0
Wednesday 18 Dec 2019 11:53

قم، ہندوستانی طلباء کا آئین ہند کی حفاظت کا عہد اور شہریت ترمیمی بل کیخلاف بھرپور احتجاج

قم، ہندوستانی طلباء کا آئین ہند کی حفاظت کا عہد اور شہریت ترمیمی بل کیخلاف بھرپور احتجاج
رپورٹ: سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ علمیہ قم میں مقیم ہندوستان کے مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے طلباء  نے قم المقدسہ میں اپنے ملک کے تئیں اپنی وفاداری کو ثابت کرتے ہوئے زبردست احتجاج کیا ہے، موصولہ اطلاعات کے مطابق قم کے مدرسہ مرعشیہ میں طلاب ہندوستان کی جانب سے رکھے گئے احتجاجی جلسہ میں قم اور اس کے مضافات کے علاقوں میں رہائش پذیر طلباء نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور نماز مغربین کے بعد سے ہی مدرسہ مرعشیہ کے ہال میں لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے۔ جلسہ کا وقت آتے آتے ہال میں طلباء کی کثیر تعداد اکٹھا ہوچکی تھی۔ احتجاجی جلسہ کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا اور جب حوزہ علمیہ کے طالب علم و قاری حجۃ الاسلام سید جواد رضا رضوی نے اپنی دلنشین آواز میں تلاوت کلام پاک کا آغاز کیا تو پورے مجمع پر سکوت محض طاری تھا اور ہال مجمع سے کچھا کچھ بھر چکا تھا۔

تلاوت کلام اللہ کے بعد احتجاجی جلسے کے نظم و انصرام کی باگ ڈور ہاتھوں میں سنبھالے ہوئے جلسہ کے ناظم حجۃ الاسلام والمسلمین حیدر عباس رضوی نے مختصر طور پر جلسہ کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالی و بعدہ احتجاجی جلسہ کے پہلے مقرر ہندوستانی طلاب کے درمیان جانے مانے قلمکار و شاعر جواں سال، عالم  جناب حجۃ الاسلام والمسلمین عابد رضا رضوی نوشاد کو ڈائس پر آنے کی دعوت دی۔ عابد رضا رضوی نے اپنی پرمغز تقریر میں NRC اور CAA پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں قانون ملک کی سالمیت اور اتحاد کے لئے نقصان دہ ہیں اور شہریت ترمیمی قانون مکمل طور پر آئین ہند کے خلاف ہے۔ اس لئے کہ آئین ہند میں تمام مسالک و ادیان کے ماننے والوں کو حقوق میں برابری دی گئی ہے اور کسی قسم کی تبعیض روا نہیں رکھی گئی ہے۔ حجۃ الاسلام والمسلمین عابد رضا رضوی نوشاد نے مزید کہا: اگرچہ ان قوانین کا اصل نشانہ مسلمان ہیں، تاہم ہمارا ماننا ہے کہ یہ مسلمانوں پر نہیں بلکہ مکمل ہندوستان اور ہندوستانیوں پر حملہ ہے، جسے کسی صورت تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے کہ ہمیں اپنے ملک عزیز ہندوستان سے محبت ہے اور ہم اس کی سالمیت، خوشحالی اور اتحاد کے خواہاں اور محافظ ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ تمام جمہوریت نواز اور انصاف پسند شخصیات، تنظیمیں اور ملک بھر کا دانشور طبقہ اور یونیورسٹیز کے طلاب بلا تفریق مذہب و ملت اس آئین مخالف قانون کے مقابلہ میں صف بستہ نظر آرہے ہیں اور صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔ مولانا رضوی صاحب نے آخر تقریر میں اس بات کو بیان کیا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق مظلوم کی حمایت اور ظلم کی مخالفت ہمارا انسانی و اسلامی فریضہ ہے، لہذا ہم بھی صرف مسلمانوں کے حق کی بات نہیں کرتے بلکہ ان تمام قوموں کے حقوق کے مدافع ہیں، جو فاشیسٹ طاقتوں کے ظلم کا نشانہ ہیں، چاہے وہ دلت ہوں یا آدیواسی یا کوئی اور قوم۔ رضوی صاحب نے کہا کہ حکومت ہند سے ہمارا مطالبہ ہے کہ ہندوستان کے شہریوں کے تمام تر حقوق کو بغیر کسی جانبداری اور مذہبی تفریق کے تحفظ فراہم کرے اور آئین ہند کے وقار کو ملحوظ رکھے۔ رضوی صاحب کی تقریر میں بارہا جلسہ میں شریک طلاب و افاضل نے جذباتی نعرے لگاتے ہوئے اپنی حق پرستی و ملک دوستی کا اظہار کیا۔

حجۃ الاسلام والمسلمین عابد رضا رضوی نوشاد کی تقریر کے بعد ہندوستان کی سرزمین کے ممتاز دانشور و درد مند عالم و تجزیہ نگار حجۃ الاسلام والمسلمین جناب عاکف علی زیدی کو شہریت کے قانون کے ترمیمی بل کی تشریح و توضیح کے ساتھ اپنا نقطہ نظر رکھنے کی دعوت دی گئی اور جناب عاکف صاحب نے مختصر سے وقت میں نظر نہ آنے والے کئی اچھوتے پہلووں کو اجاگر کرتے ہوئے مختلف زاویوں سے اس بل کے پر روشنی ڈالی۔ زیدی صاحب نے تقریر کی تمہید میں 2014ء کے بعد سے سلسلہ وار طور پر ان مسائل کو بیان کیا، جو 2014ء کے الیکشن کے بعد سے ہی بے جے پی کے منشور میں شامل تھے۔ چنانچہ حکومت میں آتے ہی حکمراں جماعت نے اپنے کئے گئے وعدوں پر عمل کرنا شروع کر دیا تھا۔ زیدی صاحب نے بی جے پی کے  ایجنڈوں کو بیان کرتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ یوں تو اس سے قبل بھی یہ بل پاس ہوچکا تھا، مگر ایوان بالا میں اسے مکمل حمایت نہ مل سکی، جس کی وجہ سے اسکا نفاذ عمل میں نہ آسکا تھا۔ اس کے بعد س 2019ء میں ایک بار پھر یہ معاملہ انتخابی منشور کا حصہ بنا۔

 البتہ اس بار یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ این آر سی کو لانے سے پہلے ہم سی اے بی کو لے کر آ ئیں گے، تاکہ ان مشکلات سے بچ سکیں، جو آسام میں اس سے پہلے ہوئی تھیں اور جن کی بنیاد پر لاکھوں ہندووں کی ہندوستانی شہریت خطرے میں پڑ گئی تھی۔ عاکف زیدی صاحب نے مزید کہا کہ لوک سبھا کے دوسرے الیکشن میں گرچہ بے جے پی نے اس پر بہت زور نہیں دیا اور بات آسام و بنگال تک ہی محدود رہی، ہاں آسام میں یہ ضرور ہوا کہ 19 لاکھ شہری غیر قانونی قرار دیئے گئے، جس کی وجہ سے مسلمانوں اور دیگر مذاہب و ادیان کے ماننے والوں میں زبردست تشویش پیدا ہوئی، کیونکہ اس کام کے انجام دہی کے مراحل بہت اذیت ناک تھے، لہذا عام لوگوں کو بہت پریشانی اٹھانی پڑی، لوگوں پر ڈیپریشن طاری ہوا، کچھ لوگ مریض ہوئے، کچھ نے خودکشی کرلی، کئی خاندن این آر سی کی مار نہ جھیل کر برباد ہوگئے۔ اس کے بعد دسمبر  2019ء میں دوبارہ اس قانون کو پاس کرایا گیا۔

جناب عاکف صاحب نے اس قانون کا اجمالی جائزہ لیتے ہوئے اس بات کو بیان کیا کہ اگر ہم اس قانون کو دیکھیں تو اس کا مضمون یہ ہے کہ  ''اس قانون سے پہلے تک اگر کوئی ہندوستانی ہندوستان میں آکر ہندوستانی شہریت حاصل کرنا چاہتا تھا تو اسے گیارہ سال یہاں رکنا پڑتا تھا اور دوسری شرط یہ تھی کہ گیارہ سال کی مدت میں اس کی رہائش قانونی ہو، لیکن جو ترمیم ہوئی ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ گیارہ سال کا عرصہ چھ سال کا ہوگیا ہے اور یوں رہائش کے عرصے کو چھہ سال میں مختصر بنانے کی کوشش کی گئی ہے، تاکہ غیر مسلموں کو شہریت دینے کا کام اور بھی آسان ہوسکے۔ چنانچہ اس قانون میں ترمیم کے بعد وہ لوگ جو پاکستان، افغانستان و بنگلادیش کے پناہ گزین ہیں، اگر وہ مسلمان نہیں ہیں تو چاہے وہ غیر قانونی طور پر ہی کیوں نہ رہ رہے ہوں، انہیں شہریت دی جائے گی۔

زیدی صاحب نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اس قانون کے تحت جو چیز فوری طور پر عمل میں آئے گی، وہ 25 سے تیس ہزار تک کی تعداد کی شہریت کی منظوری ہے۔ البتہ یہاں بات صرف 25 سے 30 ہزار تارکین وطن کی نہیں، جنہیں ہندوستانی شہریت دی جائے گی، اگر بات صرف 25 سے 30 تیس ہزار لوگوں کو ہندوستانی شہریت کی ہوتی تو اس میں کوئی بڑی بات نہیں تھی اور کسی کو یہ محسوس بھی نہیں ہوتا اور جتنا ہنگامہ ہوا، اس کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ زیدی صاحب نے یہاں پر اس بل کے بعد جو کچھ ہنگامہ آرائی ہوئی، اس کی ایک اجمالی فہرست بتاتے ہوئے مزید کہا کہ شمال میں زبردست مظاہرے رہے، پھر بنگال میں مظاہرے ہوئے اور بل کے خلاف ریلیاں نکلیں اور گذشتہ جمعہ کے دن سے پھر آہستہ آہستہ مسلمانوں نے بھی کھل کر مخالفت کا اعلان کیا۔

وہ سڑکوں پر نکلے اور گذشتہ اتوار سے دیکھنے کو ملا کہ جامعہ ملیہ دہلی اور علی گڑھ میں طلباء کے احتجاج کو طاقت کے بل پر دبانے کی کوشش کی گئی۔ ان دو مقامات پر ہونے والی بربریت کی خلاف دیگر یونیورسٹیز و کالجز میں مظاہرے ہوئے اور وہ بھی ان جگہوں پر جہاں صرف مسلمان ہی مظاہروں میں شامل نہیں تھے بلکہ سبھی لوگ تھے۔ کیرل میں بھی مظاہرے ہوئے حجۃ الاسلام والمسلمین جناب عاکف زیدی  نے یہاں پر ایک اہم بات کی طرف توجہ دلائی کہ جہاں پر بھی بی جے پی کی حکومت نہیں ہے، وہاں ان مظاہروں میں تشدت آمیز واقعات نہیں دیکھنے کو مل رہے ہیں اور ان علاقوں میں ہونے والے مظاہرے پرامن ہیں، لیکن جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، وہاں پر تشدد ہو رہا ہے، اسی بات سے پتہ چلتا ہے کہ تشدد کا سورس اور سرچشمہ کیا ہے۔؟

زیدی صاحب نے ان مظاہروں کی نوعیت کے حوالے سے یہ بھی کہا کہ: صرف یہ مظاہرے ملکی پیمانے پر ہی نہیں ہوئے بلکہ عالمی پیمانے پر بھی یہ ردعمل دیکھنے کو آیا کہ مختلف ممالک کے عہدے داروں نے اپنے دوروں کو رد کر دیا، حتیٰ اقوام متحدہ میں بھی اس بل کو لیکر خدشات کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا ہے کہ اس طرح سے بہت سے لوگ کسی بھی ملک کے شہری نہیں رہیں گے اور یہ آج کے نظام کی بڑی مشکل بن جائے گی۔ کون سا ملک انہیں قبول کرے گا، کون انہیں شہریت دے گا،  بل کے بعد سے ہونے والے ردعمل کا اجمالی جائزہ لینے کے بعد جناب زیدی صاحب نے اپنی تقریر کے آخری حصہ میں کہا کہ اس ترمیمی قانون میں اگر 30 چالیس ہزار کو شہریت مل رہی ہے تو اتنی سی بات کو لیکر اتنے بڑے پیمانے پر ہنگامے کیوں ہیں، اس کو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ہندوستان کے شمال مشرقی علاقوں جیسے آسام میں تقریباً سو سال کی تاریخ ہے کہ وہاں دوسرے علاقوں سے دیگر ممالک کے لوگ آکر بس رہے ہیں اور ان کی ایک بڑی تعداد ہے۔ اسی بنا پر وہاں کی سیاست اسی مسئلہ کو لیکر گھوم رہی ہے، لہذا وہاں پر اونچی ذات کے ہندووں کو لگتا ہے کہ اس سے ان کے کلچر کو نقصان ہوگا اور یہ بات 30 چالیس ہزار لوگوں کی نہیں ہے بلکہ دیگر ممالک سے لوگ اور بھی آئیں گے، چونکہ ایک باب کھل جائے گا اور لوگ افغانستان و پاکستان و بنگلادیش سے یہاں داخل ہونا شروع ہونگے تو یہاں کے باشندوں کی تہذیب متاثر ہوگی۔ اس بل کی مسلمانوں کی جانب سے مخالفت کی وجہ بتاتے ہوئے عاکف زیدی صاحب نے بیان کیا کہ مسلمانوں پر اس کا زیادہ ہی اثر پڑے گا۔ اسی بنا پر مسلمان بھی مظاہرہ کر رہے ہیں اور ان مسلمانوں کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی ہیں، جو بی جے پی کی تفرقہ انگیز و نفرت پھیلانے والی سیاست کے خلاف ہیں، وہ بھی احتجاج و مظاہرے میں شریک ہیں۔

وہ لوگ بھی مسلمانوں کے ساتھ شامل ہیں، جو چاہتے ہیں کہ سارے مذاہب کے لوگ مل جل کر محبت و امان کے ساتھ رہیں۔ ایسے ہندو بھی شریک ہیں، جو بی جے پی کی سیاست کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ اس لئے کہ اس سے پہلے این آر سی کو بہت ہی دردناک انداز میں انجام دیا گیا تھا اور اب اندازہ ہے کہ پورے ملک میں اسے نافذ کیا جائے گا۔ اس بات کی وجہ سے اب ڈر ہے کہ سالہا سال ذلیل کرنے کے بعد ہزاروں اذیتیں پہنچانے کے بعد لوگوں کی شہریت کو منسوخ کیا جائے گا اور پھر غیر مسلمانوں کے لئے ایک راستہ کھول دیا جائے گا، جسے سی اے اے کہتے ہیں۔ اس کے ذریعے انہیں دوبارہ شہریت مل جائے گی۔ یہ راستہ صرف مسلمانوں کے لئے بند ہوگا، اب مسلمان یہ دیکھ رہے ہیں کہ انہیں ملک سے نکال باہر کیا جائے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی ایک بڑی تعداد کو بنائی ہوئی جیلوں میں ڈال دیا جائے یا کیمپوں میں ڈال دیا جائے گا، جہاں ان کی حیثیت غلاموں جیسی ہو گی۔

ممکن ہے کچھ لوگوں شہریت مل جائے، لیکن جنہیں شہریت ملے گی، انہیں بھی بڑی اذیتوں سے گزرنا پڑےگا اور اس کے ذریعے ایسے ظلم کی تاریخ رقم ہوگی، جس کے سامنے گجرات، بابری مسجد کے دنگے سب کے سب پیچھے رہ جائیں گے اور ایک افراتفری کا ماحول ہوگا۔ لہذا وہ ہندو بھی مسلمانوں کے ساتھ اتر آئے ہیں، جو انصاف پسند ہیں اور ملک سے محبت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک چھوٹی سی قانونی ترمیم کو لیکر اتنے وسیع پیمانے پر غم و غصے کا اظہار دیکھنے کو مل رہا ہے۔
اس تجزیاتی گفتگو کے بعد حجۃ الاسلام والمسلمین جناب مراد رضا رضوی جوشیلے انداز میں ملک میں ہونے والی سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے اس بات کو بیان کیا کہ ہم ہرگز اپنے خلاف ہونے والی سازشوں پر خاموش تماشائی نہیں بنے رہیں گے بلکہ اپنے حق کا دفاع کریں گے۔

حجۃ الاسلام والمسلمین مراد رضا نے اپنی تقریر میں کہا کہ آج قم کی سرزمین سے یہ پیغام جا رہا ہے کہ انسانیت کی حفاظت کے لیے قم کا حوزہ ہمیشہ میدان میں ہے۔ مظلوموں کی حمایت قم والوں کا پیغام ہے۔ انسانی اور اسلامی اتحاد پر زور دہتے ہوئے حجۃ الاسلام والمسلمین مراد رضا نے کہا ظالم حاکم زیادہ دن باقی نہیں رہتے. یہ بہانہ ہے، یہ بل مسلمانوں کے خلاف ہے، یہ بل اصل میں انسانیت کے خلاف ہے، یہ مذہب کے نام ہر ہندووں کے لباس میں ہندوستان کے امن و امان کو غارت کرنا چاہتے ہیں۔ لہذا ان ملک کے غداروں اور اسراییل کے اشاروں پر چلنے والے دہشت گرد ٹولے سے مقابلہ ضروری ہے۔ وزیر دفاع کو مخاطب کرتے ہوئے مراد رضا نے کہا کہ حکمراں جماعت میں ایک وہی سنجیدہ سمجھے جاتے ہیں، لیکن انہوں نے بھی اصول کا سودہ کرلیا ان کو معلوم ہونا چاہیئے کہ مسلمان ملک میں بھی قتل ہونے والے مذہب کے نام پر ہی قتل ہوئے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو بہانہ بنا کر یہ پوری قوم کو نیست و نابود کرنا چاہتے  ہیں۔ احتجاج اور قانونی چارہ جوئی کے ذریعے ان لوگوں کی دہشت گردی سے مقابلہ ضروری ہے، بس اتحاد ضروری ہے۔ اقلیتوں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیئے، اسے ان لوگوں کو حضرت علی علیہ السلام سے سیکھنا چاہیئے۔ علماء اور عمایدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان لوگوں کی چال کا پردہ فاش کریں، تاکہ ہمارے ہندو بھائیوں کو بھی معلوم ہو جائے کہ یہ انسانیت کے دشمن ہیں اور صہیونیوں کے ہاتھوں ہندوستان کو بیچنا چاہتے ہیں۔ جس حکومت کی پولس لائبریری میں بے دریغ حملہ کرے، وہ  درندہ ہے۔ اسے حکومت کرنے کا حق کہاں جو بیٹی کو بے دردی سے مارے، اس کا  بیٹی پڑھانے کا نعرہ جھوٹا ہے۔

آخری تقریر کے لئے ناظم جلسہ نے حجۃ الاسلام والمسلمین جناب رضا حیدر صاحب قبلہ کو دعوت سخن دی۔ حجۃ الاسلام والمسلمین جناب رضا حیدر نے بڑے ہی سنجیدہ و متین انداز میں اس بات کو بیان کیا کہ ہمیں حالات سے گھبرانے کی ضرورت نہیں بلکہ حالات کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا امام وقت ہمارے اعمال کا نگراں ہے۔ وہ ہمارا محافظ و نگہبان ہے، بس ہمیں اس کی راہ پر چلنا ہوگا۔ حجۃ الاسلام والمسلمین جناب رضا حیدر صاحب قبلہ نے شہریت ترمیم بل کے سلسلہ کے اس پہلو کی طرف اشارہ کیا کہ یہ وہ واقعہ ہے، جس سے الحمد للہ ایک بیداری آئی ہے  اور یہ آئین ہندوستان کو تباہ کرنے کی سازش ہے، مسلمانوں کے خلاف سازش ہے۔ لیکن کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم ہندوستان میں ڈر اور خوف سے رہیں گے، بلکہ ہم حق کا دفاع کرنا جانتے ہیں اور تمام انسانوں کے ساتھ اس مسئلہ میں بلا تفریق مذہب و ملت ہم شریک ہو کر مل جل کر احتجاج کریں گے۔

رضا حیدر صاحب نے دہلی میں جامعہ ملیہ میں پولیس کی بربریت کی مذمت کی اور علی گڑھ و جامعہ ملیہ کے زخمی طلاب کے حق میں دعاء کی اور کہا کہ ہم ان مظلوموں کے ساتھ ہیں۔ رضا حیدر صاحب نے واضح لفظوں میں اعلان کیا کہ ہم اس ملک کا ایک حصہ ہیں، ہم دشمنوں کو اپنی شہریت تشتری میں سجا کر ان کے حوالے اتنی آسانی سے تھوڑی کر دیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہم خدا کی ذات پر بھروسہ رکھیں اور سازشوں سے ہوشیار رہیں۔ ان شاء اللہ کامیابی ہماری ہوگی۔
پروگرام کے اختتام میں طلاب ہندوستان کی جانب سے میمورنڈم پیش کیا گیا، جسے حجۃ الاسلام والمسلمین جناب سید نجیب الحسن زیدی صاحب نے پڑھا اور حاضرین جلسہ نے نعرہ تکبیر کے ذریعے اس کی حمایت کا اعلان کیا۔ واضح رہے یہ میمورنڈم  تہران میں ہندوستان سفارت خانے کے ذریعے صدر جمہوریہ تک پہنچایا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 833493
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش