0
Sunday 12 Oct 2014 23:12
سابق چیف جسٹس نے جمہوریت اور آئین کی خلاف ورزیاں کی

بلوچستان میں منصوبے کے تحت کالعدم مذہبی تنظیموں کو تقویت دی جارہی ہے، عاصمہ جہانگیر

دہشتگردی کیوجہ سے شیعہ ہزارہ قوم کی بڑی تعداد نے ہجرت کی
بلوچستان میں منصوبے کے تحت کالعدم مذہبی تنظیموں کو تقویت دی جارہی ہے، عاصمہ جہانگیر
اسلام ٹائمز۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی رہنماؤں زہرہ یوسف اور عاصمہ جہانگیر سمیت دیگر نے بلوچستان میں صحت تعلیم اور معاشی سرگرمیوں کی صورتحال کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ صوبے میں کالعدم مذہبی تنظیمیں جڑ پکڑ رہی ہیں۔ بلوچستان علیحدگی پسندوں سے مذاکرات کرنے میں کوئی بیشرفت نہیں ہو سکی۔ بلوچستان میں امن و امان اور کرپشن سے متعلق مجموعی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ قوم پرستوں کے الیکشن میں حصہ لینا مثبت اقدام تھا لیکن جس طرح لوگوں کی توقعات تھی، بلوچ علیحدگی پسندوں سے مذاکرات کے بارے میں کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین مسئلہ ہے۔ اس میں کچھ کمی آئی ہے لیکن اب بھی لوگوں کی تشدد زدہ لاشیں مل رہی ہیں۔ گذشتہ پانچ سالوں کے دوران بلوچستان سے دو لاکھ شیعہ ہزارہ قوم کے افراد ایک لاکھ سٹیلرز اور دس ہزار ہندو برادری کے لوگوں نے ہجرت کی۔ بلوچستان میں کانکن غیر محفوظ حالات میں کام کررہے ہیں۔ سول سیکرٹریٹ میں صحافیوں کا داخلہ بند کیا گیا ہے۔ سول حکومت نے روزگار کی فراہمی کیلئے بھی کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔ وفاق بلوچستان کی ضرورت کو پوری کرے۔ اجتماعی قبروں کی صورتحال جاننے کیلئے قلات کے متاثرہ علاقے میں جانے کی اجازت انتظامیہ نے نہیں دی۔ غربت اور ماحول میں تناؤ کی وجہ سے لوگ خانہ جنگی کی طرف جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں گذشتہ دسمبر میں بلدیاتی انتخابات ہوئے مگر نظام اب تک فعال نہیں ہو سکا۔ اسے فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں ذکری فرقے کو ٹارگٹ کرنے کا نیا سلسلہ شروع ہوا۔ جو قابل تشویش ہے۔ 40 صحافیوں میں سے کسی ایک کا بھی قاتل پکڑا نہیں گیا ہے۔ ایک منصوبے کے تحت کالعدم مذہبی تنظیموں کو تقویت دی جا رہی ہے۔ عمران خان اگر افتخار چوہدری کے چیف جسٹس ہوتے ہوئے کلمہ حق بلند کرتے تو بہتر ہوتا لیکن اب الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ سابق چیف جسٹس نے جمہوریت اور آئین کی خلاف ورزیاں کی۔ جس کا اظہار ان کے چیف جسٹس کے دور میں بھی ہم نے کیا تھا۔ خضدار کے علاقے توتک جہاں پر مبینہ طور پر 40 کے قریب لاشیں ملنے کی اطلاع ملی تھی، ہم نے جانے کیلئے وزیراعلٰی بلوچستان، چیف سیکرٹری بلوچستان، ہوم سیکرٹری بلوچستان سے رابطہ قائم کیا۔ مگر ہمیں وہاں پر جانے نہیں دیا گیا اور جو رپورٹ جوڈیشل کمیشن نے پیش کی تھی ہم اس سے ابھی تک مطمئن نہیں کیونکہ آواران کے زلزلے میں جو افراد لاپتہ ہوئے تھے ان میں دو بھائیوں سمیت ایک شخص کی لاش توتک سے ملی تھی۔ بلوچستان سے نقل مکانی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ پانچ سالوں میں ایک لاکھ سے زیادہ سیٹلر نقل مکانی کرچکے ہیں۔ 10 ہزار سے زیادہ ہزارہ کمیونٹی بھی یہاں سے جا چکی ہے۔ نقل مکانی کرنیوالوں میں ایک سابقہ ایم پی اے بھی شامل ہے۔ تمام پارسی یہاں سے منتقل ہو چکے ہیں۔ صرف ایک سابقہ پارلیمنٹرین خورشید بروچہ یہاں پر موجود ہے۔ کرسچن بھی یہاں سے جا چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کرپشن بلوچستان میں ختم نہیں ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے مگر ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان ٹرانسفر پوسٹنگ چاہیئے۔ پولیس کے محکمے میں ہو یا کہیں اور مداخلت نہیں کرتے۔ یہ کہنا بھی قبل ازوقت ہوگا کہ ججوں کی تقرری میں بھی ان کا کوئی ہاتھ ہے یا نہیں۔ یہ نہیں کہا جا سکتا انہوں نے کہا کہ بیرون ملک جو افراد جنہیں قوم پرست کہا جاتا ہے، مقیم ہے۔ ان کے بارے میں بھی ہم نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ صورتحال ویسی کی ویسی ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ لوگوں کو اب بھی اٹھایا جا رہا ہے تاہم ان واقعات میں کمی ضرور ہوئی ہے۔ کیچ کے علاقے سے لوگوں کی نقل مکانی کے بارے میں ابھی تک ہمیں کوئی اطلاع نہیں ملی کہ وہاں سے کوئی گیا ہے یا نہیں تاہم ہماری کوشش تھی کہ ہم گورنر وزیراعلیٰ سے ملاقات کرے مگر دونوں سے ملاقات نہیں ہو سکی۔ شیعہ ہزارہ قوم زیادہ تر یہاں سے آسٹریلیا منتقل ہو چکی ہے کیونکہ خوف و ہراس کی جو بات ہے وہ ابھی تک برقرار ہے۔ ہم نے اپنے دورہ گذشتہ سال کے موقع پر بھی جو حکومت کو تجاویز دی تھی اور جن خدشات کا اظہار کیا تھا۔ اس پر افسوس ابھی تک ہے کیونکہ عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ کوئٹہ شہر اور اندرون بلوچستان میں ایف سی کا دباؤ کم ہوگیا ہے تاہم ابھی تک ایف سی بعض علاقوں میں موجود ہے اور بلوچستان ان کی گرفت میں ہے۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ دھرنوں سے جو نقصان ہوا ہے، اس کا ازالہ اتنی جلدی ممکن نہیں۔ یہ دیکھنا پڑے گا کہ دھرنا دینے کا مقصد کیا تھا۔ اس کے پیچھے کون لوگ تھے۔ عمران خان نے ججوں پر دھاندلی کا الزام لگایا اور جب عدالت میں وہ پیش ہوئے تو انہوں نے کہا کہ میں نے ججوں کے بارے میں نہیں کہا تھا بلکہ ان سے نچلے طبقے کے افسران کے بارے میں کہا تھا۔ اس موقع پر عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ جب میں نے سپریم کورٹ کے الیکشن میں حصہ لیا تو مجھے بھی ہرانے کی کوشش کی گئی۔ جو جج مجھے نہیں ہرا سکا وہ کیا کرسکتا ہے۔ اس وقت جو دھرنوں کا شور ہے، اس پر سنجیدگی سے ہمیں غور کرنا ہوگا کیونکہ جب تک ہم اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل نہیں کرینگے۔ اس پر بات نہیں کرینگے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک کی معیشت کو کافی نقصان پہنچا ہے۔
خبر کا کوڈ : 414344
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش