0
Saturday 15 Nov 2014 00:53
موجودہ حکومت عوام کی نہیں بلکہ بیورو کریٹس کی ہے

کلیئر ہونیوالے علاقوں میں آئی ڈی پیز کی باعزت واپسی کا اہتمام کیا جائے، فاٹا اراکین پارلیمنٹ

فاٹا اصلاحات کمیشن میں فاٹا کے اراکین پارلیمنٹ کو نمائندگی دی جائے
کلیئر ہونیوالے علاقوں میں آئی ڈی پیز کی باعزت واپسی کا اہتمام کیا جائے، فاٹا اراکین پارلیمنٹ
اسلام ٹائمز۔ فاٹا کے ارکان پارلیمنٹ نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کہ اس وقت صرف شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کو ہی گنا جارہا ہے، چھ ایف آرز اور باقی چھ ایجنسیوں کے آئی ڈی پیز شامل کرکے یہ تعداد اکیس لاکھ بنتی ہے، جنہیں دربدر کردیا گیا ہے۔ ان اراکین پارلیمنٹ میں الحاج شاہ جی گل آفریدی، بلال الرحمن، ساجد حسین طوری، بسم اللہ خان، ناصر خان آفریدی اور ڈاکٹر جی جی جمال شامل تھے۔ قومی اسمبلی میں فاٹا ارکان کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر غازی گلاب جمال کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت عوام کی نہیں بلکہ بیورو کریٹس کی حکومت ہے، جس نے بجٹ میں پیسے رکھے بغیر فاٹا کے لیے بڑے بڑے منصوبے اعلان کرکے فاٹا کے عوام کو دھوکہ دیا ہے۔ آئی ڈی پیز کے لیے دیا جانے والا خوراک کا پیکیج ناکافی ہے بڑھایا جائے۔ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں و شدت پسندوں کے خلاف جاری آپریشن ضرب عضب کے متاثرین کی بحالی اور تعمیر نو پر عملدرآمد میں تاخیری حربے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ ملک کے قبائلی محافظوں اور ان کے اہل خانہ کو قطاروں میں لگا کر بھکاری بنا دیا گیا ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو پھر نئی نسل جو تحریک بن کر سامنے آئے گی، حکومت کنٹرول نہیں کرسکے گی۔ اس موقع پر دیگر اراکین نے کہا کہ فاٹا میں بحالی امن کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں۔ آئی ڈی پیز کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے اور تعمیر نو کروائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ شمالی علاقہ جات کے رہائشی مفت کے ریاستی محافظ ہیں جنہوں نے ملک اور عوام کی محبت اور حفاظت کیلئے اپنے آبائی علاقوں کو خالی کیا اور افواج پاکستان کو دہشت گردوں اور شدت پسندوں کو ختم کرنے کیلئے اپنے گھر بار چھوڑ کر موقع فراہم کیا۔

قبائلی محب وطن ہیں انہوں نے آج تک ملک و قوم کے خلاف کبھی کوئی بات نہیں کی۔ فاٹا کے حالات خراب کرنے میں بیرونی طاقتیں شامل ہیں۔ انفراسٹرکچر بالکل تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماسوائے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے کسی نے بھی قبائلی علاقہ جات کی تعمیرو ترقی پر کام نہیں کیا۔ ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ وہ فاٹا میں بحالی امن کیلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرے، جو علاقے کلیئر ہو چکے ہیں وہاں آئی ڈی پیز کی واپسی کیلئے باعزت انتظامات کئے جائیں۔ ان کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے۔ تقریباً ایک ہزار سے زائد تعلیمی ادارے تباہ ہو چکے ہیں ان کی بحالی کے اقدامات کئے جائیں۔ آرٹیکل 247 میں ترمیم کر کے قبائلیوں کے لئے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے دروازے کھولے جائیں۔ سرکاری ملازمتوں میں فاٹا کے عوام کا کوٹہ مختص کیا جائے۔ فاٹا سیکرٹریٹ میں فاٹا پارلیمنٹرینز کو اپنا کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ فاٹا کے عوام کیلئے میگا پراجیکٹس کو جلد از جلد مکمل کیا جائے۔ فاٹا کے طلباء کے لئے سکالر شپ کو جلد سے عملی جامعہ پہنایا جائے۔ یونیورسٹی اور کالجز میں سیٹیں بڑھائی جائیں۔ فاٹا میں جو سکیمیں رکی ہوئی ہیں انہیں جلد بحال کیا جائے۔ کیری لوگر بل میں فاٹا کے عوام کو پورا حصہ نہیں ملا، ان کا حصہ انہیں دیا جائے، فاٹا لنک روڈ کا منصوبہ ابھی تک سردخانے میں ہے اور فاٹا کے اندرونی روڈ پر بھی اب تک کوئی کام نہیں ہوا، اسے بھی جلد مکمل کیا جائے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جس علاقے کا اپنا منتخب کردہ چیف ایگزیکٹو نہ ہو، جس کے نمائندوں کو اصلاحات کمیشن میں نمائندگی نہ دی جائے، جس علاقے کے لوگ گھروں سے دربدر ہوں، وہاں کوئی باہر سے آکر کیا اصلاحات کرے گا۔ اس لیے ہم ایسی اصلاحات کو نہیں مانیں گے، جب تک تمام آئی ڈی پیز گھروں کو نہ جائیں اور امن قائم نہ ہوجائے اور انہیں اعتماد میں نہ لیا جائے۔ خیبر ایجنسی سے رکن پارلیمنٹ شاہ جی گل آفریدی نے کہا کہ حکومت کی غیر سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چین سے 43 ارب ڈالرکے معاہدے ہوئے ہیں مگر کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کے لیے کارخانے پنجاب میں لگائے جارہے ہیں حالانکہ کوئلہ فاٹا میں پیدا ہورہا ہے، جہاں ایک بھی منصوبہ نہیں لگایا جارہا ہے۔

خبر کا کوڈ : 419528
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش