0
Thursday 8 May 2014 12:34

پاکستان کی طرف سے تنازعہ کشمیر پر لچک کی کوئی گنجائش موجود نہیں، پروفیسر امتیاز

پاکستان کی طرف سے تنازعہ کشمیر پر لچک کی کوئی گنجائش موجود نہیں، پروفیسر امتیاز
اسلام ٹائمز۔ کشمیری امریکن کونسل کے صدر پروفیسر ڈاکٹر امتیاز نے کہا ہے کہ مختلف انتظاموں میں بٹی ہوئی ریاست جموں و کشمیر ناقابل تقسیم وحدت ہے۔ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار ریاستی عوام کو ہے۔ ریاستی عوام کو نظرانداز کر کے تنازعہ کا کوئی بھی پائیدار حل تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ پروفیسر ڈاکٹر امتیاز گذشتہ روز یہاں کشمیر جرنلسٹس فورم کے نومنتخب عہدیداران کے استقبالیہ سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر کشمیری امریکن کونسل مشاورتی بورڈ کے چیئرمین سردار ذوالفقار، کل جماعتی حریت کانفرنس علی گیلانی گروپ کے رہنما غلام محمد صفی، ڈاکٹر ولید رسول بھی موجود تھے۔ کشمیر جرنلسٹس فورم کے نو منتخب عہدیداران کے استقبالیہ سے اعجاز عباسی، عابد خورشید نے بھی خطاب کیا۔

پروفیسر ڈاکٹر امتیاز اگرچہ پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں اور امریکہ کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں مائیکرو بیالوجی کے استاد ہیں۔ تاہم وہ تنازعہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں غیر معمولی طور پر متحرک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تنازعہ کشمیر کے سلسلے میں پاکستان کا کردار انتہائی اہم ہے پاکستان تنازعہ کا فریق بھی ہے اس لیے پاکستان کی ذمہ داریاں غیر معمولی ہیں۔ میرے خیال میں ان ذمہ داریوں کے تناظر میں پاکستان کی طرف سے تنازعہ کشمیر پر لچک کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ پاکستان اسلامی دنیا کی بڑی طاقت ہے جوہری قوت کی حامل ریاست ہے پاکستان اس خطے کا ایک اہم ملک ہے پاکستان کی قیادت مضبوط ہے اور یہ کہ پاکستان وسائل سے بھرا ہوا ملک ہے۔ چنانچہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں سب کچھ کر سکتا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت پاکستان کشمیریوں کی مشاورت سے بھرپور کشمیر پالیسی تشکیل دے۔ پہلے مرحلے میں اسلامی دنیا کو مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں متحرک کرے۔ دوسرے مرحلے میں عالمی برادری کو ہم نوا بنائے۔ 

انہوں نے کہا کہ پاکستان سے ہمارا جذباتی لگاؤ ہے آج سے تیس سال پہلے جب میں سری نگر میں ہوتا تھا ریڈیو پاکستان پر خبریں سنتے تھے۔ ریڈیو پاکستان پر پاکستان کی طرف سے کشمیریوں کی حمایت کے اعلان پر ایک خوشی ہوتی تھی۔ ہمیں احساس ہوتا تھا کہ ہماری پشت پر کوئی قوم کھڑی ہے۔ آج حالات زرا مختلف ہیں، یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق کام نہیں کیا جا سکتا، اس صورتحال سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔ 

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کے میڈیا نے مسئلہ کشمیر کو نظرانداز کر دیا ہے چھوٹے سے چھوٹے مسئلے پر حتی کہ کسی اداکار یا اداکارہ کے بیان پر بھی ٹیلی ویژن ٹاک شوز کروائے جاتے ہیں۔ اگر کسی چیز کا بلیک آؤٹ ہے تو وہ مسئلہ کشمیر ہے۔ بھارت میں کوئی فلم ریلیز ہوتی ہے تو ہیڈلائنز میں اس کا ذکر ضرور ہوتا ہے اور اگر سری نگر میں بھارت کے خلاف لاکھوں افراد سڑکوں پر ہوں تو ان کی پانچ سیکنڈ کی فوٹیج بھی نہیں دکھائی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا بہترین حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری میں ہے۔ رائے شماری میں ہر شخص کا ایک ووٹ گنتی ہو گا چاہے وہ شخص علی گیلانی ہو یا کوئی چھابڑی فروش۔ چنانچہ رائے شماری کی صورت میں حقیقی طور پر عوامی رائے کا اظہار ہو گا۔ 

ڈاکٹر امتیاز نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں کشمیری امریکن کونسل نے بیرونی دنیا میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے کام کیا ہے۔ یہ کشمیری امریکن کونسل کی کوششوں کا ہی نتیجہ تھا کہ گوتم نولکھا جیسے بھارتی دانشوروں نے امریکا آکر کشمیریوں کی وکالت کی۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری امریکن کونسل کے ایگزیکٹو ڈاکٹر غلام نبی فائی کا معاملہ حل ہو چکا ہے ان پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ڈاکٹر غلام نبی فائی کو ٹیکس کے معاملے کا سامنا تھا تاہم جب کیس عدالت میں آیا تو عدالت کا جج بھی کشمیر کاز کے سلسلے میں ڈاکٹر فائی کی خدمات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو گیا۔ جج نے کہا کہ ڈاکٹر فائی ایک بڑے کاز کے لیے کام کر رہے ہیں انہیں کشمیر کاز کے لیے مکمل آزادی ہے۔
خبر کا کوڈ : 380345
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش