0
Thursday 23 Oct 2014 23:21

بلوچستان میں دہشتگرد دوبارہ منظم ہو گئے ہیں، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ

بلوچستان میں دہشتگرد دوبارہ منظم ہو گئے ہیں، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ
اسلام ٹائمز۔ بلوچستان کے وزیراعلٰی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے صوبے میں دہشتگردوں کے دوبارہ منظم ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشتگرد اب نئی تکنیک کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔ تاہم ہم نے بھی حکمت عملی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حالات پیچیدہ اور مشکل ضرور ہیں، ناراض بلوچوں سے رابطوں میں کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہوا۔ ہار ماننے والا نہیں، اپنی کوششیں جاری رکھوں گا۔ وفاقی حکومت کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ شیعہ ہزارہ قوم اور ایف سی کی گاڑی پر حملے سے متعلق کچھ سراغ ملا ہے۔ ملزمان جلد گرفتار کرلیں گے۔ مولانا فضل الرحمٰن کو مکمل سکیورٹی فراہم کی گئی تھی۔ کسی خطرے کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔ ہماری مخلوط حکومت نے صوبے میں امن یقینی بنانے کیلئے تمام صلاحیتیں بروئے کار لائی ہیں۔ دہشتگردوں کے خلاف وسیع پیمانے پر کارروائیاں کی گئیں اور بےشمار لوگوں کو پکڑا گیا۔ اب دہشتگردوں نے خود کو دوبارہ منظم کیا ہے اور نئی تکنیک کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔ ہم نے آج ہونے والے اجلاس میں اپنی حکمت عملی بھی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم مولانا فضل الرحمٰن پر حملے اور دہشت گردی کے دو دوسرے واقعات کی مذمت کرتے ہیں اور متاثرہ خاندانوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ ہم نے ضلع اور ڈویژن کی سطح پر نئی حکمت عملی ترتیب دی ہے اور دہشتگردوں کی نئی تکنیک اور محرم الحرام کو مدنظر رکھ کر سکیورٹی پلان بنایا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کو صوبائی حکومت کی طرف سے مکمل سکیورٹی فراہم کی گئی تھی۔ بلٹ پروف گاڑی بھی دی گئی تھی، جس کی وجہ سے وہ محفوظ رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن پر حملے کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔ شیعہ ہزارہ قوم کے لوگوں کو گذشتہ رات کو دھمکی ملی تھی، جس سے حکومت کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ انہیں پولیس کی سکیورٹی میں خریداری کیلئے لایا اور لے جایا جاتا تھا لیکن آج انہوں نے اپنی نقل و حرکت سے متعلق کوئی اطلاع نہیں دی تھی۔ ہم اپنی ذمہ داری پوری کرینگے۔ شیعہ ہزارہ قوم اور ایف سی کی گاڑی پر حملے سے متعلق کچھ سراغ ملا ہے، ملزمان کا تعاقب کیا جارہا ہے، جلد گرفتار کرلیا جائے گا۔ ساکران میں رحیم یار خان کے مزدوروں کے قتل کے دوسرے روز ہی متعدد ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا تھا اور بعض کا پیچھا کیا جارہا ہے۔ کوئٹہ، کیچ اور پنجگور کے سوا صوبے کے دیگر علاقوں میں معاملات بہتر ہیں۔ کوئٹہ میں نئی ٹیکنالوجی متعارف کروائی جارہی ہے، داخلی خارجی راستوں پر سی سی ٹی وی کیمرے اور جدید آلات نصب کرنے کا منصوبہ ہے۔

میں ذمہ دار شخص ہوں، بلیم گیم میں نہیں پڑنا چاہتا۔ تاہم بلوچستان میں بین الاقوامی عناصر اور مسائل بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں بین الاقوامی سیاست اور محاذ آرائی کا بڑا کردار ہے۔ حالات پیچیدہ اور مشکل ہیں۔ یہاں ناراض بلوچوں کے علاوہ فرقہ واریت کا بھی مسئلہ ہے۔ میں نے ناراض بلوچوں سے بھی رابطے کیے ہیں۔ جس میں کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہوا لیکن میں بھی ہار ماننے والا نہیں، اپنی کوششیں جاری رکھوں گا۔ میری سب سے درخواست ہے کہ بلوچستان میں خون خرابہ بہت ہو چکا ہے۔ لوگوں کو ترقی اور تعلیم کی ضرورت ہے۔ آئیں مل کر ملک کے آئین کے اندر رہ کر مسائل حل کریں۔ ہماری حکومت کے اٹھائے گئے اقدامات کے باعث صوبے کے تمام علاقوں میں بہتری آئی ہے۔ ٹارگٹ کلنگ اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی میں کمی آئی ہے۔ جو کچھ انسان کے بس میں ہوتا ہے وہ کیا جا رہا ہے۔ ہمیں اپنے عوام کو بندوق سے چھٹکارا دلانا ہے۔ مجھے وفاقی حکومت کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھرپور تعاون کررہے ہیں۔ حالات جلد بہتر ہو جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 416175
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش