0
Friday 10 Jan 2020 18:58
شہید قاسم سلیمانی کے خون کا قصاص خطے سے مکمل امریکی انخلاء ہے

عین الاسد پر کارروائی پورے خطے میں ایک بڑے آپریشن کا آغاز ہے، ایرانی ایروسپیس فورس

عین الاسد پر کارروائی پورے خطے میں ایک بڑے آپریشن کا آغاز ہے، ایرانی ایروسپیس فورس
اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی ایروسپیس فورس کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہید سلیمانی آپریشن کے دوران خطے میں موجود امریکہ کی ایک اہم ترین ایئربیس پر کئے گئے میزائل حملے، پورے خطے میں ہونیوالے ایک بڑے آپریشن کا آغاز ہے۔ انہوں نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ہم ہلاکتیں نہیں چاہتے تھے، لیکن دشمن کی فوجی مشینری کو ضرور تباہ کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی پر حملہ امریکہ کی تاریخی اسٹریٹجک غلطی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ تمام ایرانی میزائل اپنے اہداف کے عین اوپر لگے ہیں، کہا کہ دلچسپ امر یہ ہے کہ ہمارے میزائلوں کے جواب میں امریکی ایک گولی بھی نہ چلا پائے، جبکہ اس ایئربیس پر ان کے پاس بہت بڑی تعداد میں ہوائی جہاز اور ہوائی دفاع کے مختلف سسٹمز موجود تھے۔

ایرانی ایروسپیس فورس کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے اس بات کے جواب میں کہ امریکیوں نے ایرانی حملے سے قبل اپنی ایئربیسز خالی کر رکھی تھیں، کہا کہ سپاہِ پاسداران کے اس آپریشن کے بعد عین الاسد نامی امریکی فوجی بیس سے C-130 ہوائی جہازوں کی 9 پروازیں ریکارڈ ہوئی ہیں، جو اردن اور اسرائیل تک گئی ہیں، جس کے تمام ثبوت بھی موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ امریکی چینوک ہیلی کاپٹرز کی بھی بہت زیادہ تعداد میں پروازیں ریکارڈ کی گئی ہیں، جو زخمی امریکی فوجیوں کو ہسپتالوں میں منتقل کرتے رہے۔ ایرانی ایروسپیس فورس کے کمانڈر نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ واشنگٹن کو بھاری جانی نقصان پہنچا ہے، جبکہ خود پینٹاگون اور امریکی وزارت دفاع نے بھی کہا تھا کہ وہ پہنچنے والے نقصان کا حساب اور ہلاک ہونیوالے امریکی فوجیوں کی گنتی میں مشغول ہیں۔

بریگیڈیئر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے کہا کہ اگر امریکی اپنے اس دعوے میں سچے ہیں کہ ان کا کوئی نقصان نہیں ہوا تو وہ صحافیوں کو عین الاسد ایئربیس میں داخلے کی اجازت کیوں نہیں دیتے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ امریکی ہمارے حملے کا جواب دینے کی سکّت نہیں رکھتے، کہا کہ امریکی اپنے اس جھوٹے دعوے سے ہمارے اقدام کا جواب نہ دے سکنے کی خفت مٹانا چاہتے ہیں، جبکہ پہلے وہی ہمیں دھمکا رہے تھے کہ وہ ایران کے 52 مقامات کو نشانہ بنائیں گے، لیکن ایسا نہیں کر پائے۔ انہوں نے کہا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے کسی نے امریکیوں پر حملہ نہیں کیا تھا جبکہ یہ فیصلہ جس پر ہمارے ملک میں اور اسلامی مزاحمتی محاذ کے اندر سب متفق تھے، نے اس بات کو ثابت کر دیا کہ "مارو اور بھاگ جاؤ" والا زمانہ اب ختم ہوچکا ہے۔

ایرانی ایروسیس فورس کے کمانڈر نے کہا کہ ہم نے کل 13 میزائل امریکی ایئربیس پر فائر کئے، تاہم امریکی جواب کی صورت میں سینکڑوں میزائل تیار حالت میں موجود تھے، جبکہ ہمارا خیال یہ تھا کہ یہ کارروائی 2 یا 3 روز جاری رہے گی جس کے لئے ہم نے مزید کئی ہزار میزائل آمادہ کر رکھے تھے۔ انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہ امریکی کیوں جواب دینے کی جرأت نہ کرسکے، کہا کہ وہ ہمیشہ پہلے سے ہارے ہوئے ملکوں کیخلاف اپنے پراپیگنڈے اور میڈیا وار کے ذریعے اپنے کارروائیاں آگے بڑھاتے ہیں، لیکن اسلامی جمہوریہ ایران جیسے بڑے اور طاقتور ملک کے سامنے وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایران کیخلاف وہ کارروائی کرنا چاہیں تو انہیں سینکڑوں مقامات کو نشانہ بنانا پڑے گا، جبکہ ایران کے اطراف میں موجود امریکی فوجی اڈے انتہائی محدود ہیں، جنکی تعداد 28 سے 30 ہے، جو ایسی جیلوں کی مانند ہیں جن میں امریکی فوجیوں کو ٹھونس دیا گیا ہو، تاہم ان میں سب سے بڑی عین الاسد ہی تھی، جسکا رقبہ 48 مربع کلومیٹر ہے۔ انہوں نے کہا کہ خطے میں موجود انکا تمام سرمایہ اور انسانی منابع مکمل طور پر مشخص ہیں، لہذا ہم محدود میزائل حملے میں ان سب کو تباہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔

بریگیڈیئر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے کہا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی کے خون کا قصاص خطے سے امریکی فوجیوں کا مکمل انخلاء ہے، جبکہ عین الاسد میں موجود امریکی فوجی اڈے کیخلاف یہ کارروائی اس عظیم آپریشن کی پہلی کڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت میں عین الاسد کیساتھ ساتھ بغداد کے قریب واقع التاجی، اردن کی امریکی بیس شہید موفق اور کویت کی امریکی بیس علی السالم بھی شریک تھیں، جبکہ انہی کی مدد کیساتھ جنرل قاسم سلیمانی کو شہید کرنے کا مشترکہ آپریشن اپنے انجام کو پہنچا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلے التاجی نامی امریکی فوجی اڈے کو نشانے پر لیا تھا، جو کاظمین اور بغداد سے نزدیک ہے، لیکن چونکہ کاظمین تک دھماکوں کی آواز پہنچنے اور پھر عراقی بھائیوں کی روزمرہ زندگی میں خلل آنے کا احتمال تھا، ہم نے عین الاسد کا انتخاب کر لیا، جو بغداد سے قدرے فاصلے پر موجود ہے۔

ایرانی ایروسپیس فورس کے کمانڈر نے کہا کہ عین الاسد جو بغداد سے 170 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے، امریکی جنگی مشین کا کمانڈ سنٹر ہی نہیں بلکہ ہر قسم کی فوجی کارروائی کا بیک اپ، امریکی ڈرونز، ہیلی کاپٹرز اور ہر قسم کی ہوائی جاسوسی کا اڈہ تھا جبکہ امریکی جواب کیلئے بھی ہم پوری طرح سے تیار تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس امریکی اڈے کو نشانہ بنانے کیلئے ہم نے فاتح 313 اور قیام میزائل استعمال کئے، جن کی رینج بالترتیب 500 و 700 کلومیٹر ہے، جن سے عین الاسد میں موجود تمام امریکی سرمایہ تباہ ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی ہیلی کاپٹرز، ڈرونز، کمانڈ سنٹر، جاسوسی کے اڈے سمیت عین الاسد میں موجود سب کچھ تباہ ہوچکا ہے اور امریکیوں نے لازمی طور پر بھاری جانی نقصان بھی اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا خیال تھا کہ امریکی جوابی کارروائی کریں گے، لیکن دراصل وہ ایرانی طمانچے کے پڑنے کے انتظار میں 2 دنوں سے مضطرب تھے۔ انہوں نے کہا کہ کئی دنوں سے 12 کے قریب امریکی جاسوس طیارے مسلسل پرواز میں مشغول تھے، جن میں سے 7 جہاز MQ-1 تھے، جو اس کارروائی کے بعد فوجی اڈوں میں واپس چلے گئے اور پھر تمام حالات معمول کے مطابق نظر آںے لگے۔
خبر کا کوڈ : 837694
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش