10
9
Monday 16 Jul 2018 20:02

عجب خیانت کی گجب کہانی

عجب خیانت کی گجب کہانی
تحریر: علی عباس

گذشتہ کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پر کالعدم تنظیموں کی مین اسٹریمنگ یا قومی دهارے میں لانے کے بارے میں کافی غوغا ہو رہا ہے۔ اس بارے میں ضد و نقیض خبریں اور وضاحتیں بهی دیکھنے میں آرہی ہیں اور ایسا ماحول بن چکا ہے جو مزید کنفیوژن کا باعث بن رہا ہے۔ ان تمام باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس اہم موضوع پر کچھ تحریر کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ سانحہ اے پی ایس پشاور کے بعد فوجی، سیاسی اور مذہبی  حلقوں میں تیزی کے ساتھ دہشتگردی، شدت پسندی اور فرقہ واریت کے خلاف ایک متفقہ بیانیہ اپنانے کی ضرورت محسوس کی گئی اور پاک فوج کی زیر نگرانی آل پارٹیز کانفرنس میں دسمبر 2014ء کو بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی گئی۔ اس خوبصورت پلان کے قابل عمل مسودے کے ساتویں، آٹهویں اور اٹهارویں نکات میں تحریر ہے کہ
 شق نمبر 7: کالعدم تنظیموں کو کسی دوسرے نام سے بھی کام کرنے سے روکا جائے گا۔
شق نمبر 8: مذہبی منافرت پھیلانے کے خلاف سخت اقدامات اور اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔
شق نمبر 18: فرقہ واریت پھیلانے والے عناصر کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جائے گی۔

اس نیشنل ایکشن پلان کے نتیجے میں حکومتی اور ریاستی اداروں کی جانب سے بلند و بانگ دعوے کئے گئے، جس کے بعد پاکستانی ستم دیدہ قوم خصوصاً ملت مظلوم تشیع نے سمجھا کہ اب کچھ  سکھ کا سانس لینا نصیب ہوگا اور یوں محسوس ہونے لگا کہ اب کالعدم تنظیموں کے دن گنے جا چکے ہیں۔ فرقہ واریت کے ماحول میں پلنے والی خون آشام چمگادڑوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جائے گا اور دہشت گردی کے شکار مظلوموں کو انصاف مل جائے گا۔ مگر مقتدر اداروں کے لئے ابهی اہلسنت والجماعت کی ضرورت باقی تهی، اس لئے ایک نیا نظریہ جنم دیا گیا جس کا نام رکها گیا:Project Mainstreaming the banned outfits"کالعدم تنظیموں کی قومی دهارے میں شمولیت" اس پلان میں پہلے مرحلے میں کم از کم تین جماعتوں کو چنا گیا، جن میں جیش محمد، جماعت الدعوہ اور سپاہ صحابہ شام ل ہیں۔ پہلے مرحلے میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کو ان جماعتوں کا مطالعہ اور ان کو ڈی ریڈیکلائزیشن کرنے کے لئے مناسب اقدامات انجام دینے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس سلسلے میں PIPS کی جانب سے ان شدت پسند جماعتوں کو قومی دهارے میں شامل کرنے کے لئے چند اجلاس بلوائے گئے، جن میں کچھ خفیہ تھے اور کچھ میں ذرائع ابلاغ کو شامل ہونے کی اجازت دی گئی۔ بیورکریسی کے کچھ حاضر سرویس اور ریٹائرڈ حلقوں کو اس مین اسٹریمنگ پروجیکٹ سے آشنا رکهنے کے لئے مختلف میٹنگز میں شامل کیا گیا۔

اس پورے پروجیکٹ کے بارے میں جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے 25 اکتوبر 2016ء والے دن ایک نجی ٹی وی چینل 24 نیوز کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اپریل 2016ء کے پہلے ہفتے میں ڈی جی آئی ایس آئی نے حکومت کو دو پلان دیئے، جس میں ایک پلان کے مطابق جماعت الدعوہ اور اسی طرح کے دیگر شدت پسند گروہ اور افراد کو قومی سیاسی دهارے میں لانے کے لئے ڈیڑھ سالہ منصوبہ بندی سے آگاہ کیا گیا جبکہ دوسرے پلان میں تشدد پسند گروہوں اور لشکروں کو ڈی ریڈیکلائز کرکے فوج اور رینجرز میں شامل کیا جانا ہے۔ یہ سارا پروجیکٹ اس وقت ہی کامیاب ہوسکتا تها، جب وفاقی حکومت نیکٹا ادارے کے ذریعے خفیہ ایجنسیز کی سفارشات مان لیتی اور اس مسودے پر دستخط کرکے اسے قانونی حیثیت دے دیتی، مگر میاں نواز شریف کی حکومت کوئی بهی ایسا ریسک جس سے انکی جانب سے عوام میں کالعدم جماعتوں کی حمایت کا تاثر جاتا، نہیں لینا چاہتی تهی۔ اس بات کا اظہار جنرل امجد شعیب بھی کرتے نظر آتے ہیں۔

مخالفت کی دوسری اہم وجہ جماعت الدعوہ بهی تهی، جو ملی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے الیکشن کمیشن سے رجسٹر ہو کر مسلم لیگ نون کا ووٹ توڑنے کی کوشش کر ررہی تھی، لہذا مسلم لیگ نون کی وفاقی اور پنجاب حکومت نے مقتدر اداروں کے اس پروجیکٹ کی مخالفت شروع کر دی اور پنجاب میں کالعدم جماعتوں پر دباو بڑهایا جانے لگا، جبکہ اس کے مقابلے میں باقی تمام صوبوں میں نیشنل ایکشن پلان، اوپر بتائے گئے نکات کے مطابق عمل درآمد کروانے والی ہر صوبے میں فعال ایپکس کمیٹیز کے باوجود بھی تکفیری سپاہ صحابہ کی قیادت کو کهل کهیلنے کا موقع دیا گیا، بلکہ یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ انکو ایک غیر رسمی سا اجازت نامہ بھی دے دیا گیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پنجاب میں تکفیری اہلسنت والجماعت کی نقل و حرکت اور جلسے جلوس انتہائی کم مقدار میں جبکہ اس کے برعکس خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان میں انکی فعالیت انتہائی زیادہ انجام پائی۔ اسی غیر رسمی اجازت کی وجہ سے پہلی دفعہ اہلسنت والجماعت کے راہنما خیبر پختونخوا خصوصا پشاور میں بلدیاتی انتخابات میں اہم کامیابی حاصل کرسکے۔ خیبر پختوانخوا کے ہزارہ ڈویژن، چار سدہ، مردان، پشاور اور کوہاٹ اضلاع میں، صوبہ سندھ میں خصوصاً کراچی، اندرون سندھ، خیرپور، لاڑکانہ، بدین، تهرپارکر وغیرہ جیسے علاقوں میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہے، جبکہ اس سے پہلے وہاں پر انکا کوئی نام و نشان تک نہیں تها۔

پروجیکٹ مین اسٹریمنگ کے تحت اہلسنت والجماعت کے علاوہ باقی دو جماعتوں یعنی جماعت الدعوہ کو مسلم لیگ کی قیادت اپنا سیاسی اور انتخابی حریف تصور کرتی تهی، اس لئے جماعت الدعوہ کے سیاسی ورژن ملی مسلم لیگ کو الیکشن کمیشن نے رجسٹر نہیں کیا جبکہ جیش محمد کو بین الاقوامی طور پر دہشت گرد جماعت قرار دیا جاتا رہا ہے اور اس وجہ سے ان دونوں جماعتوں کا مین اسٹریمنگ میں آنا کچھ عرصے کیلئے تاخیر کا شکار ہوگیا۔ اندازہ یہی کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں ان دونوں جماعتوں کو سیاسی میدان میں اپنی جگہ بنانے میں ابھی کچھ عرصہ درکار ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں جماعتیں مین اسٹریمنگ پر کافی نیچے چلی گئیں، جبکہ ان کے برعکس سپاہ صحابہ کی مخالفت صرف پاکستان کی عوام خصوصاً اہل تشیع کی طرف سے دیکھنے میں آئی ہے، جن کے بارے میں یہی تصور رہا ہے کہ انکی لیڈر شپ بعرض معذرت چند بکے ہوئے اور خوفزدہ خواص کے ہاتھ میں رہی ہے، جنہیں چند فون کالز کے دباو پر اور کالعدم ہو جانے کی دھمکی سے ہر کام پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔

لہذا تیسرے اور آخری مرحلے میں شیعہ قیادت جس میں شیعہ علماء کونسل کے سیکرٹری جنرل علامہ عارف واحدی، علامہ افتخار نقوی اور مجلس وحدت مسلمین کی شوریٰ عالی کے ممبر علامہ محمد امین شہیدی شامل تهے، کو مقتدر اداروں کی سربراہی میں اہلسنت والجماعت کی قیادت کے ساتھ مدعو کیا گیا اور اہلسنت والجماعت کو مین اسٹریم میں شامل کرنے والے اجلاس کا آخری مرحلہ شروع ہوا۔ یہ مرحلہ گذشتہ رمضان کے آخری عشرے میں اختتام پذیر ہوا۔ نواز شریف کی حکومت کے ختم ہوتے ہی مقتدر حلقوں کی جانب سے ملنے والی ہدایات کی روشنی میں نیکٹا نے پنجاب حکومت کو اہلسنت والجماعت کے سربراہ احمد لدهیانوی کو فورتھ شیڈول سے خارج کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ یوں احمد لدهیانوی فورتھ شیڈول سے نکل کر الیکشن میں حصہ لینے کیلئے اہل قرار دے دیا گیا۔

بعض اطلاعات کے مطابق نگران وفاقی حکومت کے زیر نظر ادارے نیکٹا کے کوارڈینیٹر ڈاکٹر سلمان کے دستخطوں کے ذریعے اہلسنت والجماعت سے پابندی اٹها لی گئی ہے، لیکن بہرحال ابهی تک اس بارے میں کوئی تصدیقی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا۔ یہ سارا عمل کئی افراد کی خیانتوں سے پردہ اٹهاتا ہے، جس کے بارے میں کبھی آئندہ مناسب وقت پر اظہار خیال کیا جائے گا۔ لیکن بہرحال یہ ایک اہم سوال ہے، جو ان قیادتوں کو مخاطب کرتا ہے کہ اس تکفیری سوچ کے باعث مارے گئے 18000 شیعہ مرد و خواتین اور ان بچوں کے بہائے جانے والے بے گناہ خون کے سلسلے میں خداوند متعال کے بعد اس مظلوم قوم کو جوابدہ ہیں اور اسی تفکر کے ساتھ آئندہ بہنے والا خون بھی ایسی قیادتوں کے دامن پر بدنما سرخ داغ کی صورت میں باقی رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
https://pakpips۔com/web/wp-content/uploads/2017/11/PB_CVE2_Reintegration_Militants۔pdf
http://tns۔thenews۔com۔pk/mainstreaming-militancy/
https://tribune۔com۔pk/story/1744294/1-govt-lifts-ban-aswj-unfreezes-assets-chief-ahmed-ludhianvi/?amp=1
خبر کا کوڈ : 738203
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

قاسم کربلائی
United Kingdom
پاکستان کی مظلوم ملت کے حالات و واقعات سے آگاهی کے لئے اسلام ٹائمز سے استفادہ کا موقع ملتا رهتا هے، مسئولین اسلام ٹائمز کو مبارک کہ وہ ٹهوس حقائق پر مشتمل تحاریر سامنے لاتا رهتا هے.
موجودہ تحریر بهی خفیہ حقائق سے پردہ آٹهاتی هے کہ کس طرح هماری قیادتیں انتهائی کم فوائد کی خاطر ملت کی قربانیوں کو پس پشت ڈال دیتی هیں.
Syed Mohammad Ali
Pakistan
انتھائی خوفناک انکشافات ہیں، ان پر مزید تحقیق ھونی چاہیے، ھم اسلام ٹائمز سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس موضوع سے متعلق آگاہی دیتا رھے گا اور ذمہ دارآن حضرات خصوصا جن کے نام لیے گئے ہیں ان کو اس کی وضاحت کرنی چاہیے۔
سید محمد علی حسینی، لاھور
Khan habib
Pakistan
NIce Article.
thanx to ali abass and also to Islamtimes urdu for sharing Such deep state army Generals planing against shias.
Nasir Abbas
Canada
اچھا آرٹیکل ہے، جو حقائق سے بھرپور بھی ہے۔ لیکن مصنف کو اس میں حوالے زیادہ دینے چاہیے تھے۔ دوسرا جو حوالے دییے گئے ہیں، وہ بھی انگلش لینگویج کی وجہ سے آگے پیچھے ہوگئے ہیں۔ مزید توجہ کی ضرورت ہے۔
syed mohsin raza
Iran, Islamic Republic of
سلام
میرا شیعہ قوم سے صرف ایک سوال
کیا ۱۸۰۰۰ شہیدوں کے خون کا سودا کرنے والوں سے کوئی امید رکھنی چاھہے یا جوانوں کو خود اٹھنا پڑے گا۔؟؟؟؟
France
واقعا عجب خیانت کی گجب کہانی ہے. اسلام ٹائمز اس طرح کے سلسلے کو جاری رکھے اور قوم کو حقائق سے آگاہ کرنے کا فریضہ انجام دیتا رہے
فرخ شیرازی
Singapore
پاکستان میں تشیع کے لیے مسائل کی آگاہی کے لیے عرصہ دراز سے اسلام ٹائمز کا خاموش ریڈر ہوں۔ اسلام ٹائمز نے ہر دور میں حق گوئی کا علم بلند رکھا اور ملت کے خلاف ہونے والی سازشوں کو بے نقاب کیا خواہ اس میں عالمی طاقتیں ملوث ہوں یا ملکی اور چاہے اس میں اپنے ہی بکاو قائدین ہوں۔ مذکورہ کالم جس میں تکفیری فکر کو حکومتی سرپرستی اور قائدین کی خامشی کا نوحہ لکھا گیا۔ کیا جواب دیں گے ہم ارواح شہدا کو; کہاں ہیں نام نہاد وارث شہداء;
کیا یہ امام عجل اللہ شریف سے کیے پیمان سے عہد شکنی نہیں، کیا ان میں اور خوفزدہ کوفیوں میں کوئی فرق ہے،
آج ہر شہید بزبان خموشی کہہ رہا ہے، ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے ہمارے مقصد کا کیا ہوا
میری استدعا ہے اس موضوع پر تفصیل سے لکھا جائ،ے تاکہ قوم جان سکے کہ کون ہیں انکے مجرم، کون ہیں انکے لہو کو بیچنے والے، کون ہیں جو انکی لاشوں پر کھڑے ہو کر اپنا قد اونچا کر رہے ہیں۔
farhan ali
Pakistan
acha arical hai laken hqayq say mawra lagta hai
iss main koi hawala naheen dia gia.
احمد سہیل
Pakistan
علی عباس اور اسلام ٹائمز کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے، جو اتنی اچھی معلومات فراہم کرتی ہے۔ یہ نام نہاد قائدین کی اصلیت دکھاتی تحریر بھی ہے, جنہوں نے ملت کے خون کا سودا کر دیا۔ اللہ پاک ملت مظلوم کو ان کے شر سے محفوظ رکھے۔ اسلام ٹائمز زندہ باد۔ احمد سہیل، لاہور
Ali hazara
United Kingdom
Salam.
Yeh khianat hai. Aur iss khianat main joo bee mlawas hai uss ka mahasba kia jay.
n
منتخب
ہماری پیشکش