0
Thursday 9 Apr 2015 16:50

مشرق وسطٰی کے حالات پر طائرانہ نظر (2)

مشرق وسطٰی کے حالات پر طائرانہ نظر (2)
تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن)


امریکیوں نے اسرائیل کی اس شکست پر پردہ ڈالنے اور مشرق وسطیٰ کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیائی اور وسطی ایشیائی ممالک پر بھی اپنی نظریں گاڑھ رکھی تھیں، جی ہاں میں افغانستان کی بات کر رہا ہوں کہ، سنہ2001 میں صیہونی لابی کے تیار کردہ ایک دہشت گردی کے منصوبہ پر عملدرآمد کیا گیا اور امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے جہاز ٹکرائے، جس کے بعد امریکہ نے بغیر سوچے سمجھے جیسے کہ پہلے سے ہی منصوبہ تیار تھا، اس دہشت گردی کا الزام افغانستان میں موجود ملا عمر کی طالبان حکومت پر عائد کر دیا اور مقصد یہ تھا کہ افغانستان میں براہ راست امریکی فوجی کارروائی کی جائے، تاکہ ایک طرف روس کی بڑھتی ہوئی قوت کو روکا جائے جسے پہلے انہی متحارب گروہوں طالبان سے لڑوا کر کمزور کیا گیا تھا، جبکہ اس حوالے سے امریکہ نے پاکستان کے ساتھ مل کر ان گروہوں کی مالی و مسلح معاونت میں کسی قسم کی کسر نہ چھوڑی تھی اور اب نائن الیون کے بعد تو امریکہ خود ہی اس سرزمین پر آ دھمکا، تاکہ افغانستان کے ساتھ دیگر وسطی ایشیائی ریاستوں کے وسائل تک مکمل رسائی ہو سکے جبکہ پڑوس میں موجود روس اور ایران پر بھی دھونس جمائی جا سکے۔ بہرحال یہاں بھی نتیجہ یہی نکلا کہ امریکہ کو ایک طویل مدت تک لڑائی کرنے کے باوجود وہ تمام مقاصد حاصل نہ ہو سکے، جن کے حصول کے لئے امریکہ نے خود نائن الیون جیسی دہشت گردانہ کاروائی کا اعادہ کیا تھا اور پھر افغانستان میں فوجی کاروائی کا آغاز کیا تھا۔ البتہ یہاں امریکہ کو سوائے نقصان کے اور کچھ نہ ملا۔

ایک طرف لبنان سے اسرائیلی افواج کا انخلاء اور افغانستان میں امریکی افواج کی کارروائی شروع ہوئی تو دوسری طرف امریکیوں نے کچھ عرصے بعد عراق میں اپنی فوجیں صرف اس مقصد کے لئے اتار دیں کہ وہاں پر خطرناک ہتھیار ہیں، جو پہلے ہی امریکیوں نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے امریکی حمایت یافتہ ڈکٹیٹر صدام حسین کو فراہم کئے تھے کہ جو اس نے سنہ1980-88 تک ایران پر مسلط کی جانے والی جنگ میں استعمال کئے تھے، اب انہی ہتھیاروں کو بہانہ بنا کر امریکہ عراق میں وارد ہوا تھا تاکہ خطے میں اپنا کنٹرول قائم رکھ سکے، کیونکہ عراق کی ایک زمینی سرحد شام سے ملتی ہے جبکہ دوسری سرحد پر ایران واقع ہے، تاہم امریکیوں کو طویل مدت تک یہاں رہنے کے بعد بالآخر یہاں سے فرار کرنا پڑا۔ یاد رہے کہ صدام نے ہی امریکی ایماء پر نہ صرف ایران پر جنگ مسلط کی بلکہ کویت پر بھی حملہ کیا تھا۔ یہاں یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہئیے کہ جب اسلام دشمن قوتوں امریکہ اور اس کے حواریوں نے افغانستان اور عراق پر بھی فوجی چڑھائی کی تو عرب ممالک کی وہ طاقتور ریاستیں جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں اور آج اپنی بادشاہتوں کی بقاء کے لئے مسلم ممالک پر براہ راست حملے کر رہی ہیں، اس وقت بھی خاموش تماشائی تھیں اور امریکیوں کے موقف کی حمایت کر رہی تھیں۔

ایک طرف تو یہ مشرق وسطٰی میں موجود عرب اور غیر عرب ریاستوں کی صورتحال یہ رہی کہ امریکیوں کو ان کے منصوبے خاک میں ملتے دکھائی دینے لگے جبکہ دوسری جانب عالمی استعماری قوتوں کو لبنان میں حزب اللہ کے ہاتھوں ہونے والی اسرائیلی شکست کا شدید دھچکا لگا اور ان مغربی استعماری ممالک کے حکمرانوں نے ٹھان لی کہ کسی نہ کسی طرح مشرق وسطیٰ پر اپنا تسلط قائم کیا جائے اور پھر نتیجہ یہی نکلا کہ امریکی و مغربی ممالک کی سرپرستی میں غاصب اسرائیلی افواج نے سنہ 2006 میں ایک مرتبہ پھر لبنان پر فوجی کارروائی کا آغاز کر دیا اور اس مرتبہ کونڈولیزا رائس جو امریکن وزیر خارجہ تھیں کا کہنا تھا کہ ہم مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدل کر رکھ دیں گے اور ایک نیا مشرق وسطیٰ تشکیل پائے گا، یہاں یہ بات بھی اذہان میں رہنی چاہئیے کہ غاصب اسرائیل سنہ 1948 میں ہی اپنے ناپاک وجود کے قیام کے ساتھ ہی اس بات کا عندیہ دے چکا تھا کہ صیہونی ریاست اسرائیل کی سرحدیں فلسطین تک محدود نہیں ہیں بلکہ نیل کے ساحل سے فرات تک یعنی اس پورے نقشے میں فلسطین، لبنان، شام، مصر، اردن، یمن، عراق، سعودی عربیہ تک ناجائز صیہونی اسرائیلی ریاست ہو گی، جسے گریٹر اسرائیل کہا جائے گا۔

امریکیوں نے سنہ 2006 میں اسرائیلی حملوں کی سرپرستی کرتے ہوئے اس جنگ کا نتیجہ نکالتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا کہ اب نیا مشرق وسطیٰ بن رہا ہے یعنی لبنان اسرائیل کے تسلط میں آ جائے گا اور پھر اس طرح مزید عرب ریاستوں کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیا جائے گا یا پھر وہاں پر اپنی مرضی کے حکمرانوں کو تعینات کیا جائے گا، جیسا کہ وہ خلیجی عرب ریاستوں میں کئی برس پہلے سے یہ کام انجام دے چکے تھے۔ ایک تدبیر شیطانی قوتوں نے کی تھی جبکہ ایک تدبیر الہیٰ تھی اور اللہ کا فیصلہ یہ تھا کہ یہ جنگ 33 روز تک جاری رہی اور حزب اللہ کے جوانوں نے غاصب اسرائیل کا ہر محاذ پر ڈٹ کر مقابلہ کیا، اپنی جانوں کا، اپنے گھروں کا، اپنے بچوں کی قربانی سے لے کر اپنی ہر عزیز چیز کو وطن کے دفاع کے لئے قربان کر دیا لیکن اسرائیلی افواج کو کامیاب نہیں ہونے دیا اور اس طرح 33 روز تک یہ جنگ جاری رہنے کے بعد آخر کار امریکہ نے مداخلت کر کے عالمی برادری کو ملوث کر کے اس لئے جنگ بندی کروائی کیونکہ اس جنگ میں غاصب اسرائیل کو شدید نقصان اٹھانا پڑا تھا، مقبوضہ فلسطینی یعنی غاصب اسرائیلی ریاست کے باشندوں کے لئے زمین پر رہنا ناممکن ہو چکا تھا اور وہ خوف کی وجہ سے زیر زمین بنے بنکروں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے، خلاصہ یہ کہ اس جنگ میں ایک مرتبہ پھر حزب اللہ ہی فاتح قرار پائی اور اسرائیل کو بدترین شکست کا سامنا رہا۔

یہاں ایک نقطہ ضرور یاد رکھنا چاہئیے کہ اس مرتبہ بھی مشرق وسطیٰ کی خلیجی عرب ریاستیں جو تیل کی دولت سے مالامال تھیں انہوں نے لبنان پر اسرائیلی حملوں کے جواب میں نہ تو لبنانی عرب عوام کی مدد کی بلکہ ان حملوں کو بھی جائز قرار دیتے رہے اور اسرائیلی حملوں میں قتل ہونے والے ہزاروں بے گناہ مسلمان عربوں کو یہ دہشت گرد کا لقب دیتے رہے جبکہ اسرائیل جس نے کھلم کھلا دہشت گردی کی تھی اس کے خلاف لب تک نہ ہلائے۔ یہ وہ دوسرا موقع تھا کہ جب دنیا کی نام نہاد سپرپاور امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل کہ جسے ناقابل تسخیر ہونے کا گھمنڈ تھا، بدترین شکست اور دنیا میں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا، امریکیوں کا مشرق وسطیٰ کو تبدیل کرنے کے لئے بنایاگیا نیا مشرق وسطیٰ کا منصوبہ اسرائیل کی شکست کے ساتھ ہی قبر میں دفن ہو چکا تھا۔

یہ ایسا وقت تھا کہ جب غاصب اسرائیل لبنان میں اپنی ذلت و رسوائی کا بدلہ لینا تو دور کی بات ہے اس بارے میں سوچنا بھی درکنار تھا، لہذٰا اس مرتبہ امریکی سرپرستی میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ فلسطین پر ایک اور جنگ مسلط کی جائے اور پھر سنہ 2008 میں غزہ پر اسرائیلی حملوں کا آغاز ہوا، جس طرح امریکیوں نے لبنان میں کوشش کی تھی کہ اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کو غیر مسلح کریں گے اور لبنان پر اپنا کنٹرول حاصل کر لیں گے اسی طرح اب ان کا ناپاک منصوبہ یہ تھا کہ غزہ کی پٹی جہاں پر اٹھارہ لاکھ فلسطینی آباد ہیں اور اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کا مرکز سمجھا جاتا ہے اس پورے علاقے پر اسرائیلی تسلط قائم کر لیا جائے. کیونکہ اس علاقے سے ملنے والی اگلی زمینی سرحد مصر کی ہے اور یہاں پر تو پہلے ہی ان کے من پسند حکمران یعنی حسنی مبارک موجود تھا۔ اس جنگ کا آغاز درج بالا عزائم اور ناپاک مقاصد کے حصول کے لئے کیا گیا تھا، تاہم غزہ میں جماس کی پائیدار استقامت اور جہادی مبارزہ کے باعث یہاں بھی 22 روز تک جنگ لڑنے کے بعد آخرکار صیہونی دشمن کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا اور جو ہدف وہ لے کر آئے تھے اس ہدف کے بغیر ہی پلٹ گئے۔ اب ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا تھا کہ جس میں اسرائیل کو شدید مزاحمت کاری کا سامنا تھا، اسرائیلی انتظامیہ سمجھتی تھی کہ جس طرح پہلے کی جنگوں میں کامیابی ملتی رہی شاید اب بھی اسی طرح ہو گا لیکن اب دنیا کی صورتحال سنہ 2000 کے واقعات سے بدل چکی تھی کہ جس میں حزب اللہ نے لبنان سے اسرائیلی تسلط کا خاتمہ کیا تھا۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 452879
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش