0
Saturday 31 May 2014 10:33

سعودی عرب میں اہل تشیع کیخلاف امتیازی سلوک اور آزادی اظہار پر پابندیوں کے متعلق بی بی سی کی رپورٹ

سعودی عرب میں اہل تشیع کیخلاف امتیازی سلوک اور آزادی اظہار پر پابندیوں کے متعلق بی بی سی کی رپورٹ
اسلام ٹائمز۔ برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کےساحلی مشرقی صوبے میں شیعہ اکثریت میں ہیں، جو سال 2011 سے اصلاحات کے لیے احتجاج کر رہے ہیں، جس کے خلاف سعودی حکام کی کارروائیاں جاری ہیں لیکن سعودی ذرائع ابلاغ میں اس احتجاج اور مظاہروں کی خبریں شائع نہیں ہوتیں۔ سعودی صحافی صفا الاحمد نے قطیف کے لوگوں سے مخفی طور پر بات کی، جو حکومت کو مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔ سعودی صحافی نے بتایا کہ قطیف کے لوگوں کا کہنا تھا کہ انھیں ملک کے وہابی حکمرانوں کی طرف سے فرقہ وارانہ امتیاز کا سامنا ہے، علاقے کے قدرتی وسائل سے پیدا ہونے والی دولت کا فائدہ بھی انھیں کم پہنچتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق حکومت مخالف مظاہرین کو مقدمہ چلائے بغیر کئی برسوں تک قید میں رکھا جاتا ہے۔ سعودی سکیورٹی فورسز کی طرف سے احتجاجی لہر کو دبانے کے لیے گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے، مگر یہ احتجاج ختم نہیں ہوا، تین سال گزر جانے کے بعد علاقے میں ہر طرف چوکیاں بنی ہوئی ہیں۔

سعودی صحافی صفا الاحمد کہتی ہیں کہ اس کے باوجود کہ میں سعودی تھی، لیکن میرے لیے کیمرہ لے کر گھومنا پھرنا مشکل تھا اور مجھے گرفتار بھی کیا جا سکتا تھا۔ میں جاننا چاہتی تھی کہ احتجاج کرنے والے کیوں اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ میں نے چند نوجوانوں کو ڈھونڈا، جو انٹرویو دینے پر تیار ہو گئے، لیکن انھیں ڈر تھا کہ کہیں انہیں شناخت نہ کر لیا جائے اس لیے ان کی خواہش تھی کہ ان کی آوازیں بدل دی جائیں۔ ان نوجوانوں کے مطابق انکی آبادی سو سال سے قطیف میں پسماندگی کا شکار ہے۔ نوجوانوں کا کہنا تھا، یہ حقیقت ہے کہ یہ قدرتی دولت سے مالامال علاقہ ہے، دنیا میں تیل کا سب سے بڑا کنواں قطیف میں ہے لیکن ہمیں کیا ملا؟ خستہ حال گھر؟ غربت؟ بھوک اور پسماندگی؟ علاقے کے لوگ ملک میں بڑی اصلاحات چاہتے ہیں۔ لیکن حکمران اصلاحات پر آمادہ نہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خلیجی ممالک میں ہونے والی شورشوں پر قریبی نظر رکھنے والے ٹوبی میتھیسن کہتے ہیں کہ سعودی عرب کا حکمراں خاندان یا صاحب اختیار افراد ملک میں سیاسی اصلاحات نہیں چاہتے اور اِس مسئلے سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہتے ہیں، اِس کا واحد ردِعمل بے حسی یا تشدد ہی ہو سکتا ہے، اگر آپ اصلاح پسند ہیں اور سعودی عرب رہتے ہیں تو حکومت کے خلاف آواز اُٹھانے کا اِس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔

یاد رہے کہ گذشتہ فروری میں مظاہرین کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں دو پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے تھے اور اب بعض علاقوں میں دونوں فریق مورچہ بند ہیں۔ شورش میں ہلاک ہونے والوں کے لیے عوامیہ قبرستان میں خصوصی پلاٹ مختص ہے۔ وڈیو رپورٹ میں دکھایا گیا ہے کہ قبرستان کی مختلف قبروں اور دیواروں پر علم لہر رہے ہیں، جن پر لبیک یاحسین علیہ السلام کی تحریرں درج ہیں۔ بی بی سی کے مطابق اِس معاملے پر سعودی حُکام کا انٹرویو یا تحریری بیان حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، جو اب تک کامیاب نہیں ہو سکی۔
خبر کا کوڈ : 387902
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش