0
Thursday 12 Nov 2015 20:58

ٓآئینی حقوق کے تعین میں عوامی امنگوں کا خیال نہ رکھا گیا تو ہمارا ردعمل سخت ہوگا، ڈاکٹر کاظم سلیم

ٓآئینی حقوق کے تعین میں عوامی امنگوں کا خیال نہ رکھا گیا تو ہمارا ردعمل سخت ہوگا، ڈاکٹر کاظم سلیم
اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین بلتستان کے رہنماء ڈاکٹر کاظم سلیم نے کہا ہے کہ وزیراعلٰی سمیت کسی کے پاس بیس لاکھ عوام کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے اگر حکمرانوں میں اتفاق رائے قائم کرنے کی اہلیت نہیں استصواب رائے سے کام لیا جائے۔ یہ بات انہوں نے ایشین ہیومن رائٹس کے نمائندے ڈاکٹر ارسلان چوہدری سے گفتگو کرتے ہوئے کہی جنہوں نے اسلام آباد میں ان سے ملاقات کی۔ ڈاکٹر کاظم سلیم نے مزید کہا کہ گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت کا تعین کرنے کا اختیار یہاں کے بیس لاکھ عوام کے پاس ہے لہٰذا ایسے کسی بھی فیصلے کو یہاں کے عوام مسترد کریگی جو ان کے قومی مفاد اور امنگوں کے منافی ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے باشندے چاہے وہ جس علاقے یا مسلک سے تعلق رکھتے ہوں ہمارے لئے یکسان طور پر محترم ہیں اور اس حساس خطے کے اسٹیک ہولڈر ہونے کے ناطے ان سب کے نفع اور نقصان پورے خطے کا ہے، اس آئینی جنگ کو ہم سب نے ملکر لڑنا ہے اور یہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈر کو ایک میز پر بیٹھا کر قومی اتفاق رائے پیدا کرئے۔ اگر یہ کام حکمران نہیں کر سکتے تو پھر جمہوریت اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ آئینی حیثیت کے بارے میں ریفرنڈم کرایا جائے، عوامی امنگوں کے بغیر نہ تو پاکستانی حکومت کوئی فیصلہ ہمارے اپر مسلط کر سکتی ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ کے کسی فیصلے کو ہم مانتے ہیں۔ اقوام متحدہ اگر کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دے سکتا ہے تو یہ آئینی حق ہم سے کیسے چھین سکتا ہے؟ اس کے بغیر کوئی بھی غیر معقول فیصلہ اس حساس علاقے کی سالمیت کے خطرناک ہوگا۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مسلمان اور پاکستانی ہونے کی حیثیت سے کشمیریوں کی آزادی کی حمایت کرتے ہیں لیکن یہ کونسا انصاف ہے کہ کشمیریوں کے خاطر ایک اور قوم کو پیدائشی اور آئینی حقوق سے محروم رکھا جائے۔ اسلام آباد انتظامیہ کی غیر مناسب پالیسیوں کی وجہ سے یہاں کے باشندوں میں احساس محرومی روز بروز بڑھ رہی ہے جو کسی دن لاوے کی شکل اختیار کر سکتا ہے اس کے بعد کی حالات کو روکنا پھر کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔ ملک کے دیگر شورش زدہ علاقوں کے برخلاف گلگت بلتستان کی عوام ابھی تک الحاق کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں لیکن حکمرانوں کی یہی بے حسی برقرار رہی تو پھر لوگوں کے مطالبات بھی بدل سکتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا اگر آئینی حیثیت کے تعین کے سلسلے میں عوامی امنگوں کا خیال نہ رکھا گیا تو ہمارا رد عمل سخت ہوگا لہٰذا بہتر یہی ہے عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے عوامی جذبات اور احساسات کا خیال رکھا جائے۔
خبر کا کوڈ : 497395
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش