0
Thursday 27 Sep 2018 19:05

حجاب کیخلاف مزاحمت کا بڑھنا لمحہ فکریہ ہے، جماعت اسلامی حلقہ خواتین

حجاب کیخلاف مزاحمت کا بڑھنا لمحہ فکریہ ہے، جماعت اسلامی حلقہ خواتین
اسلام ٹائمز۔ سیکرٹری جنرل حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان دردانہ صدیقی کے زیر صدارت حجاب کانفرنس فلیٹیز ہوٹل لاہور میں منعقد ہوئی۔حجاب کانفرنس میں ہونیوالے فورم ''لباس تہذیب کی علامت'' میں اہلیہ گورنر پنجاب بیگم پروین سرور چوہدری نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔ فورم میں ڈاکٹر فائزہ اصغر، ڈاکٹر ثمینہ کھوکھر، صبا صادق، عائشہ عثمان، عائشہ فہیم، پروین خان، طاہرہ یوسف، ڈاکٹر حمیرا طارق، ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، نبیرہ نعیمی، عائشہ بخش، مسرت مصباح اور ڈاکٹر امۃ اللہ زریں نے شرکت کی۔ ناظمہ ضلع لاہور حلقہ خواتین جماعت اسلامی زرافشاں فرحین نے کانفرنس کے آخر میں مشترکہ اعلامیہ پڑھا۔ اعلامیہ میں کہاگیا کہ ہر معاشرے کی تہذیب و تمدن، ان کی ترقی اور استحکام کا دارومدار اس کے نظریہ اقدار و روایات اور اس کے اہداف پر ہوتا ہے، یہی اقدار اس تہذیب کی شناخت ہوتی ہیں، اس شناخت کو برقرار رکھنے اور دوام قائم رکھنے میں اہم ترین کردار وہ ادارے ہیں جو معاشرے کی عمارت کو مضبوطی سے تھام کر ستون کا کردار ادا کرتے ہیں، عہد جدید میں معاشرتی، اخلاقی زوال پذیری، انتشار اور بگاڑ کا فروغ، تمام تر سائنسی ترقی اور معاشی فراوانی کے باوجود انسانیت کی تنزلی کا سب سے بڑا سبب ہی یہ ہے کہ معاشرے کے اہم کرداروں اور اداروں نے اپنی ذمہ داری سے تغافل اور اغراض برتنا شروع کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مغرب ہو یا مشرق ہر معاشرہ آج سکون کا متلاشی ہے اور اپنے گم شدہ عروج آدمیت کا طلبگار رہتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ترقی ہر دور میں اس قوم نے کی ہے جس نے اپنے کلیدی کردار کو نبھایا اور زوال اور تنزلی کے ایام میں بھی قوت کے آخری منبع و پناہ کو ہاتھ سے نہ جانے دیا اور اپنی اخلاقی، تہذیبی اور بالخصوص نظریاتی سرحدوں کو پامال نہ ہونے دیا۔ آج کی اقوام بالخصوص امت مسلمہ ایک فیصلہ کن دوراہے پر کھڑی ہے، ایک طرف مغربی تہذیب و ثقافت کا سیلاب ہے اور دوسری طرف قدامت اور روایت کے علمبردار حقیقی تقاضوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ماضی کے حصار میں مقید ہیں، یہ دونوں ہی راستے زندگی اور ترقی کے راستے ہیں۔ وقت کی ضرورت کو پیش نظر رکھتے مغلوبیت اور تہذیبی جنگ میں شکست سے بچنے کیلئے راستہ اگر کوئی ہے تو صرف اور صرف وہی راستہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول ؐ نے ہمارے لئے پسند فرمایا۔ موجودہ مغربی تہذیب نہ تو اخلاقی قدروں کی پرورش کرتی ہے نہ باوقار اسلوب حیات کو پروان چڑھاتی ہے، اس کے برعکس اسلام زندگی کے انفرادی اور اجتماعی تمام معاملات میں اخلاقی معیار قائم کرتا ہے اور لباس و انداز سے لے کر رسوم و رواج، اقدار و روایات اور قوانین اجتماعی کے ذریعے ایک ایسا پر امن، مہذب اور باوقار معاشرہ تشکیل دیتا ہے جہاں تحفظ ہے خوف نہیں، احترام و تقدس ہے ذلت و رسوائی نہیں، امن و سکون ہے انتشار و منافرت نہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسلام مرد اور عورت دونوں کے اخلاقی کردار کا تعین کرتا ہے، مسلم عورت کا کردار حتی کہ اسکے لباس کو بھی عزت و وقار کی علامت قرار دیتا ہے، گویا لباس تہذیب کی علامت بن کر مسلمان عورت کو راہ عزت و تقدیس عطا کرتا ہے جس کی مغربی تہذیب آزادی و حریت کے تمام دعوؤں کے باوجود مثال پیش نہیں کر سکتی ۔اپنے حیا دار لباس میں ملبوس مسلم عورت معاشرے میں امتیازی شخصیت کی حامل قرار پاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ معاشرے کی ایک مکمل رکن اور مکمل انسان کا رتبہ عملاً حاصل کرتی ہے۔ عورت مستور ہو جانے کے بعد معاشرے میں اپنی ذہنی و روحانی صلاحیتوں کیساتھ متعارف ہوتی ہے نہ کہ اپنی نسوانی دلکشی کے ساتھ، یوں گویا مسلم عورت ماڈل بن کر اشتہارات میں اپنی تقدیس و ناموس کا سودا کرنے پر مجبور نہیں ہوتی بلکہ ایک انسان کی حیثیت سے معاشرے میں اپنے وجود کو منوا کر مکمل آزادی حاصل کرتی ہے اور پورے وقار اور فخر کے ساتھ زندہ رہتی ہے، یہ مسلم نازک صنف جنسی استحصال کا شکار نہیں ہوتی۔ اپنے وجود سے محروم نہیں ہوتی، نو عمری میں قصور کی زینب کی طرح زندہ درگور نہیں ہوتی۔

اعلامیہ میں انہوں نے مزید کہا کہ دنیا کی ہر قوم ،ہر مذہب میں اشرافیہ کا ایک خاص لباس طے ہوتا ہے اور بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر قوم و مذہب میں یہ لباس فاخرانہ ساتر اور مکمل ہی باحجاب لباس اشرافیہ کی امتیازی پہچان ہوتا ہے، آج اگر حجاب کے دو گز کے ٹکڑے کے خلاف مزاحمت شدید تر ہوتی جا رہی ہے تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 752571
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش