0
Tuesday 4 Aug 2009 11:16

قومی اسمبلی میں سانحہ گوجرہ کیخلاف مشترکہ مذمتی قرارداد منظور،سپریم کورٹ نے آمریت کا راستہ بند،پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کرلیا:گیلانی

قومی اسمبلی میں سانحہ گوجرہ کیخلاف مشترکہ مذمتی قرارداد منظور،سپریم کورٹ نے آمریت کا راستہ بند،پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کرلیا:گیلانی
 اسلام آباد:قومی اسمبلی میں تمام پارلیمانی جماعتوں نے مشترکہ طور پر سانحہ گوجرہ کے خلاف مزمتی قرار داد کو متفقہ طور پر منظور کر لیا ۔وزیر اقلیتی امور شہباز بھٹی اور مسلم لیگ ق کے پارلیمانی لیڈر مخدوم فیصل صالح نے الگ الگ قرار دادیں پیش کی تھیں جن کو یکجا کر دیا گیا تھا پہلی قرار داد وزیر اقلیتی امور شہباز بھٹی نے پیش کی ۔جس میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان گوجرہ اور کوریاں کے سانحے کی مذمت کرتا ہیے اور ذمہ داران کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کی سفارش کرتا ہے۔سانحہ میں جانی و مالی نقصانات پر افسوس کا اظہار کر تے ہوئے ہلاک شدگان کے خاندان سے افسوس کا اظہار کیا گیا ۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان عزم کرتا ہے کہ اقلیتوں کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمودات 1973ء کے آئین کے مطابق تحفظ فراہم کر نے کی یقین دہانی کراتا ہے۔مخدوم فیصل صالح حیات نے بھی مذمتی قرارداد پیش کی جس میں کہا گیا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں نے حکومت کو واقعہ کی پیشگی اطلاع دے دی تھی مگر حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی، واقعہ کا سخت نوٹس لینا ضروری ہے۔ قرار داد کو وزیر اقلیتی امور کی قرار داد کے ساتھ یکجا کر دیا گیا اور ایوان نے مشترکہ قرار داد کو اتفاق رائے سے منظور کر لیا۔ جبکہ سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ق کے اراکین گوجرہ کے افسوس ناک واقعات کے خلاف احتجاجاً واک آؤٹ کر گئے ۔ سابقہ حکومتی جماعت نے اس سانحہ کی ذمہ داری حکومت پر عائد کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ آئین کے مطابق اقلیتوں کے ،حقیقی معنوں میں تحفظ کو یقینی بنایا جائے ۔ایوان میں نکتہ اعتراض پر پاکستان مسلم لیگ ق کے پارلیمانی لیڈر مخدوم فیصل صالح حیات نے کہا کہ سپریم کورٹ نے واضح انداز میں کہا ہے کہ جو معاملہ پارلیمنٹ کی ذمہ داری تھی اس کا ہم نے جائزہ لیا عدلیہ کے فیصلے کے بعد ایوان کا اجلاس ہو رہا ہے وزیر اعظم اور وزراء بار بار پارلیمنٹ کی بالادستی کا دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ فیصلہ پارلیمنٹ میں کیا جائے گا، نصف کابینہ ملک سے باہر ہے، پارلیمانی نظام میں دلچسپی کا یہ عالم ہے۔ آئین نے اقلیتوں کو تحفظ دیا ہے، حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے یقینی بنائے، سانحہ گوجرہ کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہو تی ہے ، ایوان کو صرف دن پورے کر نے کے لئے نہ چلایا جائے ۔حکومت سے درخواست ہے کہ ایوان کا اجلاس اس وقت تک جاری رکھیں جب تک قومی اور آئینی ایشوز کو حل نہ کر لیا جائے، مسلم لیگ ق کے اراکین سانحہ گوجرہ کے خلاف ورزی پر واک آؤٹ کر گئے، وفاقی وزراء سید خورشید شاہ ،راجہ پرویز اشرف و دیگر انہیں منا کر ایوان میں لے آئے۔ حکومت، اپوزیشن کے اراکین نے سانحہ گوجرہ کے ذمہ داران کے تعین کیلئے اعلیٰ سطح کا تحقیقاتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کر دیا ۔ تحقیقات مکمل ہونے تک الزام تراشی نہ کی جائے۔ سانحہ میں ملوث عناصر کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ایوان کی معمول کی کارروائی کو معطل کر کے اس سانحے پر بحث کی گئی ۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما پرویز خان ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ انتظامیہ نے موثر اقدامات میں تاخیر سے کام لیا ۔ گوجرہ کے واقعہ کی پانچ روز تک ایف آئی آر درج نہ ہونا غفلت ہے ،جس کی ذمہ داری ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ضلعی انتطامیہ پر عائد ہوتی ہے ۔ ایم کیو ایم کے رکن عبدالقادر خانزادہ نے کہا کہ اقلیتوں نے ملک کیلئے قربانی دی ہے ۔ سانحہ گوجرہ کی وجہ سے دنیا بھر میں ملک کی بدنامی ہوئی ہے۔ اعلیٰ سطح پر تحقیقات کی جائیں ۔ مسلم لیگ (ق) کی رکن ماروی میمن، فرخندہ امجد وڑائچ نے بھی سانحہ گوجرہ کی مذمت کی ،پی پی پی کے رکن نواب یوسف تالپور نے کہا کہ اعلیٰ سطح کا تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے ،متاثرہ خاندانوں کی اقتصادی امداد کی جائے،مسلم لیگ (ن) کی خاتون رکن شیریں ارشد نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے سب کام چھوڑ کر اس واقعہ کا نوٹس لیا ہے ملک انتہا پسندی کی زد میں ہے، الزام تراشی نہ کی جائے، اعلیٰ سطح کی تحقیقات کی جا رہی ہیں رپورٹ کا انتظار کیا جائے، کشمالہ طارق نے بھی واقعہ کی ذمہ داری پنجاب حکومت پر عائد کی اور فیکٹ فائنڈنگ کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا،قومی اسمبلی کے اجلاس میں توجہ دلاو نوٹس کے جواب میں وفاقی وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ غیر مستقل وفاقی ملازمین کو مستقل کرنے کے حوالے سے قائم کمیٹی کی سفارشات کی بنیاد پر تمام ملازمین کو مستقل کر دیا گیا ہے، باقی ماندہ ملازمین قوانین پر عمل درآمد کرتے ہوئے بھرتی نہیں کئے گئے،ان آسامیوں پر میرٹ کی بنیاد پر بھرتیاں کی جائیں گی اور اگر غیر مستقل ملازمین اہل ہوئے تو انہیں ضرور موقع دیا جائے گا،حکومت باقاعدہ اشتہارات کے ذریعے میرٹ پر نوکریاں دے گی،پچھلے دروازے سے بھرتیاں بند کر دی گئی ہیں۔ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فیصل کریم کنڈی نے وقفہ سوالات کے دوران وفاقی سیکرٹری سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور وفاقی سیکرٹری ریاستی و سرحدی امور کی ایوان میں عدم موجودگی کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ جو وفاقی سیکرٹری ایوان میں ہدایات کے باوجود نہیں آئے ان کیخلاف کارروائی کی جائے ، تادیبی کارروائی کرنے کا حکم دیا۔دریں اثناء قومی اسمبلی نے انضمامی ریاستوں کے حکمرانوں کے ذاتی اخراجات اور مراعات میں اضافے کے بل کی منظوری دیدی ہے،وفاقی وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے وزیر سیفران کی جانب سے انضمامی ریاستوں کے حکمرانوں کے حکم(ذاتی اخراجات و مراعات کا خاتمہ) 1972ء میں ترمیم کا بل پیش کیا جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا ہے۔ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی فیصل کریم کنڈی نے اسمبلی اجلاس آج ساڑھے دس بجے تک ملتوی کرنے کا اعلان کیا۔
اسلام آباد:وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے سے نا صرف پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہو گی بلکہ ملک میں آمریت کا راستہ ہمیشہ کیلئے بند ہو گیا ہے، حکومت نے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں فوری عمل درآمد شروع کر دیا ہے،وزیر اعظم شرم الشیخ میں بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات انتہائی کامیاب رہی، جس میں تمام تصفیحہ طلب مسائل کو جامع مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا گیا، جبکہ گوجرہ میں رونما ہونے والا واقعہ قابل مذمت ہے اقلیتیں ملک کا پانچواں ستون ہیں اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے پیر کی شام قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کا فیصلہ، شرم الشیخ میں بھارت وزیراعظم سے ہونے والی ملاقات کے حوالے سے پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہوئی ہے بلکہ جمہوری اداروں کو استحکام بھی ملا ہے سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں تین نومبر کے غیر آئینی اقدامات کی توثیق نہ کرنے پر پارلیمنٹ کو خراج تحسین پیش کیا حکومت نے فیصلہ آنے کے فوراً بعد ہی اس پر عملدر آمد شروع کر دیا جن76  ججوں کو کام کرنے سے روکنے کا حکم دیا گیا تھا ان کے کیس سپریم جوڈیشل کونسل میں دے دیئے گئے ہیں سپریم کورٹ کے فیصلے سے اس ملک میں آمریت کا راستہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رک گیا ہے ماضی میں اس طرح کے مقدمات میں اربوں روپے خرچ کئے گئے مگر اس تاریخی فیصلہ پر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوا انہوں نے کہا کہ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں 31 جولائی کے بعد 120 دنوں میں 37 آرڈیننس منظوری کیلئے ایوان میں لائے گئے۔ 37صدارتی اورصوبوں میں گورنروں کی طرف سے جاری آرڈیننسوں کو 120 اور 90 روز کے اندر پارلیمنٹ اور متعلقہ صوبائی اسمبلیوں میں پیش کرنا ضروری ہے، قومی تاریخ میں پہلی مرتبہ وفاقی حکومت نے ایک جنرل کے غیر آئینی اقدامات کی حمایت نہیں کی،انہوں نے کہا کہ تین نومبر کو ایک آمر نے ساٹھ ججوں کو گرفتار کیا ملک میں جمہوریت قائم ہونے کے ساتھ ہی میں نے بطور وزیراعظم پہلا حکم انہی ججز کی رہائی کا دیا تھا حکومت نے کبھی بھی آمریت کو سپورٹ نہیں کی ہم آئین و پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں اور تمام معاملات جمہوری انداز میں آگے بڑھانا چاہتے ہیں،3نومبر 2007ء اقدامات کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ جمہوری اداروں کو مضبوط اور غاصبوں کا راستہ روکنے کیلئے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی بالادستی کو بھی تسلیم کیا ہے، فیصلے سے ملک میں منفی عزائم رکھنے والے عناصر بھی ناکام ہو گئے ہیں ، بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ امن کے قیام کے بارے میں مثبت سوچ رکھتے ہیں، مذاکرات ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے،وزیراعظم نے اہم قومی ایشوز بالخصو ص پاک بھارت مذاکرات کے بارے میں ایوان کو اعتماد میں لیا۔وزیراعظم نے سانحہ گوجرہ کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ سانحہ گوجرہ کے متاثرین کو معاوضہ دیں گے، وفاقی حکومت نے اس واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے، وزیراعلیٰ پنجاب سے بات چیت کی گئی ہے، تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے، رپورٹ کو ایوان میں پیش کیا جائے گا، سانحہ گوجرہ کے نقصانات کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے ،سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے وزیر اعظم نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے تین نومبر کے پی سی او اور ایمر جنسی کو غیر آئینی قرار دیا ہے ہم نے اس وقت بھی ایمرجنسی اور پی سی او کی مخالفت کی تھی۔سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم کرتے ہیں، پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی تعریف اور تحسین بھی کی ہے عدلیہ کا فیصلہ یاد گار ہے ، شرم الشیخ میں منعقدہ نام کانفرنس کے موقع پر بھارتی وزیراعظم کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے حوالے سے قومی اسمبلی کو اعتماد میں لیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اس موقع پر بھارت کے ساتھ تمام اہم امور پر بات چیت ہوئی ،یہ ملاقات انتہائی کامیاب رہی۔ جس کی سب سے خاص بات مشترکہ اعلامیہ تھا جس میں دونوں ممالک کے مابین تمام تصفیہ طلب معاملات کو حل کرنے کیلئے مذاکرات کے سلسلے پر اتفاق کیا گیا، مشترکہ اعلامیہ سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آئے گی میں نے من موہن سنگھ کے ساتھ ملاقات میں بلوچستان اور ملک کے دیگر علاقوں میں بھارتی مداخلت کے حوالے سے بات کی تھی، ہم بھارت کے ساتھ برابری اور عزت و احترام کی سطح پر تعلقات کے خواہاں ہیں ،بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ پر ہمیں مکمل اعتماد ہے کہ وہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو بہتر کرنے کیلئے سنجیدہ اقدامات کریں گے، ملاقات میں ممبئی حملوں کے حوالے سے بھی بات ہوئی، دہشت گردی دونوں ممالک کیلئے خطرہ ہے، جس کا ہم نے ملکر مقابلہ کرنا ہے ،امن قائم کرنے کیلئے کشمیر اور پانی جیسے اہم معاملات پر مذاکرات ہونے ضروری ہیں، تاکہ انہیں بات چیت کے ذریعے حل کیا جاسکے انہوں نے کہا کہ فارن سیکرٹری کی سطح پر مذکرات کے بعد دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ ستمبر میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں ملاقات کریں گے ، خطہ میں دیرپا امن قائم کرنے اور عوام کی ترقی کیلئے کشمیر سمیت تمام مسائل کا حل ہونا ضروری ہے گوجرہ واقعات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ حکومت اور تمام اپوزیشن جماعتیں ان واقعات کی مذمت کرتی ہیں، اقلیتیں اس ملک کا پانچواں ستون ہیں واقعات کے فوراً بعد میں نے وزیراعلیٰ پنجاب سے بات کی ،جنہوں نے جوڈیشل انکوائری کا پہلے ہی حکم دے دیا ہے، سانحہ میں ہونے والے نقصان کا اندازا لگانے کیلئے بھی کمیٹی قائم کی گئی ہے اس میں ملوث افراد کو نہ صرف قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا بلکہ متاثرین کو ہر ممکن امداد بھی فراہم کی جائے گی۔

خبر کا کوڈ : 9196
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش