0
Sunday 31 May 2015 11:38
فوج، سیاستدان اور خفیہ ادارے سب غفلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں

فرقہ وارانہ دہشتگردی میں ملوث سعودی عرب کا نام لینے سے ہم ڈرتے ہیں، اراکین بلوچستان اسمبلی

شیعہ سنی فساد کروانے میں براہ راست سعودی عرب ملوث ہے، ایاز خان جوگیزئی
فرقہ وارانہ دہشتگردی میں ملوث سعودی عرب کا نام لینے سے ہم ڈرتے ہیں، اراکین بلوچستان اسمبلی
اسلام ٹائمز۔ اراکین بلوچستان اسمبلی نے مستونگ کے علاقے کھڈ کوچہ میں دہشتگردوں کے ہاتھوں بےگناہ انسانوں کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف بے رحمانہ آپریشن کرکے انہیں کیفر کردار تک پہنچائیں۔ یہ قوم پرست نہیں بلکہ پیٹ پرست ہیں۔ جو "راء" سے پیسے لے کر اس سرزمین کے بےگناہ لوگوں کو قتل کررہے ہیں۔ ایسے عناصر کو ناراض کہنے والا بھی غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ دہشت گردوں کو اب مزید بھاگنے نہیں دیں گے، انہیں سمندر میں ڈبو کر چین سے بیٹھیں گے۔ ان خیالات کا اظہار اراکین اسمبلی نے عبدالرحیم زیارتوال، شیخ جعفر خان مندوخیل، نواب محمد خان شاہوانی، آغا لیاقت علی، زمرک اچکزئی کی نمائندگی پر اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع کی جانب سے پیش کی گئی مذمتی قرارداد پر اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ بلوچستان اسمبلی نے مذمتی قرارداد اتفاق رائے سے منظور کرلی۔ پینل آف چیئرمین کے رکن زمرک اچکزئی نے واقعہ کے خلاف اور لواحقین سے اظہار یکجہتی کے لئے اسمبلی کا اجلاس سوگ میں ملتوی کردیا۔ مولانا عبدالواسع نے قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ 29 مئی کی شب مستونگ کے کھڈکوچہ کے مقام پر پشین سے کراچی جانے والی کراچی کوچز سے معصوم اور بےگناہ افراد کو اتار کر اغواء کرنے اور بعد میں شہید کرنے کی انتہائی مکروہ اور گھناونے عمل کی شدید مذمت اور متاثرہ خاندانوں کے ساتھ دلی تعزیت اور اظہار یکجہتی ہے۔ مذکورہ مکروہ عمل کو بلوچستان کے سیال و برادر کو لڑانے کی گہری سازش سمجھتے ہیں۔ بےگناہ افراد کے قتل کو بلوچستان کی اعلٰی قومی روایت، سماجی اقدار اور اسلامی تعلیمات سے بغاوت گردانتے ہیں۔ مطالبہ کرتے ہیں کہ سانحہ میں ملوث دہشت گردوں کو صوبے کے بہتر مفاد میں کیفر کردار تک پہنچانے کو یقینی بنایا جائے۔

پشتونخوامیپ کے رہنماء نواب ایاز خان جوگیزئی نے قرارداد پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آج میرے منہ سے خون کی بو آرہی ہے۔ پورا افغان خطہ ظلم بربریت کا شکار ہے۔ مساجد، مدارس، پہاڑوں، سکولوں، روڈوں سے پشتونوں کا خون، گوشت اور ہڈیاں نظر آرہی ہیں۔ پتہ نہیں پشتون قوم یہ وحشت کب تک برداشت کرے گی۔ بلوچ پشتون روایات میں خواتین اور بچوں کا بڑا احترام ہوتا ہے۔ خواتین اور بچوں پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا جاتا مگر ان وحشیوں نے بچوں کو بھی نہیں چھوڑا، دنیا ترقی کی جانب جبکہ ہم وحشت کی جانب جارہے ہیں۔ جن لوگوں نے ان وحشیوں کو پالا ان کے شر سے نہ صرف افغانستان برباد ہوا بلکہ اس وقت عرب دنیا بھی آگ کی لپیٹ میں آ چکی ہے۔ انڈیا ہمارا ازلی دشمن ہے، مگر سعودی عرب جو ہمارا دوست ہے، وہ کیا کررہا ہے۔؟ کوئٹہ میں شیعہ سنی قتل کون کروا رہا ہے۔؟ دہشت گرد تنظیموں کو کون پال رہا ہے۔؟ عراق اور لیبیا کی حکومتیں کس نے ختم کرائی۔؟ ان تمام دہشت گردوں کے پیچھے سعودی عرب کی فیکٹریوں میں رہنے والے لوگ ہیں۔ ہم خوف کے مارے سچ نہیں بول سکتے۔ جس دن ہم نے سچ بولنا شروع کیا اسی دن یہ ملک ٹھیک ہو جائے گا۔ ورنہ دشمن تو اپنا کام کرے گا لیکن ہمارے خفیہ ادارے کیا کررہی ہیں۔ بارڈر پر تو انہیں غریب لوگ نظر آتے ہیں لیکن اسلحہ سے بھری گاڑیاں انہیں نظر کیوں نہیں آتیں۔ جب تک ادارے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام نہیں کریں گے اس وقت تک حالات ٹھیک نہیں ہوں گے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ کیا خفیہ اداروں کا کام صرف یہ ہے کہ وہ عوام کی باتیں ٹائپ کیا کریں۔؟ ہم سب ملک کو تباہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ فوج، سیاستدان اور خفیہ ادارے غفلت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ ہم نے اپنی غلطیاں دور کرنا ہے جو راستہ آج اپنایا ہے یہ پاکستان کو لے ڈوبے گا۔

صوبائی وزیر قانون اطلاعات و پارلیمانی امور عبدالرحیم زیارتوال نے سانحہ کھڈکوچہ کو دہشت، وحشت، بربریت اور سفاکانہ واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بےگناہ مسافروں کو شہید کرنا انتہائی قابل مذمت ہے۔ ہم ان تمام خاندانوں جن کے لوگ اس سانحہ میں جاں بحق ہوئے ان کا پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، اے این پی، جمعیت علماء اسلام، مسلم لیگ، جمعیت نظریاتی اور دیگر جماعتوں کے دوستوں کے شکر گزار ہیں کہ جنہوں نے ایک مشکل وقت میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس وقت ہم انتہائی رنجیدہ ہیں لیکن لواحقین کے شکر گزار ہیں۔ جنہوں نے اس مشکل حالات کے باوجود ہم سب کو عزت دی غم زدہ خاندانوں سے یکجہتی کرتے ہیں۔ انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس واقعہ میں روایات کی بھی خلاف ورزی کی گئی۔ جس خطے میں ہم آباد ہیں یہاں پشتون اور بلوچ قوموں کی اپنی روایات ہیں۔ جو ان کی پاسداری کرتے آئے ہیں کسی بےگناہ یا کسی مظلوم پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا جاتا تھا۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم میں ہونے والی خون ریزی سے ہم نے کوئی سبق نہیں لیا۔ آج بھی کچھ لوگ جمہوریت کی بجائے کسی دوسرے طریقے سے معاشرے میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ ہم ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیں، مگر ہماری سیاسی جماعتوں نے آج جس طرح سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور اپنی ذمہ داریوں کو انجام دیا۔ اس پر ہم ایوان میں موجود تمام جماعتوں کو مبارکباد دیتے ہیں۔ اگر ہم اسی طرح سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے رہے تو ہم اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کو ناکام بنادیں گے۔ اگر آج سیاسی جماعتیں اپنا کردار ادا نہ کرتیں تو حالات نہ جانے کیا ہوتے۔ مگر سیاسی جماعتوں نے جس طرح سنجیدگی کا مظاہرہ کیا، اس کو کوئی کوریج نہیں دی گئی۔ ہمیں امن، امن اور امن کی ضرورت ہے۔ ہم دہشت، وحشت اور بربریت سے نفرت کرتے ہیں۔ کوئی کسی پر بندوق کے ذریعے اپنے نظریات نہ ٹھونسے، اس کے ماضی میں سب خطرناک نتائج دیکھ چکے ہیں۔

قرارداد پر اظہار خیال کرتے ہوئے جعفر خان مندوخیل نے کہا کہ مستونگ کا واقعہ بدترین دہشت گردی ہے۔ یہ لوگ قوم پرست نہیں بلکہ پیٹ پرست ہیں ایک قتل کی خاطر کروڑوں روپے وصول کرتے ہیں۔ یہ لوگ نہ قوم پرست اور نہ ہی ناراض ہیں بلکہ ان کو ناراض کہنے والے بھی غلطی پر ہیں۔ ناراض لوگ بےگناہ لوگوں کے باپ بیٹوں کو نہیں مارتے۔ یہ لوگ انڈیا سے پیسے لے کر کام کرتے ہیں۔ لندن اور سوئیزرلینڈ میں بیٹھ کر یہاں کے غریب لوگوں کو قتل کررہے ہیں۔ پتہ نہیں ان لوگوں کو 30 کروڑ ڈالر کہاں سے ملتے ہیں۔ انڈیا اقتصادی راہداری کی مخالفت کررہا ہے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے50 کروڑ ڈالر کی رقم خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ نواز شریف اور صوبائی قیادت نے اقتصادی روٹ کو پرانے روٹ پر بحال کرنیکا جو فیصلہ کیا ہے، وہ قابل قدر ہے۔ منصوبے کے خلاف عالمی طاقتیں یکجا ہورہی ہیں۔ اگر یہ روٹ کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے تو اس سے بلوچستان اور پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوں گے۔ اسلام، پاکستان اور بلوچستان کے دشمن اس منصوبے کو کامیاب نہیں ہونے دیکھنا چاہتے۔ موجودہ حکومت صوبے میں امن و امان کی قیام کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے۔ نواب محمد خان شاہوانی نے کہا کہ اس روٹ پر اس قسم کا یہ پہلا اور عجیب نوعیت کا واقعہ ہے۔ کوئی سوچ نہیں سکتا کہ اس طرح غریب مسافروں کو مار دیا جائے۔ مرنے والوں کی کسی سے دشمنی نہیں تھی۔ اس طرح کی حرکت کرنے والے بلوچ، مسلمان اور انسان کہلانے کے مستحق نہیں، انہوں نے حیوانوں سے بڑھ کر کام کیا ہے۔ ملک میں پیش آنے والے دیگر بڑے واقعات میں کھڈکوچہ کا واقعہ زیادہ سنگین ہے۔ دہشت گرد اگر اس طرح کی حرکتیں کریں گے تو انہیں کہیں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔

وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ بدقسمت بس پشین سے کراچی جارہی تھی کہ 9 بجے 30 منٹ پر کھڈکوچہ کے مقام پر انہیں روک کر مسافروں کو اغواء کیا گیا۔ جس کے بعد سکیورٹی فورسز حرکت میں آگئیں۔ اغواء کاروں نے مسافروں کو بس سے اتارنے کے تھوڑی دیر بعد ایک فرلانگ کے فاصلے پر انہیں شہید کیا۔ سب سے پہلے نواب محمد خان شاہوانی وہاں پہنچے جس کے بعد میں سرکاری عملے کے ہمراہ مستونگ پہنچا اور فوری طور پر ایف سی ہیڈ کوارٹر سے آپریشن کا منصوبہ ترتیب دیا گیا اور ہیلی کاپٹر کا بندوبست کیا گیا۔ صبح تک فائرنگ کے تبادلے میں 2 دہشت گرد ہلاک ہوئے تھے۔ 5 سو ایف سی اہلکار سرچ آپریشن کررہے ہیں۔ جنہیں 4 ہیلی کاپٹروں کی مدد حاصل ہے، 2 کیمپوں کا ہم نے محاصرہ کیا ہے۔ آخری اطلاعات آنے تک 5 دہشت گرد مارے گئے۔ واقعہ کے بعد حالات کو قابو میں لانے کے لئے اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع، زمرک اچکزئی اور عبدالرحیم زیارتوال کا کردار انتہائی شاندار رہا۔ جنہوں نے دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملایا اور برادر اقوام کو دست و گریباں ہونے سے بچایا۔ انہوں نے لواحقین کو بھی زبردست خراج تحسین پیش کیا کہ انہوں نے اس مشکل گھڑی میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ میرا شروع دن سے موقف تھا کہ اس صوبے میں کوئی ناراض نہیں۔ بلکہ دہشت گرد ہیں ہمارے اس موقف کو آج سارے پاکستان نے تسلیم کیا یہ "راء" فنڈڈ لوگ ہیں۔ میں افغان حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ پاکستان مخالفت دہشت گردوں اور "را" کے ایجنٹوں کو اپنی سرزمین استعمال کرنے سے روکیں۔ جس طرح وزیراعظم اور آرمی چیف نے مثبت پیغام دیا ہے اس کا اسی مناسبت سے جواب دیا جائے۔ یو بی اے زامران مری، بی ایل اے حیربیار مری کا گروپ اور بی آر اے براہمداغ بگٹی چلا رہے ہیں۔ یہ سارے لوگ یورپ میں بیٹھے ہیں۔ انڈیا کے ہسپتالوں میں ان کے بچوں کی ولادت ہوئی ہیں۔ "راء" سے رابطوں کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ بلوچستان حالت جنگ میں ہے۔ جتنا ظلم ہوگیا وہ ہو چکا ہے، اب مزید ظلم نہیں کرنے دیں گے اور نہ ہی ان کو بھاگنے دیا جائے گا۔ قوم پرستوں کا دعویٰ کرنے والے پیٹ پرست ہیں یہ نہ بلوچ ، نہ مسلمان اور نہ ہی پاکستانی ہیں۔ دہشت گردوں نے کسی پشتون کو نہیں بلکہ پاکستانیوں کو شہید کیا ہے۔

اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے قرارداد پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سمیت یہ پورے ایوان کی ذمہ داری ہے کہ ہم عوام کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنے کے لئے تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں۔ اسلام میں بھی امن کو ترجیح دی گئی ہے۔ سانحہ کھڈکوچہ انتہائی افسوسناک ہے۔ ہماری جماعت نے کئی بار اس جانب حکمرانوں کی توجہ مبذول کرائی تھی کہ عالمی کھیل کے تحت ہمارے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔ ہمارے حالات خراب کرنے کے لئے منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ بلوچ پشتون اقوام کو پہلے بھی لڑانے کی کوشش کی گئی۔ جن کو ان اقوام کے اکابرین نے ناکام بنایا تھا مگر پھر اس کے آثار نظر آرہے تھے۔ گزشتہ روز کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہوئے تھے، جس کے بعد مستونگ میں ہونے والے سانحہ نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ ہم اپوزیشن کا حصہ ہیں مگر امن و امان کے مسئلے پر تمام تر اختلافات بھلا کر ہم نے حکومت کا ساتھ دینے کا پہلے بھی اعلان کیا تھا۔ موجودہ حکومت بننے کے بعد آج پہلی مرتبہ وزیراعلٰی سیکرٹریٹ گیا کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مخالفت کا وقت نہیں اور نہ ہی اس موقع پر سیاسی نظریوں کو دیکھا جائے گا۔ ہم نے عوام کو امن دینا ہے اور اس سلسلے میں ہم نے ڈاکٹر مالک بلوچ سے پہلے بھی تعاون کیا۔ ہم ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے بھی شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اپنی سکیورٹی کو بالائے طاق رکھ کر ہمارے کہنے پر مظاہرین سے بات چیت کی۔ جب سے گوادر کاشغر روٹ کا منصوبہ شروع ہوا ہے تب سے یہ باتیں میڈیا میں آچکی تھیں کہ ہندوستان نے کوریڈور کو ناکام بنانے کے لئے 30 کروڑ ڈالر مختص کردیئے۔ ایک موقع پر احسن اقبال نے کوریڈور میں تبدیلی کی کوشش کی مگر ہم وزیراعظم اپنے قائد مولانا فضل الرحمٰن، اسفند یار ولی خان، محمود خان اچکزئی، حاصل خان بزنجو اور سراج الحق سمیت دیگر اکابرین کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے اس مسئلے پر اتفاق کا مظاہرہ کیا اور کوریڈور کو اس کی پرانی شکل میں بحال کیا۔ آج لواحقین سے جو وعدے کئے گئے ان پر جلد از جلد عمل درآمد کیا جائے۔

سردار عبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ واقعہ قابل مذمت ہے۔ بلوچستان میں رہنے والی اقوام ایک گلدستے کی مانند ہیں۔ گلدستے میں ہر پھول کی اپنی اہمیت ہے۔ کبھی ہم شیعہ، کبھی سنی تو کبھی بلوچ پشتون کے نام پر مار دیئے جاتے ہیں۔ گلدستے کو خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ خیر بخش مری کی زمینیں مجھ سے زیادہ نہیں لیکن میں اپنی زمینوں پر سالانہ گندم حاصل نہیں کرسکتا۔ بڑی جائیدادوں میں مہنگی گاڑیوں کا تصور نہیں کرسکتا لیکن ان دہشت گردوں کے پاس درجنوں کے حساب سے مہنگی گاڑیاں ہیں۔ ہم یہ پوچھ سکتے ہیں کہ انکے پاس یہ پیسے کہاں سے آئے۔ انہوں نے کہاکہ مذاکرات کی باتیں ہورہی ہیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ یہ لوگ مذاکرات کبھی نہیں کریں گے۔ ان کے ساتھ سخت زبان میں بات کی جائے۔ اگر وہ ایک شخص کو مارے گا تو ان کے دو لوگوں کو مار دیا جائے۔ قبائلی معاشرے میں بیلنس طاقت کے ذریعے ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ غریب بے گناہ لوگوں کو مارنا قوم پرستی نہیں۔ بلکہ پیٹ پرستی ہے بہت کچھ ہوگیا ہے۔ حکومت بھرپور بےرحم کاروائی اور آپریشن کا آغاز کرے۔ ہم قبائلی طور پر حکومت کے ساتھ ہیں۔ ان لوگوں سے ملاقات کرنے پر وقت ضائع نہ کیا جائے۔ یہ سرزمین اور بلوچ قوم کے خیر خواہ نہیں بیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں حکومت دہشت گردوں کا قلع قمع کرے میں اپنا علاقہ اور خدمات پیش کرنے کے لئے تیار ہوں۔ میرے حلقے میں روڈ پر کام کرنے والے 6 مزدوروں کو مارا گیا۔ میں نے قبائلی طور پر کاروائی کرکے ان کے 60 آدمی پکڑے ہیں۔ اگلے روز ایف سی ہیڈ کوارٹر سے فون آیا کہ ان کو چھوڑ دو ورنہ کاروائی کریں گے۔ میں نے سکیورٹی اداروں کے کہنے پر مذکورہ افراد کو چھوڑ دیا۔ ہم اس سرزمین کے مالک ہیں جس کا دفاع ہم پر فرض ہیں۔ حکومت ہماری سپورٹ کرے ہم اپنے علاقوں سے دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ کریں گے۔ انہوں نے خفیہ اداروں پر زور دیا کہ وہ دہشت گردوں کے پاس آنے والے اسلحہ اور ٹھکانوں کی نشاندہی کریں تاکہ حکومت بھرپور کاروائی عمل میں لائے۔

صوبائی وزیر صحت رحمت صالح بلوچ نے واقعہ کو قابل مذمت قرار دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کسی بھی شکل میں ہو قابل مذمت ہے۔ سانحہ مستونگ نوری نصیر خان اور احمد شاہ ابدالی کی دوستی اور ہر بلوچ پشتون گھر پر حملہ ہے۔ بزدلانہ کاروائی میں روایات کو بھی بھلادیا گیا۔ جس پر ہر شخص خون کے آنسو رو رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی ثمینہ خان کہا کہ صرف لواحقین سے یکجہتی کافی نہیں عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے اقدامات بھی کرنا ہوں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے جو ہمارے لوگوں کا خون کررہا ہے ہم نے اپنی سرزمین کا دفاع اور عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔ دہشتگردوں کے خلاف کاروائی وقت کی ضرورت ہے۔ غلام دستگیر بادینی نے سانحہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ میں ملوث لوگ انسان کہلانے کے مستحق نہیں صوبائی حکومت اور اپوزیشن خراج تحسین کے قابل ہیں کہ جنہوں نے اس مشکل میں اپنا کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان ہمارا گھر ہے اگر ایک گھر جلا تو پورا صوبہ جلے گا۔ ایک منصوبے کے تحت صوبے میں بیرونی قوتیں آگ اور خون کا کھیل کھیل رہی ہے۔ روایات کو پامال کیا جا رہا ہے۔ دہشتگردی کے خاتمے کے لئے پاک افغان سرحد کو دوستی گیٹ کے سوا سیل کردیا جائے۔ جمعیت علماء اسلام کی شاہدہ رؤف نے کہا کہ واقعہ پر ہم سب شرمندہ ہیں کہ ہم اپنے لوگوں کو نہیں بچا سکیں۔ عوام کو تحفظ فراہم کرنا صرف حکومت نہیں بلکہ اس ایوان کی تمام ارکان کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا نے انتہائی افسوسناک کردار ادا کیا۔ 25 افراد جاں بحق ہونے کی خبر کی صرف ٹکر چلاتے رہے اور باقی نشریات معمول کی مطابق چلتی رہی۔

نصراللہ زیرے نے کہا کہ اس واقعہ پر سب کے دل خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ آج سیاسی جماعتوں نے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہر کو بڑے سانحہ سے بچایا۔ جن لوگوں نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کی ہے وہ بتائیں کہ بےگناہ ان کی راہ میں کیا رکاوٹ تھے۔ کہ جن کو انہوں نے مارا اگر وہ آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں۔ تو ہمارے اکابرین نے بھی انگریز کے خلاف آزادی کی تحریک چلائی۔ جس میں ہزاروں لوگ شہید ہوئے۔ مگر ہمارے اکابرین نے تشدد کا راستہ نہیں اپنایا۔ بےگناہوں کو مارنے والوں کو دنیا کو جواب دینا ہوگا کہ انہوں نے بےگناہوں کو کیوں قتل کیا۔ پرنس احمد علی نے کہا کہ اس واقعہ کے بعد ہمیں اپنی پالیسیاں تقسیم کرکے سخت بنانا ہونگی۔ دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے قانون سازی کرنا ہوگی۔ اس سلسلے میں ہونے والی اے پی سی اور دہشت گردی سے متعلق اییکس کے نکات کو مضبوط بنانا ہوگا۔ یہ آزادی کے نعرے لگانے والے دہشتگردوں اور ملک کو کمزور کرنے والوں سے ہمیں آزادی حاصل کرنا ہوگی۔ ڈاکٹر رقیہ ہاشمی نے کہا کہ کسی کو الزام دینے سے کچھ نہیں ہوگا۔ ملک میں 18 انٹیلی جنس ایجنسیاں ہیں۔ وہ کیوں اطلاع دینے میں ناکام رہی ہیں۔ مضبوط نیٹ ورک کے باوجود تواتر کے ساتھ واقعات ہورہے ہیں۔ سکیورٹی ادارے صورتحال پر قابو پانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ ڈاکٹر شمع اسحاق نے کہا کہ دہشت گردی ایک تناور درخت بن چکی ہے۔ اب ہم حیران ہیں کہ اس درخت کے کس حصے کو کاٹ دیا جائے۔ کھڈکوچہ کا واقعہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی حکومت کے خلاف گہری سازش ہے۔ دہشت گردی سے معاشرے میں ترقی نہیں ہوگی، بلکہ بربادی آئے گی۔ اپوزیشن اور حکومت نے ایک پیکج پر ہو کر جو کردار اد ا کیا وہ قابل تحسین ہے۔
خبر کا کوڈ : 464208
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش