0
Friday 9 May 2014 07:07

نائجیریا کی شدت پسند تنظیم بوکو حرام کیسے وجود میں آئی

نائجیریا کی شدت پسند تنظیم بوکو حرام کیسے وجود میں آئی
رپورٹ: ایس این حسینی 

افریقی ملک نائجیریا کی اسلامی شدت پسند تنظیم "بوکو حرام" کیسے وجود میں آئی، اور کس طرح ایک خطرناک شدت پسند تنظیم میں تبدیل ہو گئی۔ بوکو حرام سخت گیر نظریات کی حامل ایک افریقی تنظیم ہے جو مسلمانوں کو کسی بھی قسم کی مغربی طرز کی سیاسی یا معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے منع کرتی ہے۔ جس میں انتخابات میں حصہ لینا، ٹی شرٹس پہننا یا سیکولر اور مغربی طرز کی تعلیم حاصل کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ 

تاریخی پس منظر
تنظیم کے اس طرزِ عمل کی تاریخ ایک صدی سے بھی کچھ پرانی ہے۔ 19ویں صدی میں شمالی نائجیریا، نائجر اور جنوبی کیمرون پر سوکوٹو خلافت کی حکومت تھی۔ 1903ء میں برطانیہ نے سوکوٹو خلافت کو شکست دے کر ان علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ چنانچہ مغربی تعلیم کے خلاف اس طرح کی مہم اسی وقت سے جاری ہے۔ بہت سے مسلمان اپنے بچوں کو مغربی طرز کے سرکاری سکولوں میں نہیں بھیجتے۔ ان حالات میں ایک مذہبی عالم محمد یوسف نے نائجیریا کے شہر میدوگری میں 2002ء میں بوکو حرام کی بنیاد رکھی۔ جس کا مطلب ہے "مغربی تعلیم حرام"۔ انھوں نے ایک مسجد بنائی جسکے احاطے میں ایک مدرسہ بھی قائم کیا۔ نائجیریا اور ہمسایہ ممالک کے بہت سے غریب خاندانوں نے اپنے بچوں کو اس مدرسے میں بھیجنا شروع کردیا۔ 

بوکو حرام کے اھداف
بوکو حرام کی دلچسپی صرف تعلیم تک محدود نہیں تھی۔ ان کا سیاسی ہدف ایک اسلامی ریاست کا قیام تھا اور یہ مدرسہ حکومت کے خلاف لڑنے کے لئے جہادیوں کو بھرتی کرنے کا مرکز بن گیا۔ 2009ء میں بوکو حرام نے میدوگری میں پولیس اسٹیشنوں اور سرکاری عمارتوں پر حملے کئے اور اس شہر میں ہنگامے ہونے لگے۔ جس میں بوکو حرام کے بھی سینکڑوں حمایتی ہلاک ہوئے جبکہ ہزاروں افراد شہر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ بوکو حرام تنظیم نے چھوٹے پیمانے پر اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا جس میں حملے کرکے فرار ہونا شامل تھا۔ اپنے مخالفین کو سفاک انداز میں قتل کرنے کی زیادہ تر کارروائیوں میں موٹر سائیکل کا استعمال کیا جاتا تھا۔ ان کارروائیوں میں ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر نمایاں اسلامی رہنما شامل تھے۔

جب یہ گروپ زیادہ بےخوف ہوا تو اس نے گرجا گھروں، پولیس، فوج اور نیم فوجی دستوں سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر حملے کرنا شروع کر دیئے۔ اسی طرح بعد میں اس نے نائجیریا کے دارالحکومت ابوجا میں اقوام متحدہ کے دفتر اور وفاقی پولیس کے مرکزی دفتر کو نشانہ بنایا۔ بوکو حرام تنظیم نے شمالی نائجیریا میں پولیس کے متعدد تھانوں اور فوجی بیرکوں پر حملے کئے اور وہاں سے ہتھیار، گاڑیاں اور وردیاں لوٹ کر لے گئے۔ لوٹی گئیں گاڑیوں اور وردیوں سے اس کے کارکنوں نے بھیس بدل کر اور زیادہ تباہی پھیلائی۔ اس کے علاوہ انھوں نے کئی بینکوں پر حملے کئے اور ان میں سے بعض دن دیہاڑے کئے گئے۔ کئی بینکوں سے لاکھوں نائرا (مقامی کرنسی) لوٹے جانے کی اطلاعات بھی ملیں۔ 

بوکو حرام کے خلاف سویلین فورس کا قیام
اس کے بعد فوج نے مقامی نوجوانوں کی مدد سے میدوگری کے علاقے سے بوکو حرام کی محفوظ پناہ کو ختم کر دیا۔ نوجوانوں کی اس مقبول ٹیم کو اب سویلین جوائنٹ فورس کہا جاتا ہے۔ بوکو حرام نے اس نقصان کے بعد مسلمانوں اور عیسائیوں سمیت عام شہریوں کو نقصان پہنچانے پر توجہ مرکوز کرلی۔ اس نے کئی دیہاتوں کو نذرِ آتش کر دیا اور اس میں 15 سو کے قریب لوگ مارے گئے۔ بوکو حرام کے جنگجو اس سال اپنی کارروائیوں میں سینکڑوں افراد کو ہلاک کر چکے ہیں، اس کے علاوہ ان حملوں میں سکولوں کو بھی نشانہ بنایا گیا لیکن ان حملوں میں صرف طلبہ کو ہلاک کیا جاتا اور طالبات کو چھوڑ دیا جاتا تھا، لیکن اب حال ہی بوکو حرام نے طالبات کو اغواء کرنا شروع کر دیا ہے۔ شاید اس تنظیم کے ارکان کو اندازہ نہیں تھا کہ دنیا اس کو کس انداز سے دیکھ رہی ہے اور یہ کہ طالبات کے اغواء پر اس قدر شدید بین الاقوامی ردِعمل آئے گا۔ تاہم ابھی تک نائجیریا کی حکومت ان طالبات کو تلاش نہیں کر سکی ہے۔ اس سے پہلے تنظیم کے رہنماؤں نے حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے ان کی خواتین کو بغیر عدالتی کارروائی کے قید کر رکھا ہے۔ 

محمد یوسف کی ہلاکت اور تنظیم کے خاتمے کا اعلان
حکومتی فورسز نے بالآخر بوکو حرام کے مرکزی دفاتر پر قبضہ کرکے اس کے جنگجوؤں کو گرفتار کر لیا، جبکہ محمد یوسف ہلاک کر دیا گیا۔ اس موقعے پر حکومت نے بوکو حرام کے خاتمے کا بھی اعلان کر دیا لیکن بوکو حرام کے جنگجو جلد ہی ایک نئے سربراہ ابوبکر شیکاؤ کے جھنڈے تلے اکٹھے ہو گئے۔ 2010ء میں انھوں نے میدو گری میں ایک سرکاری جیل پر حملہ کر کے اپنے سینکڑوں ساتھیوں کو رہا کروا لیا۔ ابوبکر شیکاؤ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک تنہائی پسند اور بے رحم انسان ہے اور پیچیدہ شخصیت کا مالک ہے۔ گذشتہ دنوں طالبات کے اغواء کے بعد ابوبکر شیکاؤ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بھیجی جانے والی ایک ویڈیو میں سینکڑوں طالبات کو اغواء کرنے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد یہ اصرار کیا تھا کہ لڑکیوں کو سکول جانا ہی نہیں چاہیئے، بلکہ سکول بھیجنے کی بجائے ان کی شادیاں کروا دینی چاہیئیں۔
خبر کا کوڈ : 380677
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش