0
Thursday 14 Jul 2011 22:51

افغان علاقے کنڑ اور نورستان پاکستانی طالبان کے گڑھ بن چکے، وہاں شدت پسندوں‌ کے محفوظ ٹھکانے ہیں، پاک فوج

افغان علاقے کنڑ اور نورستان پاکستانی طالبان کے گڑھ بن چکے، وہاں شدت پسندوں‌ کے محفوظ ٹھکانے ہیں، پاک فوج
اسلام آباد:اسلام ٹائمز۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے کہا ہے افغان علاقے کنڑ اور نورستان سوات سے تعلق رکھنے والے طالبان کا گڑھ ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بہت سے شدت پسند گروہوں اور ان کے سرکردہ لیڈران نے فضل اللہ، فقیر محمد، عبدالولی اور حکیم اللہ نے کنڑ اور نورستان میں محفوظ ٹھکانے بنا لیے ہیں اور یہ گروہ سرحد پار کر کے پاکستانی علاقوں میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔ میجر جنرل اطہر عباس نے کا کہنا تھا کہ ان علاقوں سے جب نیٹو اور افغان فوجی اپنے پوسٹیں چھوڑ کر جا رہے تھے تو اس وقت پاکستانی فوج نے انھیں اپنے خدشات سے آگاہ کیا تھا اور اب یہ خدشات درست ثابت ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے علاقے دیر میں ایک گاؤں میں پاکستان کے ستائیس سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کی ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ یکم جون کا واقعہ ہے، جس کا تجزیہ کیا جا رہا ہے کہ یہ کن لوگوں نے کیا اور کن حالات میں پیش آیا۔ 
میجر جنرل اطہر عباس نے کہا کہ یکم جون کو پچاس سے ساٹھ دہشتگرد جن کا تعلق تحریک طالبان سوات سے تھا، کنڑ کے علاقے سے سرحد پار کر کے آئے اور انھوں نے لیویز اور پولیس کی مشترکہ چیک پوسٹ پر حملہ کر دیا۔ حملہ کے وقت چیک پوسٹ پر تیس سیکورٹی اہلکار موجود تھے، جنہیں ان دہشتگردوں نے سفاکانہ طریقے سے شہید کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ کمانڈر حفیظ اللہ عرف کوچوان، مفتی الدین عرف شبر اور تور ملا دیر سے تعلق رکھنے والے تین کمانڈر تھے جو حملہ آووروں کی سرکردگی کر رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ یہ طالبان دیر سے ہی کنڑ گئے ہیں اور وہاں انھوں نے محفوظ پناہ گاہ بنائی ہوئی ہیں۔ ان گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے میجر جنرل اطہر عباس نے کہا کہ پاکستان کی فوج کنڑ میں کارروائی تو نہیں کر سکتی، لیکن پشاور میں ایک جوائنٹ کمیشن بنایا گیا ہے اور تمام حقائق اس کے سامنے رکھ دیئے گئے ہیں۔ یہ کمیشن ہی فیصلہ کرے گا کہ ان عناصر کے خلاف کیا کارروائی کی جائے۔ 
ماضی میں سامنے آنے والی فوج کی طرف سے گرفتار شدہ شدت پسندوں پر تشدد اور ہلاک کرنے کی ویڈیوز کے بارے میں ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ پاکستانی فوج کا اس سلسلے میں بہت سخت رویہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ فوج کے اعلٰی حکام نے ایسے اہلکاروں اور افسران جو کسی بھی اس قسم کے واقعے میں ملوث پائے گئے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی ہے اور برطرفیاں بھی ہوئی ہیں۔ میجر جنرل اطہر عباس نے کہا کہ ان میں کئی ایک ویڈیوز جعلی بھی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستانی فوج کے اندر ضابطے کی کارروائیوں کے بارے میں تفیصلات اس لیے کبھی عام نہیں کی گئیں کیونکہ ان سے فائدے سے زیادہ نقصان ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 85074
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش