0
Sunday 3 Aug 2014 14:57

اے جی سندھ میں 24 ارب کے میگا کرپشن اسکینڈل کا انکشاف

اے جی سندھ میں 24 ارب کے میگا کرپشن اسکینڈل کا انکشاف
رپورٹ: ایس زیڈ جعفری

اکاؤنٹنٹ جنرل (اے جی) سندھ میں 24 ارب کے میگا کرپشن اسکینڈل کا انکشاف ہوا ہے جبکہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے مطالبہ کیا ہے کہ چیئرمین نیب معاملے کا نوٹس لیں۔ تفصیلات کے مطابق ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے چیئرمین نیب کے نام خط میں درخواست کی ہے کہ اے جی سندھ میں مالی سال 2010ء، 2011ء، 2012ء اور 2013ء کے دوران مالی بے ضابطگیوں کے کیسز کا احتساب آرڈیننس 1999ء کے مطابق نوٹس لیا جائے اور مکمل رقم کی وصولی کے ساتھ ساتھ نیب افسروں سمیت ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے اپنے خط میں ایک شکایت کا حوالہ دیا جس میں نشاندہی کی گئی ہے کہ کنٹرولر جنرل اکاؤنٹس نے اے جی سندھ کے ڈی ڈی اوز کی جانب سے سال 2011ء میں 24.26 ارب روپے کے میگا کرپشن اسکینڈل کی نشاندہی کی، 2012ء، 2013ء میں بھی جعلی ادائیگیاں کی گئیں۔

اس کے علاوہ شہید پولیس اہلکاروں کی بیواؤں کو بھی 874 ملین روپے کی ادائیگیاں اکاؤنٹس کے ذریعے نہیں کی گئیں۔ شکایت کنندہ نے یہ بھی بتایا ہے کہ نیب سندھ اور اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان نے ذمے داروں کے خلاف بروقت کارروائی نہیں کی۔ ڈی اے او حیدرآباد کی جانب سے غیر قانونی ادائیگیوں کو ڈی جی آڈٹ سندھ نے بھی نظر انداز کیا۔ ڈی اے او حیدرآباد کے سب اکاؤنٹنٹ علی حسن ابڑو نے نیب کے سامنے حلفیہ بیان دیا تھا کہ انھوں نے انکوائری اپنے حق میں کروانے کے لئے انکوائری کمیٹی کے کنوینر ساجد خان اور رکن شہزاد خان کو 40 لاکھ روپے رشوت دی تھی۔ نیب نے اس پر بھی کوئی کارروائی نہیں کی۔ شکایت کنندہ نے اے جی سندھ کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر نیب سندھ اور آڈیٹر جنرل پاکستان کو بھی ذمے دار ٹھہرایا ہے۔

شہید پولیس اہلکاروں کی 441 بیواؤں میں 20 لاکھ فی کس کے حساب سے 883.5 ملین روپے تقسیم کرنے کے لئے حکومتی ہدایت کے برخلاف ڈی ڈی اوز کو دے دیئے گئے جو کہ بیواؤں کے اکاؤنٹ میں منتقل ہونا تھے۔ بیواؤں کو 60 سال کی عمر تک تنخواہ بھی ملنی تھی، یہ تنخواہ بھی ڈی اے اوز کو دی گئی۔ سسٹم سے 128 کیسز کی تصدیق کی گئی۔ جس کے نتائج کے مطابق صرف 6 بیوہ تنخواہ وصول کر رہی تھی، 50 کیسز میں تنخواہ شہید کے اکاؤنٹ میں جمع کرا دی گئی، 64 کیسوں میں تنخواہ ڈی اے اوز کے ذریعے دی جا رہی تھی، 20 لاکھ کی امداد بھی ڈی اے اوز کے ذریعے دی گئی، بیواؤں کو رقم کی ادائیگی کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں تھا۔

گذشتہ 3 سالوں میں دھوکہ دہی کے حوالے سے انکوائری کی ایک اور رپورٹ بھی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کمپنیوں کو ملازمین کے اخراجات کی مد میں 52 ملین ادا کئے گئے۔ جس میں سے 1.8 ملین ایس اینڈ جی اے ڈی کی طرف سے غیر تصدیق شدہ چالانوں پر جمع کرائے گئے، یہ تمام چیزیں سینئیر آڈیٹر توفیق نے اے جیز کمیٹی کے سامنے پیش کیں، بقایاجات کی وصولی ابھی باقی ہے جبکہ ذمے داروں کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ مزید کہا گیا ہے کہ مشکوک ادائیگیوں کی تصدیق کے لئے تفصیلی انکوائری کی جاسکتی ہے تاکہ ذمے داروں کا تعین ہوسکے، مشکوک ادائیگیوں کے لئے جن ملازمین کا ایس اے پی آئی ڈی استعمال ہوا، ان کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے، ادائیگیاں ڈی ڈی اوز کے بجائے بینک اکاؤنٹس کے ذریعے کی جائیں۔ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ نیب افسروں نے سیکشن 25 وی آر کا غلط استعمال کیا، لہذا چیئرمین نیب تمام ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کریں۔
خبر کا کوڈ : 402763
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش