہو رہے ہیں اور اس تمام صورت حال کو انتظامیہ خاموشی سے دیکھ رہی ہے،ایسا لگتا ہے کہ انتظامیہ نے دہشت گردوں کو فری ہینڈ دیا ہوا ہے کہ وہ جو چاہیں کر گذریں،میڈیا میں ابتک اس خبر کو ایک ہی رٹ پانی کے مسئلے پر دوقبائل جھگڑا قرار دیا جا رہا ہے،جبکہ بات پانی سے بڑھ کر خون اور آگ تک پہنچ چکی ہے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی شوریٰ عالی اور کابینہ کا مشترکہ اجلاس کل صبح ہونے جا رہا ہے۔
اس وقت ضروت اس امر کی ہے کہ دنیا کو حقیقت سے باخبر کیا جائے اور میڈیا کی سنسر اور خبر کی تحریف کا مقابلہ کیا جائے،تاکہ دہشت گرد وطن عزیز کے اس خطے پر قابض نہ ہوسکیں،دوسری طرف اس بات کی بھی سخت ضرورت ہے کہ انتظامیہ فورا اس آگ اور خون کے کھیل کو بجائے تماشائی بننے یا پھر دہشت گردوں کو سبز چراغ دیکھانے کے ختم کرے اور فورا دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرئے
ورنہ ملک بھر سے امن کے سفیر کو تعین شدہ وقت سے پہلے ہی مارچ کرنا پڑیگا۔

خبر کا کوڈ : 37367
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش