0
Tuesday 2 Oct 2018 19:02

قرآن مجید روحانی اور جسمانی شِفا کا موجب ہے، علامہ ریاض نجفی

قرآن مجید روحانی اور جسمانی شِفا کا موجب ہے، علامہ ریاض نجفی
اسلام ٹائمز۔ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر علامہ حافظ ریاض حسین نجفی نے کہا ہے کہ قرآن مجید روحانی اور جسمانی شِفا کا موجب ہے، سورة کافرون کی برکات میں سے ذکر کیا گیا ہے کہ رات کو سونے سے پہلے اس سورة سمیت چاروں قل پڑھے جائیں تو سکون کی نیند آئے گی، سفر کے آغاز سے پہلے پڑھیں تو سفر بخیر ہوگا، مشہور مفسر فخرالدین رازی کا قول ہے کہ سورة ِ کافرون بہت سخت سورة ہے اس میں تاکید کے کئی کلمات ہیں۔ قرآن میں متعدد مقامات پر یہ مطالب بیان کیے گیے ہیں کہ راہِ ہدایت واضح ہونے کے بعد لوگوں کی یہ مرضی ہے اسے قبول کریں یا نہ کریں، دین اختیار کرنا انسان کا اختیاری معاملہ ہے لیکن صحیح دین پر نہ چلنے کی سزا ضرور بھگتنا ہوگی، اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں کو بہت زیادہ خطرات کا سامنا تھا اور کفار کی طرف سے انہیں سنگین دھمکیاں دی جاتی تھیں۔

علی مسجد جامعتہ المنتظر لاہور میں سورة مبارکہ الکافرون کی شانِ نزول بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کفار حضرت ابو طالب ؑ کے پاس آئے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی اسلام تبلیغ بارے شکایت کی اور پیش کش کی کہ اپنے بھتیجے کو اس کام سے روکیں، اگر انہیں مال، حکومت یا خوبصورت عورت چاہیے تو ہم دینے کو تیار ہیں، حضرت ابوطالب ؑنے کفار کا یہ پیغام رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو دیاجو انہوں نے مسترد فرما دیا، اس پر کفار نے تجویز دی کہ ایک سال آپ ہمارے خداﺅں کو مانیں اور اگلے سال ہم آپ کے خداﺅں کی عبادت کریں گے۔ بعض نئے مسلمانوں نے تو اس تجویز کو قبول کر لیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے اس سے انکار کیا اور اللہ کی طرف سے سورہ کافرون نازل ہوئی جس میں واضح کیا گیا کہ ہرگز ایسا نہیں ہو سکتا، اس کے بعد کفار نے ایک اور تجویز دی کہ آپ اس قرآن کو تبدیل کریں مگر آپ نے آیت ِ قرآنی کے ذریعے جواب دیا کہ مجھے اس میں اختیار نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اہل ایمان اللہ تعالیٰ پر اعتماد کرتے ہیں تو کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ابرھہ 60 ہزار کا لشکر لے کر مکہ پر حملہ آور ہوا جس میں 13 ہاتھی بھی تھے اور جس کی وجہ یہ تھی کہ عیسائیوں کو جلا دیا گیا تھا جس پر قیصر روم نے حبشہ کے بادشاہ کو عیسائیوں کی مدد کیلئے کہا۔ جب یہ لشکر مکہ کے قریب آیا تو لوگوں نے ان کا مقابلہ کرنے کی خواہش کی لیکن حضرت عبدالمطلب نے ان سے اختلاف کیا اور کہا کہ عورتوں بچوں کو پہاڑوں میں بھیج دیں۔ مسلمانوں نے پیشکش کی کہ ایک تہائی آمدنی دیں گے یہ علاقہ خالی کر دو مگر ابرھہ نہ مانا، حضرت عبدالمطلب نے اس سے کہا کہ میرے 2 سو اونٹ واپس کر دو کیونکہ میں نے حج کے موسم میں حاجیوں کو کھانا کھلانے کیلئے پال رکھے ہیں۔ اس کے بعد حضرت عبدالمطلب نے اللہ سے خاص الفاظ میں دعا مانگی اور اللہ پر توکل کا اظہار کیا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ دین ِ ابراہیمی پر قائم تھے۔ سید الانبیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے آباؤ اجداد دین ِ ابراہیمی پر عمل پیرا تھے۔
خبر کا کوڈ : 753499
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش